Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیبر قوانین مزید سخت ہونے چاہئیں

 عبداللہ الجمیلی ۔ المدینہ
گزشتہ دنوں المدینہ اخبار میں وزارت انصاف کی جانب سے اعدادوشمار جاری ہوئے تھے جن میں بتایا گیا تھا کہ سعودی عرب کی مختلف عدالتوں میں گزشتہ سال 364مقدمات کا تعلق کارکنوں سے تھا۔ ان مقدمات میں کارکنوں کے حق میں فیصلہ کیاگیا اور انہیں 850ملین ریال کے بقایا جات دلوائے گئے۔ 
سب سے پہلے وزارت انصاف کی کارکردگی کو سراہا جانا چاہئے جس نے کارکنوں کو انصاف فراہم کرنے کیلئے بہت سارے پیچیدہ معاملات کو آسان بنادیا ہے۔ وزارت انصاف نے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے مقدمات کے دورانیہ کو بہت زیادہ مختصر کردیا۔
جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ صرف ایک سال کے اندر کارکنوں کے واجبات جو انہیں دلائے گئے تھے وہ ایک بلین ریال کے قریب تھے۔ یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ لیبر قوانین میں کوئی ایسا سقم ہے جس کی وجہ سے کمپنیوں اور کارکنوں کے حقوق محفوظ نہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس قانونی سقم کیوجہ سے کارکن اپنے واجبات کے حصول کیلئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہیں۔ ان اعدادوشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمپنیاں اور کفیل اپنے کارکنوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ رکھ رہے ہیں۔
اس سے مجھے گزشتہ دنوں مدینہ منورہ میں پیش آنے والا واقعہ یاد آگیا جس میں ایک نجی کمپنی نے چند سعودی نوجوانوں کو بغیر کسی وجہ کے ملازمت سے برطرف کردیا ۔ اس سے قبل کمپنی نے کئی ماہ تک انکی تنخواہیں روکے رکھی تھیں۔ ان متاثرین میں ایک نوجوان سے میں نے بذات خو رابطہ کرکے معاملے کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ کئی ماہ تک تنخواہ روکنے سے گھر میں کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جنہوں نے کئی ماہ تک گھر کا کرایہ ادا نہیں کیا۔ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے بینکوں کو قسطیں جمع کروانی تھیں جو نہیں کروا سکے۔ اسکی وجہ سے انکی لیز پر لی گئی چیزوں پر بینک نے قبضہ کرلیا۔ چند ایسے بھی ہیں جن پر مطالبہ کرنے والوں نے مقدمہ دائر کردیا ہے۔
سعودی اوجر کمپنی بھی اس کی ایک مثال ہے جس کی تمام تفصیلات مختلف وسائل اطلاعات میں دستیاب ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کارکنو ںکے ساتھ یہ کمپنیاں کس طرح کا رویہ رکھتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسی کمپنیاں بھی موجود ہیں جو اپنے کارکنوں کو انکا پورا پورا حق دیتی ہیں لیکن ایسی مثالیں بھی لاتعداد ہیں جن میں کارکن اپنے حقوق کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وزارت انصاف کی جانب سے جاری ہونے والے اعدادوشمار خطرے کی گھنٹی ہے جو ہمیں بتا رہی ہے کہ لیبرقوانین کو مزید سخت اور حقوق کے تحفظ کا ضامن بنایا جائے۔ کارکنوں کے ساتھ ہونے والے معاہدوں پر نظر ثانی ہونی چاہئے۔ کارکن کو عدالت سے رجوع کئے بغیر اس کا حق ملنا چاہئے۔ اس سلسلے میں وزارت محنت کا کردار نمایاں ہے۔ آخر کارکن اپنے حق کےلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟ جبکہ وزارت محنت موجود ہے۔
یہاں تذکیر کیلئے یہ بھی بتا دوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح آجر پر حقوق عائد ہیں اُسی طرح سے اجیر پر بھی کچھ واجبات ہیں جنہیں ادا کرنا ضروری ہے۔ واجبات ادا کئے بغیر حقوق کا مطالبہ بے معنی ہے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: