Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ولی عہد کے دورے سے اسٹراٹیجک شراکت کی نئی بنیادیں استوار ہونگی

شہزادہ خالد بن سلمان
(امریکہ میں سعودی سفیر)
عکاظ
انسانی تاریخ میں بہت ہی کم ایسے مواقع پیدا ہوتے ہیں جب قیادت قومی معیشت کی بہتری کیلئے فیصلہ کن پالیسی اختیار کرتی ہے۔ بنیادوں کو ہلائے بغیر معاشرے کی سوچ و فکر میں تبدیلی اصل چیلنج ہے جس پر سعودی قیادت کا م کررہی ہے۔ کئی دہائیوں تک سعودی عرب ایسی معاشرتی اور ثقافتی روایات پر عمل کرتارہا ہے جس پر کسی نے کبھی نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس پر ملکی ترقی کا پہیہ ایک جگہ پر آکر جمود کا شکار ہوگیا۔ ہماری قیادت نے ہدف تک پہنچنے کیلئے نئی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ ملکی معیشت اور معاشرے کی ان صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جائے جن کو اب تک کسی نے استعمال نہیں کیا۔
2سال قبل ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت پر وژن 2030 متعارف کرایا تھا۔ یہ معاشی،معاشرتی اور ثقافتی اصلاح کا وہ تصور ہے جس پر عمل درآمد کرکے سعودی عرب میں تبدیلی لائی جارہی ہے۔ ولی عہد جو وژن کے روح رواں ہیں اور کچھ کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں، انہیں آبادی کی سب سے بڑی شرح کی ضرورتوں کا علم ہے۔ سعودی عرب میں آبادی کی سب سے بڑی شرح نوجوانوں کی ہے جبکہ ولی عہد خود اس طبقے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ ہماری پرانی روایات اور تصورات اس وقت کےلئے صحیح تھے مگر اب آبادی کی سب سے بڑی شرح کی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتے۔ تبدیلی کی ضرورت بدلتے ہوئے معاشرے کا تقاضا ہے۔تبدیلی کی ہوائیں چلنے لگی ہیں جن کے خوشگوار نتائج بہت جلد سامنے آئیں گے۔ ہم اپنے ملک میں خواتین کو وہ تمام حقوق دے رہے ہیں جو پہلے انہیں کسی وجہ سے فراہم نہیں تھے۔ ہم حجاج اور معتمرین کی خدمت کا معیار زیادہ بلند کررہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ مختلف صنعتوں میں بڑے منصوبے شروع کئے جائیں۔ ہم نے سیاحوں کے سامنے اپنے ملک کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ مقامی تفریح کا آغاز کیا ہے اور اسے باقاعدہ صنعت کی شکل دی ہے۔ سعودی عرب کی ثقافت، روایات اور عادات و اطوار کے دائرے میں رہتے ہوئے صاف شفاف تفریح فراہم کرسکتے ہیں۔ یہی اصلاحی اقدامات ہم صحت اور تعلیم کے شعبے میں بھی کررہے ہیں۔ جن چیزوں کا میں نے ذکر کیا ہے یہ وسیع البنیاد اصلاحی اقدامات میں سے چند نمونے ہیں، ورنہ اصلاحی اقدامات بے شمار ہیں۔
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جو ان دنوںسرکاری دورے پر امریکہ آئے ہوئے ہیں، کی متعدد امریکی حکام سے ملاقاتیں ہونگی ۔وہ خود اصلاحی اقدامات کے حوالے سے زیادہ بہتر معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔ امریکی حکام او رعوام ان اصلاحات کے حوالے سے آگاہ ہونگے۔ اس دورے کا بنیادی مقصد سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان اسٹراٹیجک شراکت کی نئی بنیادیں استوار کرنا ہیں۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان بہترین تعلقات ہیں اور بہت پہلے کے ہیں۔ دورے کے دوران باہمی تعاون ریاض کانفرنس کی بنیاد پر ہوگی جس میں دونوں ممالک کی قیادتوں نے تعلقات کے فروغ کےلئے متعدد معاہدے کئے تھے۔ ولی عہد امریکہ میں اس لئے نہیں آئے کہ وہ یہاں امریکی حکام سے سیاسی پالیسیوںپر گفتگو کریں۔ انکے دورے کا بنیادی مقصد معیشت ہے۔ وژن 2030 کے تحت سعودی عرب میں سرمایہ کاری کے بے شمار مواقع ہیں۔ امریکی حکام اور سرمایہ کاروں کو ان مواقع سے آگاہ کرکے انہیں یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اس وژن کے حصول میں ہمارے شریک ہوں۔ ولی عہد کا دورہ امریکہ دراصل خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا سال رواں کے دوران ہی امریکہ کے دورے کی راہ ہموار کررہا ہے۔
ولی عہد واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کانگریس کے متعدد ارکان سے ملاقات کرینگے۔ ان ملاقاتوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تاریخی تعلقات مزید مستحکم ہونگے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ حکمراں جماعت اور حزب مخالف دونوں کے ارکان سعودی امریکی تعلقات کے استحکام کے نہ صرف حامی ہیں بلکہ اسے مزید فروغ دینے کیلئے کوشاں ہیں۔ ولی عہد انسداد دہشتگردی کے حوالے سے بھی کی جانے والی مشترکہ کوششوں کو اپنے ایجنڈے میں شامل کئے ہوئے ہیں۔ انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ بھی ترجیحات میں شامل ہے۔ ٹرمپ کے دورِ حکومت میں امریکہ نے کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات نکتہ¿ عروج پر ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ممالک اپنے مفادات کے تحفظ کےلئے مل کر کام کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: