Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاست ، تنقیداور احترام

***غلام مرتضیٰ باجوہ*** 
  صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئند عام انتخابات کیلئے عوامی جلسوں میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی قائدین ملکی وقوم کی فلاح وبہبود کی بجائے قومی اداروں پر شدید تنقید کر تے نظر آرہے ہیں۔ پروفیسر احسن اقبال حلقہ این اے 117 نارووال سے  2013میں95481ووٹ ،2008  میں66633ووٹ ، 1997 میں 59677ووٹ ،1993میں 54893 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔انکے ساتھ ایک تقر یب میںجوتا پھینکنے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا،چنددنوں بعدخواجہ محمد آصف سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ہیں، جو مسلم لیگ (ن)سے وابستہ ہیں، وہ حلقہ این اے110سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کے کئی بار رکن رہے۔ ان کے ساتھ کچھ ایسا ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں نوجوان نے انکے چہرے پر سیاہی پھینک دی ۔
تیسرے واقعہ میں 3 بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف نے 1976ء میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔نواز شریف کی سیاسی میدان میں باقاعدہ انٹری 1980ء میں ہوئی جب اس وقت کے گورنر پنجاب غلام جیلانی خان نے انہیں صوبائی وزیر خزانہ تعینات کیا۔ 1981ء میں جنرل ضیاء الحق کے پنجاب ایڈوائزری بورڈ کے رکن بن گئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں میاں نواز شریف قومی اور صوبائی دونوں سیٹوں پر کامیاب ہو ئے۔ان کو ایک شخص نے تقریب کے دوران جوتے کا نشانہ بناڈالا۔
ان افسوسناک واقعات پرپاکستان کی تمام سیاسی ، مذہبی جماعتوں سمیت وکلاء ،سماجی و تاجرتنظیموں کے نمائندوں کی جانب سے شد ید ردعمل کااظہارکرتے ہوئے بھرپور مذمت کی گئی اور ملوث افراد کو سزادینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تودوسری جانب سستی شہرت حاصل کرنے وا لے چند افراد کی جانب سے یہ بھی بات سامنے آئی ہے کہ یہ عوامی احتساب ہے لیکن پاکستان کا قانون اورآئین کسی بھی شہری کی توہین کر نے کی اجازت نہیں دیتا،چاہے وہ کسی سیاسی ،مذہبی ، سماجی تنظیم سمیت دیگر شعبے زندگی سے تعلق رکھتاہو۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما  اس حقیقت سے انکارکرتے رہے اور کررہے ہیں۔انکاکہناہے کہ نوازشریف کو نیوکلیئر میزائل کے دھماکوں کی قیمت خود جلاوطنی اور پارٹی کو تقسیم کرنے کے ذریعے ادا کرنا پڑی اور اب بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر حکومت سے آئوٹ کردیاگیاہے۔ مخالفین پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ‘درحقیقت وہ اسی درخت کی شاخ کاٹ رہے ہیں جس پر وہ خود براجمان ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیںکہ جس معاشرے میں آداب احترام کی تمیز نہیں رہتی وہ معاشرہ تباہ ہوجاتاہے ۔سیاستدانوں کو بھی اپنے رویئے تبدیل کرنے چاہئیں۔جلسے ،جلوس ، کنونشن، سیمینار وں کا انعقادکرنے کامقصدذاتی مفادات یا قومی اداروں پرتنقید نہیں ہونا چاہئے بلکہ ملک وقوم کی فلاح وبہبود کیلئے کئے گئے اقدامات کے بارے میں تقریر کی جائے اور ان پر عوامی رائے اور عوام کو درپیش مسائل پر بھی غورکیا جائے۔
ماہرین  ومبصرین کا کہنا ہے کہ چند دنوں میں تقریبات میں افسوسناک واقعات پیش آنا مسلم لیگ نواز سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کیلئے نیک شگون نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کیلئے باعث تشویش ہے ۔ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے عدم برداشت کے رویوں کا خاتمہ کرنا چاہئے ۔ دوسری جانب پیپلزپارٹی کے رہنما   قمر زمان کائرہ سمیت کئی سیاسی رہنما ئوں نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ نوازشریف ہرحال میں عدالت پر حملہ آورہوں گے۔نوازشریف سپریم کورٹ پر 1998 ء سے بڑاحملہ کرنے والے ہیں۔ انکا مزاج ہی ایسا ہے۔ وہ میرٹ کی پالیسی کے قائل ہی نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انتقام، مفادات پرمبنی قانون سازی کی مزاحمت کریں گے۔ تنقید جمہوریت کا حسن ہے لیکن قومی اداروں کو گالیاں دینا مہذہب قوم کاشیوہ نہیں اسلئے  مسلم لیگ نواز کو 1998ء کی سیاست اور ملکی نظام سے بغاوت جیسے اعلانات کو ترک کرناہوگا کیونکہ اب وہ صورتحال نہیں اور2018ء کے عام انتخابات بھی قریب ہیں۔  

شیئر: