Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان ،انمول ہیرا،بیش بہا دولت

***صلاح الدین حیدر *** 
پتہ نہیں کیا، کیا سوچ کے بیٹھا تا کہ قارئین کی خدمت میں آج دل کھول کر رکھ دوں گا کہ ایکدم خیال آیا کہ بھائی ہمارا اوّل ترین موضوع تو یوم پاکستان ہے 23مارچ اور چونکہ یہ مضمون اسی مناسبت سے ہونا چاہیے اس لیے خیالا ت کا دھارا 1947ء بلکہ 1940ء تک لوٹ گیا اور وہ بھی طوفانی شکل میں۔پاکستان ہم نے بنایا، برسوں کی جدوجہد کے بعد، لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد، سیکڑوں ، ہزاروں لڑکیاں،نوجوان، شادی شدہ، اور سیانی کنواریوں نے،اپنی عزت نفس بچانے کے لیے کنوئوں میں کود کر خودکشی کرلی۔ مسلمان آخر اپنی جان پر کھیل جاتا ہے لیکن ایمان پر فرق نہیں آنے دیتا۔پاکستان ایک انمول ہیرا ہے بلکہ ایک ایسی بیش بہا دولت ، بیش قیمت خزانہ جو قدرت نے ہمیں انعام میں دیا ۔آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔ہم نے 1940ء میں لاہور شہر میں قراردادِپاکستان منظور کی۔قائد اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس کی جگہ آج ایک عظیم عمارت اس جلسے کی یاد میں مینار پاکستان کی شکل میں کھڑی ہوئی ہے۔ بار بار یا ددلاتی ہے کہ ہم اگر اپنی منزل سے بھٹک گئے ہیں تو سنبھل جائیں ۔ 23مارچ کو پھر صحیح معنوں میں یوم تجدید عہد ِوفا کا دن منائیں۔قوم او رملک وملت سے دوبارہ یہ عہد کریں کہ اس کی عطا کی ہوئی دولت ِ بیش بہا کو پھر سے ایک عظیم مملکت بنائیں گے۔ ایک ایسی مملکت جہاں انصاف کا بول بالا ہو، جہاں غریب ، کسان، مزدور ، وقت کی چکی میں پسی ہوئی انسانیت سکھ کا سانس لے سکے۔ شکر الحمد اللہ ہموطنوں میں اِس دن ایک نیا جوش جو جذبہ نظر آتاہے، بچے ،بڑے ، نوجوان اور بزرگ خواتین سب ہی اپنے گھر کو سجانے ، نکھارنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جا بجا بکتے ہوئے سبزہلالی پرچم کی بہار نظر آتی ہے۔ لوگ ہیں کہ دیوانوں کی طرح اسے خرید کر اپنے گھر، دکانوں، گاڑیوں، کاروں میں یہاں تک کے گدھا گاڑیوں پر لگاتے ہیں جو ہمیں ایک نئے حوصلے ، نئے ہمت ، نئے عزم سے ہمکنار کردیتے ہیں ۔ 
مملکت خددادا پاکستان کی تاریخ اگرچہ بہت حسین ہے تو شہیدوں کے لہو سے رنگین بھی۔میں خود مشرقی ہندوستان کے شہر گورکھپور سے تقسیم ہندوستا ن کے وقت اپنے اہل خانہ کیساتھ ہجرت جیسے با برکت موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان آنے میں سرخروہوا ۔ طویل سفر گورکھپور سے شروع ہو کر بالآخرکولکتہ اور پھر ممبئی میں ختم ہوا۔ ریل کے سفر میں بچہ ہوتے ہوئے بھی میں اپنی آنکھوں سے بے دردی سے مسلمانوں کو تڑپتے ہوئے اپنی نظروں سے سہمے دیکھتا رہا ۔ آج تک وہ خونی منظر میری نظروں میں پھر تا رہتاہے اور جب بھی ایسا ہوتاہے تو میں اللہ واحد لاشریک کی خدمت ِ اقدس میں سجدہ ریز ہو کر شکر بجا لاتاہوں کہ اس نے ہمیں ایک آزاد ملک عطا کیا۔یہ ملک پاکستان اُس کا عطیہ ہے اور آج تمام تر انسانی کمزوریوں کے باوجود پھلتا پھولتا رہا ہے۔ میر ے آبائو اجداد ، والد مرحوم، دادااور دوسرے بتاتے ہیں کہ پاکستان کے ابتدائی دنوںمیں سرکاری خط و کتابت کرنے کیلئے کا غذات کو پن کرنے کیلئے ببول کے کانٹے استعمال کیے جاتے تھے، تو آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں، لیکن سجد ہ ریز ہونے کا بھی شوق دوبارہ ابھر جاتاہے، کہ مالک کائنات نے تو ہم پر بڑ ا احسان کیا ہے۔اس کا شکر ہے کہ اس نے اس پاکستان کو آج پھلتا پھولتا،ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا ملک بنا دیا ہے۔
23مارچ ہم قرار دادِپاکستان کی یاد میں مناتے ہیں لیکن اس تحریک پاکستان کے نتیجہ میں ہمیں جو ثمر آزاد مملکت کی صورت میں ملا وہ کسی جنت سے کم نہیں۔ 1947ء تک صرف 7سال کا قلیل عرصہ تھا جب ہندوستان کے مسلمانوںنے آزادی کا سانس لیا۔7 سال قوموںکی زندگی میں کچھ بھی نہیں ہوتے،لیکن مالک کائنات کی مدد حاصل تھی اس لیے ایک ایسی سرزمین جہاں صنعتیں سرے سے غائب تھیں۔صرف ایک ٹیکسٹائل مل تھی جو اوکاڑہ میں تھی جس کا نام ستلج کاٹن مل تھا،ہندوئوں کی مملکت تھی پاکستان کے ہاتھ آئی، سندھ میں ایک سیمنٹ مل تھی اور 2ایک شوگر ملز، لیکن قوم جذبے اور عزم سے بھرپور ہوتی ہیں ،اس کے لیے مشکلات کوئی مسئلہ نہیں ہوتیں۔ آج شکر الحمدللہ پاکستان میں صنعتوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ایک سے 2 بندرگاہیں صرف کراچی میںہی ہیں اور گوادر میں چین کی مدد سے جدید بندرگاہ تعمیر ہورہی ہے جو جلد ہی تکمیل کے مراحل طے کرلے گی۔ پاکستان کی تجارت جو دنیا بھر میں سمندری راستوں سے ہوتی ہے، آج ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کررہی ہے ، پھر ہزاروں لاکھوں پاکستانی جو دنیا بھرمیں روز گار یا تجارت کے پیشے سے منسلک ہونے کی ناتے بیرون ملک رہائش پذیر ہیں بیش قیمت زرمبادلہ ترسیل کرتے ہیں جو کہ ایک دولت ہے ہماری ترقی کیلئے۔ دنیا بھر میں آج پاکستان ایک آزاد ، ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ اس نے ایک نہیں 2بار اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی۔ لاہور میں1974ء اور اسلام آباد میں 90ء کی دہائی میں کی ۔شاہ فیصل، قذافی ، شیخ مجیب الرحمن، حواری بومدین اور کئی ملکوں کے سربراہوں نے اسلامی اتحا دکی بنیاد ڈالی جس کا سہرا مرحوم ومغفور شاہ فیصل کو جاتاہے اور جسے عملی جامہ ذوالفقار علی بھٹو نے پہنایا ۔ 
ّ آج ہمارے نونہال لندن اور امریکہ کی اعلیٰ تعلیمی درس گاہوں سے بلندی کا سفر طے کرتے نظر آتے ہیں۔ہمارے ان بچوں نے اس جیسی تعلیمی درس گاہوں سے سب سے بڑھ کر نمبر حاصل کئے۔قائداعظم ، بانی پاکستان کی روح کس قدر خوش ہوگی یہ دیکھ کر۔ ان کا بنایا ہوا ملک آج دنیا بھر میں اپنا نام پیدا کررہاہے۔ اقبال نے کہا تھا کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ ، ان کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی ہمارا رول اقوام عالم میں سب کے سامنے ہے۔ہم نے فلسطین ، کشمیر، اور دنیا بھر میں انسانیت سوز مظالم سے ستائے ہوئے لوگوں کے حق میں آواز اٹھائی ۔دنیا آج ہمارے کارناموں پر فخر کررہی ہے۔ مشکلات ضرور ہمارے سامنے ہیں لیکن دہشت گردی جیسی لعنت پر بھی افواج پاکستان نے قوم کی مدد سے پوری طرح قابو پالیا ہے۔ پاکستان سپرلیگ کرکٹ کا لاہور اور کراچی میں ہونا ہمارے لئے فخر کا مقام ہے۔ دنیا کو ہم نے پیغام دیا کہ ہم پُر امن ملک ہیں، یہاں سب کی جان ومال محفوظ ہیں۔غیر ملکی کھلاڑی کراچی اور لاہور میں کرکٹ میچ کھیل کر گئے۔ 9سال بعد ان کی خوشیاں دیکھنے والی تھیں، 9سال ضرور لگے، لیکن قوم نے ہمت اور جذبے سے کا م لیا اور آج دنیا کے سامنے فخر سے سر بلند کرکے کھڑی ہے۔ 
23مارچ یوم تجدید وفا ہے، تو ہم آج پورے پاکستان میں جھنڈے لہرا رہے ہیںلیکن یہ بھی عہد کرتے ہیں ربّ کائنات کے سامنے سجد ہ ریز ہو کر کہ اے مالک! ہم تیری دی ہوئی نعمت کی دل و جان سے حفاظت کریں گے۔اسے اعلیٰ مقام پر پہنچائیں گے، تیری مدد اور ہمارے عزم کی ضرورت ہے، جس میں کمی نہ آنے پائے۔آمین۔ 
 

شیئر: