Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ، امریکی موقف میں ہم آہنگی

نیوزڈیسک
ولی عہد ووزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت میں ہونے جارہا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان ایران کے حوالے سے موقف میں مکمل آہنگی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امن واستحکام متزلزل کرنے میں ایران کا کردار کسی سے چھپا نہیں ۔ ٹرمپ انتظامیہ کو اس حوالے سے سعودی عرب کی پریشانی کا مکمل اندازہ ہی نہیں بلکہ اسے بھی ایران کی اچھل کود سے پریشانی کا سامنا ہے۔ سابق امریکی انتظامیہ کے برعکس ٹرمپ انتظامیہ کو ایران کی شام ، لبنان ، عراق اور یمن میں مداخلت اور اپنی سلطنت کی وسعت کےلئے کی جانے والی کوشش ایک آنکھ نہیں بھاتی۔سعودی عرب بہت پہلے سے ایران کی اس اچھل کود سے دنیا کو آگاہ کرتا رہا ہے، اب ٹرمپ بھی اس خطرناک کھیل سے دنیا کو خبردار کر رہا ہے۔
خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی ایران کی کوششوں کے سامنے سعودی عرب دیوار بنا ہوا ہے۔سعودی عرب خطے کی نہ صرف مضبوط طاقت ہے بلکہ عرب اور اسلامی دنیا کا موثر ترین ملک بھی ہے اور اس پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خطے کے استحکام کےلئے اپنا کردار ادا کرے۔یہی صورتحال امریکہ پر بھی منطبق ہے کہ وہ دنیا کا سپر پاور ہے اور اس پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہے کہ وہ اس خطے کے استحکام کےلئے آگے بڑھ کر کردار ادا کرے۔ یہی مشترکہ نکتہ ہے جس پر ولی عہد اور امریکی صدر ٹرمپ مذاکرات کا آغاز کریں گے۔ولی عہد کا دورہ امریکہ کا وقت بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہونے جارہا ہے جب امریکہ ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے کو ختم کرنے کےلئے پر تول رہا ہے ۔ایک اور مناسبت بھی دورے کے اہداف اور مقاصد کو تکمیل تک پہنچانے میں مدد فراہم کر رہی ہے اور وہ یہ گزشتہ دنوں امریکی صدر نے اپنے وزیر خارجہ کو معزول کیا تھا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ سابق وزیر خارجہ ٹلر سن اور ٹرمپ کے درمیان ایران، شمالی کوریا اور دیگر کئی اہم معاملات میں اتفاق رائے نہیں تھا۔ ٹلر سن ایران کے ساتھ ہونے والے ایٹمی معاہدے سے دستبرداری کے بھی خلاف تھے۔ اب جبکہ ٹرمپ انتظامیہ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے تو امریکی صدر نے اپنے مغربی شرکاءکوایران کے ساتھ معاہدے کی متعدد شقوںکا ازسر نو جائزہ لینے کےلئے 120دن دیئے ہیں۔
ایران کی ریاستی دہشت گردی اس حد تک موقوف نہیں کہ وہ اپنے پڑوسیوں کےلئے خطرناک عزائم رکھتا ہے بلکہ اس کی کوشش ہے کہ اسے ایٹم بم حاصل ہوجائے۔ ایسا ہوگیا تو پورے خطے میں طاقت کا توازن پگڑ جائے گا۔اس سے اسلحہ کی وہ دوڑ شروع ہوگی جو کہیں جاکر دم لینے کا نام نہیں لے گی۔اس سے نہ صرف خطہ تباہی کی دہانے تک پہنچ جائےگا بلکہ اس کی لپیٹ میں دیگر ممالک بھی ہوں گے۔ ایران کی خطرناکی اس حد تک نہیں بلکہ وہ مسلح ملیشیاﺅں اور شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی بھی کرتا ہے اور ان کے ذریعہ اپنے مفادات کا حصول کرتا ہے۔ اس نے لبنان میں حزب اللہ جیسی دہشت گرد تنظیم پال رکھی ہے ۔ یمن میں حوثی باغی اور شام اور عراق میں بھی زرخرید جنگجو تیار کر رکھے ہیں جونہ صرف خود اپنے ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں بلکہ پورے خطے کا امن اور استحکام متزلزل کر رہے ہیں۔جہاں ایران زرخرید جنگجوﺅں کی ذریعہ مداخلت نہیں کرسکتا وہاں وہ فرقہ واریت کو ہوا دے کر امن وامان اور ملکی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
امریکہ کو ایران کے حوالے سے ان تمام صورتحال کا پورا اندازہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے کئی مرتبہ سعودی عرب کی مساعی کو سراہا ہے۔ ریاض میں اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس میں اپنے تاریخی خطاب میں بھی انہوں نے کہا تھا کہ ایران کی وسعت پسند پالیسی کے خاتمے کےلئے تمام اسلامی ممالک کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ولی عہد نے دورہ امریکہ سے قبل سی بی ایس نیوز چینل کو جو انٹر ویو دیا تھا اس نے کئی پہلوﺅں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے خامنہ ای کو موجودہ دورکا ہٹلر قرار دیا تھاکیونکہ وہ ہٹلر کی طرح دنیا کو تباہ کرکے اپنی ریاست کو وسعت دینے کی کوشش میں تھا۔ دنیا کو ہٹلر کی خطرناکی کا اندازہ اُس وقت ہوا جب دنیا تباہ ہوچکی تھی۔ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ مشرق وسطیٰ میں ایک نیا ہٹلر پیدا ہو جس کی خطرناکی کا اندازہ دنیا کو اس وقت ہو جب پورا خطہ تباہی سے دوچار ہوجائے۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: