Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں جامع اقتصادی اصلاحات

عیسیٰ الحلیان ۔عکاظ
سعودی عرب میں کئی دہائیوں تک معیشت میں تیزی سرکاری اخراجات پر دارومدار رکھتی تھی۔ سرکاری اخراجات کی بنیاد پر ہی منڈی میں تیزی اور مندی آجاتی تھی۔ جب سرکاری اخراجات میں اضافہ ہوتا تو معیشت کا پہیہ تیزی سے گھومنے لگتا اور جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گر جاتی تھیں تو سرکاری اخراجات میں فطری طور پر کمی ہوجاتی جس کا براہ راست نتیجہ ملکی معیشت پر بھی پڑتا تھا۔مسئلہ صرف عالمی منڈی میں تیل کی گرتی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے آگے کہیں اور بھی تھا۔ سرکاری اخراجات کا دیگر ممالک سے تقابل کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سرکاری اخراجات کی عالمی شرح میں سعودی عرب کا تناسب کہیں زیادہ تھا۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ ایک سال ایسا بھی تھا جس میں ملکی بجٹ میں سرکاری اخراجات کا حجم 94.8فیصد تھا۔ ملکی آمدنی میں سے صرف 5.2فیصد باقی بچے تھے جنہیں ترقیاتی کاموں پر خرچ کیا جاتا۔
جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی تھیں وہ ملکی آمدنی کا سنہری دور تھا۔ یہ 1993ءسے 2005ءتک کے درمیان کا عرصہ ہے۔ جب سرکاری ا خراجات میں 43فیصد اضافہ ہوا۔10سال کے دوران ملک کی مجموعی آمدنی میں سے عمومی طور پر 89.5فیصد سرکاری اخراجات ہوتے۔ دیکھا جائے تو یہ شرح بہت زیادہ ہے۔ میرا ذاتی طور پر خیال ہے کہ وژن 2030 او رآمدنی کے مختلف ذرائع اختیار کرنے سے سرکاری اخراجات کی یہ شرح دوبارہ نہیں ہوگی۔1993ء اور 2002ءکے درمیان چند سال ایسے بھی تھے جن میں تیل کی آمدنی سے کہیں زیادہ سرکاری اخراجات ہوتے او ربجٹ خسارہ حکومتی قرضوںسے پورا کیا جاتا تھا۔ یہ بات بذات خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے ملک میں اقتصادی اصلاحات کریں اور معاشی پالیسیوں پر ازسر نو نظر ثانی کریں۔ مثال کے طور پر 1993ءمیں تیل آمدنی 105بلین ریال تھی جبکہ اس سال سرکاری اخراجات کا حجم 157بلین ریال سے تجاوز کر گیا۔ اسی طرح 1994ءمیں سرکاری اخراجات 139بلین ریال تھے جبکہ تیل آمدنی 95 بلین ریال تھی۔ یہ صورتحال 13سال تک مسلسل جاری رہی جس میں سرکاری اخراجات آمدنی سے تجاوز کرر ہے تھے۔ اس عرصے کے دوران سرکاری خزانے میں بچت کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ اصولی طورپر ہونا یہ چاہئے تھا کہ جب تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں تو اس وقت سرکاری اخراجات کم کرکے مستقبل کیلئے کچھ بچت کرلی جاتی اور محفوظ فنڈ قائم کرلیا جاتا جبکہ سعودی عرب میں آبادی کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا۔
آج ہمیں بالکل مختلف صورتحال کا سامنا ہے۔ حکومت جامع اقتصادی اصلاحات کررہی ہے۔ تیل کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی پر توجہ دی جارہی ہے۔ سرکاری اخراجات میں مسلسل کمی کی جارہی ہے اور معیشت میں استحکام کیلئے منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ تیل کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی کی بنیاد پر ہم سرکاری اخراجات اور آمدنی میں توازن پیدا کرسکتے ہیں۔ وژن 2030 کی اصل روح بھی یہی ہے کہ صارف معاشرے کو پیداواری معاشرے میں تبدیل کیا جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: