Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ناک ہی نہ رہی تو کیا ہو گا !

***وسعت اللہ خان ***
19 برس پہلے پاکستان نے ہند کے5 جوہری دھماکوں کے مقابلے میں5 اور 2 روز بعد ایک اور اضافی دھماکہ کرکے اعلان کیا کہ ہم کسی سے کم نہیں۔یہاں سے وہاں تک یہ سوچ کر پورا ملک ناچ اٹھا کہ اب ہمارا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا۔دہلی ہو کہ اسلام آباد  دفاعی پنڈتوں نے خوشخبری دی کہ اب روایتی اسلحے کی دوڑ  تھم جائے گی کیونکہ جوہری انشورنس جنگ نہیں ہونے دے گی  جو پیسہ بچے گا  وہ تعمیر و ترقی کے کام آئے گا۔
آج  حالات یہ ہیں کہ روایتی ہتھیاروں پر سب سے زیادہ اخراجات کرنے والے10 ممالک کی  فہرست میں  ہنددوسرے اور پاکستان دسویں نمبر پر ہے۔
جہاں تک جوہری ہتھیاروں سے حاصل ہونے والے تحفظ کا معاملہ ہے تو ہند کے پاس اس وقت اندازاً  110 اور پاکستان کے پاس120 چھوٹے بڑے جوہری ہتھیار موجود ہیں۔اس کے بعد ہونا تو یہ چاہئے کہ دونوں ممالک میں احساسِ عدمِ تحفظ بھی110 اور 120 گنا بڑھ جائے مگر ایسا کہاں ہوتا ہے ؟ اگر ہوتا تو امریکہ اور روس کے پاس موجود 60 ہزار جوہری ہتھیار دنیا کو باغِ امن بنا چکے ہوتے۔
البتہ  ہند اور پاکستان کو یقین ہے کہ جو کام روس اور امریکہ جیسی عظیم طاقتیں نہ کر سکیں وہ یہ دونوں کر لیں گے یعنی دنیا کو  دکھا دیں گے کہ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ جیتی بھی جا سکتی ہے چنانچہ دونوں ممالک وہی پہیہ  پھر سے ایجاد کرنے میں لگے پڑے  ہیں جسے چلانے کی کوشش میں بڑی طاقتوں کے انگور کھٹے ہوگئے۔
ہند کا خیال ہے کہ اگر جوہری ہتھیاروں کو صرف زمین پر ساکت  ذخیرہ کرنے کے بجائے سمندر میں حرکت پذیر آبدوزوں پر نصب کردیا جائے تو  فائدہ یہ ہوگا کہ اگر دشمن کے اچانک حملے میں زمین پر موجود تمام ایٹمی ہتھیار تباہ بھی ہوجاتے ہیں تو آبدوزوں پر نصب ہتھیاروں کے جوابی حملے سے دشمن کی شرطیہ قبر بنائی جاسکتی ہے۔اس نظریے کو ’’ سیکنڈ  اسٹرائیک کی صلاحیت ’’ کہا جاتا ہے لہذا ڈیڑھ ماہ قبل اریہانت نامی ایٹمی آبدوز سے کے  فور میزائیل چھوڑنے کا تجربہ کیا گیا  اور یہ اعلان ہوا کہ ہند اب سیکنڈ  اسٹرائیک صلاحیت حاصل کر چکا ہے جبکہ ایٹمی ہتھیار لیجانے والے برہموس میزائلوں کی4 بیٹریاں  ہندوستانی بحریہ کے حوالے ہو چکی ہیں۔
پاکستان نے2012ء میں نیول اسٹراٹیجک کمانڈ قائم کرنے کا اعلان کیا اور فوج کے شعبہِ تعلقاتِ عامہ ( آئی ایس پی آر ) کی جانب سے وضاحت کی گئی کہ اس کمانڈ کا مقصد سیکنڈ اسٹرائیک صلاحیت حاصل کرنا ہے۔2015ء  میں سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ ) نعیم خالد لودھی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان سیکنڈ اسٹرائیک صلاحیت حاصل کر چکا ہے تاہم اکثر دفاعی ماہرین اس دعویٰ کو قبل ازوقت قرار دیتے ہیں۔
اکتوبر2015ء میں بریکنگ نیوز آئی کہ پاکستان نے محاذجنگ پر دشمن کے خلاف محدود علاقے میں استعمال کیلئے مختصر حجم کے ’’ٹیکنیکل جوہری ہتھیار ’’ بھی تیار کر لئے ہیں جو ہند کے کولڈ اسٹارٹ نظریے کا ترکی بہ ترکی جواب ثابت ہونگے۔
کولڈ  اسٹارٹ تھیوری کے تحت  ہندوستانی فوج اچانک کئی محاذ کھول کے تیزی سے پیشقدمی کرتے ہوئے دشمن کی سپلائی لائن درمیان سے کاٹ کر اسے مفلوج کردے گی چنانچہ فیلڈ کمانڈرز محدود  تباہی پھیلانے والے ’’ ٹیکنیکل جوہری ہتھیار ’’ استعمال کر کے دشمن کی برق رفتار پیشقدمی کو بریک لگا سکیں گے۔مفروضہ یہ ہے کہ  ان ہتھیاروں کے  استعمال سے  دشمن کے اوسان خطا ہو جائیں گے  اور وہ مزید کسی بڑی جوہری مہم جوئی سے  باز رہے گا لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ دنیا کی  ہر جنگ جنرلوں کے مفروضوں سے  شروع ہوتی ہے  اور ایسے ناقابلِ یقین نتائج پر ختم ہوتی ہے جو  نہ فاتح کے گمان میں ہوتے ہیں  نہ مفتوح کے۔
چنانچہ اب دشمن کو نیچا دکھانے کا ایک  نیا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ ہند نے گزشتہ برس جوہری  دھماکوں کی18ویں سالگرہ ( 15 مئی)  کو  حملہ آور میزائلوں کو  راستے میں ہی  تباہ کرنے کی  صلاحیت رکھنے والے اشوین میزائل کا کامیاب تجربہ کیا جس نے خلیج بنگال میں ایک بحری جہاز سے  چھوڑے جانے  والے پرتھوی  میزائل کو  ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں جا لیا۔گویا  امریکہ ،  روس  اور اسرائیل کے بعدہند  میزائل ڈھال کی صلاحیت  حاصل کرنے  والا  چوتھا ملک  قرار پایا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب  پاکستان  یا تو ہندوستانی میزائلوں سے بچنے کیلئے اپنی ڈھال تیار کرے یا پھر ہندوستانی ڈھال کو  ناکام بنانے کیلئے ایک کے بجائے10 میزائل بنائے تاکہ اگر ہندوستانی ڈھال 10 میں سے8 میزائل روک بھی لے  تو دو پھر بھی  ہدف تک پہنچ جائیں۔اس کا دوسرا مطلب  یہ ہوا کہ اب  اربوں ڈالر کی   دوڑ کا ایک نیا دروازہ کھل گیا۔
دوڑ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایٹمی جنگ بھی ہو لیکن امریکہ اور روس کو  حادثاتی طور پر ایٹمی جنگ سے بچنے کیلئے یہ  قدرتی جغرافیائی سہولت میسر ہے کہ اگر ایک کی جانب سے غلطی سے بھی میزائل فائر ہو جائے  تو دوسرے  کے پاس جوابی کارروائی سے پہلے 9 تا12 منٹ کا وقت ہے جس میں یہ تصدیق ہو سکے کہ میزائل جان بوجھ کر داغا گیا ہے یا کوئی اتفاقی و حادثاتی  واردات ہے۔
مگرہند اور پاکستان کے پاس میزائل چل جانے کے بعد نیت اور حالات کی تصدیق کیلئے 18 سے30 سیکنڈ کا وقت ہے۔
پاکستان اورہند ایک دوسرے کے حملے سے کیا بچنا چاہ رہے ہیں ؟ بھوک ، ننگ ، پسماندگی ؟ جہاں تک تحفظ کا معاملہ ہے تو گزشتہ 7 ہزار برس میں کوئی فوج بھی ایسی نہیں گزری جس نے یہ کہا ہو کہ اس کے پاس جو ہتھیار ہیں وہ کافی ہیں۔ایسا ہوجائے تو ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کا کیا ہوگا ؟ 
کیا یہ مسئلہ ہے کہ ناک نیچی نہ ہوجائے ؟ کسی دن کسی سبب ناک ہی  نہ رہی  تو پھر کیا کریں گے ؟ 
 ایسا ہتھیار بنانے میں کیا حرج ہے  جو خوف اور غلط فہمی کو  ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی  تباہ کر دے ؟ 
 

شیئر: