Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا امن کےلئے کابل سنجیدہ ہے؟

***سید شکیل احمد***
ٓ مشیر سلا متی امور نا صر جنجو عہ نے  افغانستان کے دورے کے دوران اپنے ہم منصب حنیف اتمر سے بات چیت کے  علا وہ اعلیٰ افغان رہنما ؤں سے بھی ملا قاتیں کی تھیں جن میں افغان صدر اشرف غنی ، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ وغیر ہ بھی شامل رہے ۔ اس مو قع پر افغان صدر اشرف غنی نے پا کستان کے مشیر سلا متی  امور کو بتایا کہ افغانستان نے دہشت گردی کے خلا ف جنگ جیتنا نہیں ہے بلکہ ختم کر نا ہے۔ دہشت گر دی کے خاتمے کیلئے پاکستان افغانستان کی مد د کر ے ۔ نا صر جنجو عہ کے دفتر سے اس دورے کے بارے میں جو بیا ن جا ری ہوا ہے۔ اس کے مطا بق افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ  وہ امن کی ایک  مخلصانہ اور سنجید ہ پیشکش کر رہے ہیں ۔ناصر جنجو عہ کے اس دورے سے متعلق اپنے تاثر ات میں قومی سلا متی امورکے  ترجما ن نے کہا کہ  وقت آگیا ہے کہ پا کستان افغانستان تعلقات بہتر کر نے کی کو شش کی جائے۔  افغان رہنما ؤں کا مثبت اندا ز اندھیر ے میں روشنی کی کر ن ہے ۔   اس کے علا وہ ایک پا کستانی خبر رساں ایجنسی کے مطا بق افغان چیف ایگزیکٹیو  عبداللہ عبداللہ نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا ہے کہ پاکستان  اور افغانستان نے اتفا ق کیا ہے کہ طالبان کو نئی پیشکش سے فائد ہ اٹھانا چاہیے ۔ 
بظاہر افغانستان کا مو قف بہت سنہر ا ہے مگر اصل معاملہ نیتو ں کا ہے۔ آیا افغانستان جنگ کے خاتمے میں سنجید ہ ہے بھی یا ما ضی کی طرح محض لفا ظی کر کے پاکستان کے گھیر اؤمیں  مد د گار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کی کوئی اہم شخصیت افغانستان کا خیر سگالی دورہ کر تی ہے  تو اس مو قع پر افغانستان کا برقی اور  ورقی میڈیا پاکستان کے بارے میں ہرزہ  سرائی اور باقاعدہ منظم طو ر پر شروع کر دیتا ہے۔ اس مر تبہ بھی ایسا ہی کیا گیا جبکہ افغانستان میں آزاد  میڈیا کا کوئی تصور نہیں ۔ پاکستان کا نائن الیون کے  واقعہ کے بعد سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان کی  صور ت حال کا معاملہ بات چیت سے جڑ ا ہو ا ہے۔ جب نا ئن الیون کا  واقعہ رونما  ہو ا تھا اس  وقت بھی طالبان کے رہنما  ملا عمر نے امر یکہ کو اسامہ بن لا دن کے بارے میں  مذاکر ات کر نے کی پیشکش کی تھی اور کہا تھا کہ باہمی بات چیت کے  ذریعے معاملے کو سلجھا یا جا ئے مگر امریکہ نے اپنے تکبرمیں ایک نہ مانی۔ اگر اس وقت دانشمند ی سے کا م لے لیا جا تا تو آج خطے میں امن و سکون  ہو تا اتنی ہیبت نا ک تباہی بپا  نہ ہوئی ہوتی  ا س کے علاوہ گزشتہ12،15سال کے  دوران بات چیت کے ذریعے افغانستان میں سکو ن لا نے کی کئی کوششیں کی گئیں مگر سب کو  سبو تا ژ کیا گیا جس کا الزام طالبان پر عائد نہیں ہوتا ۔
امر یکہ کی چھیڑی ہو ئی دہشت گردی کی جنگ کے بارے میں باہمی مذاکر ات کی بات نا صرجنجو عہ کے  دورہ کا بل سے پہلے براہ راست افغانستان نے طالبان سے کہی ہے کہ طالبان مذاکرات کی میز پر آجائیں اور قومی دھا رے میں شامل ہو جا ئیں ان کو افغانستان کی سیا سی قوت تسلیم کرلیا جا ئے گا گویا  یہ پیشکش اسی طر ح ہے جس طر ح سابق جہا دی کما نڈر گلبدین حکمت یا ر کے  ساتھ ہوئی ہے۔ حکمت یا ر نے افغانستان میں غیر ملکی فوجوں کے خلا ف ہتھیا ر چھو ڑ کر  افغانستان کی سیا ست کا حصہ بناناقبول کیا۔ حکمت یار کے  وہی مطالبات تھے جو طالبان کے ہیں جن میں سب سے  اہم ترین مطا لبہ افغانستان سے غیر ملکی فوجو ں کا انخلا ء ہے  وہ بھی غیر مشر وط  طورپر اگر جا ئزہ لیا جا ئے تو حکمت یا ر اپنے فیصلے سے نا خوش لگ رہے ہیں مگر اب ان کے پا س عسکر ی قوت نہیں رہی  چنا نچہ ان کو  اسی پر گزار ہ کر نا پڑ رہا ہے کیونکہ امریکہ اپنا ایجنڈا نا مکمل چھو ڑ کر افغانستان سے انخلا کر تا نظر نہیں آرہا  اور  اگر امر یکہ ایجنڈے کی تکمیل ہو بھی جائے تو بھی وہ وہاں سے نہیں نکلے گا کیونکہ پھر نکلنے کا کوئی جو ا زنہیں رہے گا ۔  امریکہ  تو اب مذاکرات کے نئے ہتھکنڈ ے اپنے مقاصد کے حصول کیلئے ہی استعما ل کر رہا ہے 
جہا ں تک پا کستان کی جانب سے طالبان اور افغانستان کے ساتھ مذاکر ات کی میز پر بیٹھنے کا تعلق ہے  تو پاکستان افغانستان میں طالبان اور امریکہ جنگ میں براہ راست فریق نہیں ہے بلکہ  وہ امریکی پالیسیو ں کا متا ثر ہے اور اس کا کر دار  امریکہ حلیف کا ہے ، اسی کر دار کی بنا ء پر پاکستان نے دنیا میں سب سے  زیا دہ قربانیاں د ی ہیں اس پر بھی امر یکہ پاکستان پر ہی الزام دھر تا ہے۔ پا کستان نے ما ضی میں امریکہ اور طالبان کے  درمیان مذاکر ات کیلئے سہولت کا ر کا فریضہ بہت خوش اسلو بی سے ادا کیا ہے مگر اس کا بھی  اعترا ف  امریکہ اور اس کے اتحا دیو ں کی جانب سے نہیںکیا گیا۔ اب جس کر دار  کی ادائیگی کا افغانستان نے مطالبہ کیا ہے  وہ پاکستان کیلئے مشکلا ت کا  باعث بن سکتا ہے کیونکہ طالبا ن اب اس منج پر ہیں کہ  وہ کا بل حکومت کو  تو نہ پہلے تسلیم کر تے تھے  اور نہ  اب کر تے ہیں اس کو  وہ ایک کٹھ پتلی حکومت  قرار دیتے ہیں البتہ ان کا  مو قف رہا ہے کہ امریکہ ، طالبان سے  براہ راست مذاکر ات کرے۔ ما ضی میں ایسے  مذاکرات پر امریکہ کا جو کر دار رہا ہے  اس نے امر یکہ کو  نا قابل اعتبا ر بنا دیا ہے ۔
طالبان  اس وقت مذاکر ات کی میز پر آتے نظر نہیں آ رہے جب تک ان کو  ثالثی کی ضما نتیںنہ  مل جائیں  وہ سمجھتے ہیں کہ کا بل حکومت سے مذاکر ات بے سو د ہیں کیو نکہ اقتدار کے  وہ اصل مالک نہیں ہیں  امریکہ قا بض ہے  اور اسی کے اشارے پر کا بل حکومت چلتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی قومی سلا متی کو نسل کے مشیر کے دورہ افغانستان سے قبل کا بل حکومت نے طالبان کو  قومی دھا ر ے میں شامل کر نے کی پیشکش کی جس  پر طالبان کی جانب سے مسلسل خاموشی ہے۔  انھو ں نے اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ،  براہ راست جو اب دینے کی بجا ئے طالبان کی جا نب سے  خامو شی اختیا ر کر کے بھر پو رجوا ب دیا گیا ہے کہ کا بل حکومت کی یہ پیشکش طالبان کیلئے کوئی اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ جس پر کسی ردعمل کا اظہا ر کیا جائے ۔ پا کستان نے  مذاکرات کی جو  حما یت کی ہے  وہ طالبان کی منشا ء کے بغیر کیسے نبھا ئے گا ۔ اس کا جواب بھی کٹھن ہے  جب تک کا بل سے  طالبان کو مضبوط  ضما نت نہیں مل جا تیں   اس وقت تک کسی قسم کی پیشرفت نا ممکن ہی نظر آتی ہے ۔
 

شیئر: