Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

126کلو کی 13سالہ بچی معاشرے کی بے حسی کا شکار

 علیشبا کو پیدا ہوتے ہی نند سے گود لے لیا تھا، اسے دیکھ کر لوگ  طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں،انہیں اللہ کا خوف نہیں،لوگوں کی باتوں پر رونا آتا ہے،شبانہ جاوید، اس کی ایک بہن200کلو وزنی تھی،گرنے کی وجہ سے کمر میں چوٹ آئی انتقال کرگئی،قبر میں اتارنا  بھی مشکل ہوگیا تھا
     انٹرویو:      ۔ مصطفی حبیب صدیقی۔ کراچی
معاشرے میں آج بھی باہمت اور باوفا لوگوں کی کمی نہیں،ایسے واقعات تو میڈیا کی زنیت بن جاتے ہیں کہ ماں ،باپ نے اولاد کو یا اولاد نے ماں باپ کو قتل کردیا مگر شبانہ جاوید جیسی باہمت خواتین کی روداد کم ہی سننے کو ملتی ہے ۔شبانہ نے ایک بچے گو د لی مگر وہ بچپن سے ہی  غیرمعمولی موٹاپے کی شکار رہی ۔شبانہ پر غم کا پہاڑ ٹوٹا جب شادی کے چند سال بعد ہی ان کے شوہر گردے کی بیماری کی وجہ سے انتقا ل کرگئے ہیںمگر اس باہمت عورت نے بچی کو پالنے کا فیصلہ کیا۔معاشرے کی بے رخی سہی،خود غرضی کاسامنا کیا،طعنے برداشت کررہی ہے،غربت کا مقابلہ  جاری ہے مگر بچی کو واپس کرنے سے انکار کردیا البتہ معاشرے کے کھاتے پیتے لوگوں اور خاص  طور پر حکومت سے ضرور سوال ہے کہ ’’کیا ہے کوئی جو اس کی اس بچی کا علاج کرادے؟‘‘آئیے شبانہ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔

*********

  اردونیوز:علیشبا آپ کی اپنی بیٹی نہیں ہے؟
شبانہ جاوید :علیشبا کو میں نے اپنی نند سے پیدا ہوتے ہی گود لے لیاتھا ۔9ماہ کی عمر سے اس کا وزن غیرمعمولی طور پر بڑھنا شروع ہوگیا۔اس کی ایک بہن بھی اسی طرح تھی جس کا 20سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔باقی 2بھائی  بھی موٹاپے کا شکار ہیں۔میں پہلے سسرال والوں کے ساتھ کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی  میں رہتی تھی تاہم میرے شوہر جاوید کو میری شادی کے2سال بعد ہی گردے کی بیماری ہوگئی اور ان کے گردے ٹرانسپلانٹ کرانے کیلئے ہم نے گھر فروخت کردیاتاہم وہ زیادہ عرصے نہ رہ سکے اور8سال پہلے ان کا انتقال ہوگیا۔میں دنیا میں تنہا ہوگئی جس کے بعد کورنگی میں اس چھوٹے سے گھر میں بمشکل زندگی گزار رہی ہوں۔
  اردو نیوز:اب علیشبا کی عمر کیا ہے اور اس کے علاوہ آپ کے کتنے بچے ہیں؟
  شبانہ جاوید ـ:  علیشبا13سال کی ہوچکی ہے جبکہ ایک بیٹا حذیفہ ہے جس کی عمر16سال ہے اور وہ  میٹرک میں ہے ۔دونوں میرے ساتھ رہتے  ہیں ۔
  اردونیوز: کیاعلیشبا کا علاج نہیں ہے ؟ اور اس موٹاپے کی وجہ کیا ہے؟
  شبانہ جاوید :   علاج تو بہت کرایا مگر اب تک وجہ نہیں معلوم ہوسکی کہ یہ موٹاپا کیوں ہے۔ این آئی سی ایچ جناح اسپتال میں کافی ٹیسٹ کرائے۔ اسپتال  نے بھی ٹیسٹ رپورٹس بیرون ملک بھجوائیں ۔ علیشبا جب پیدا ہوئی تو اس کا وزن  نارمل تھا۔ابھی کچھ عرصے پہلے لیاقت نیشنل اسپتال  میں اس کو دکھایا تھا  جب اس کا  وزان  126کلو تھا۔  علیشبا کاتالو پیدائشی طور پر نہیںہے  جس کے باعث صحیح بول نہیں سکتی  ۔جب یہ سوا مہینے کی تھی جب  سے   این آئی سی ایچ میں  ماہر فزیشن  ڈاکٹر جمال   رضا کو   دکھاتی رہی۔ڈاکٹروں نے کہا ان کا آپریشن نہ کرائیں۔ ان کا جسم بہت موٹاہے۔زیادہ تر  ٹیسٹ  بڑے اسپتال سے کرائے  اس وقت میرے شوہر  زندہ تھے۔ڈاکٹر جمال نے  انکی رپورٹ  امریکہ بھی بھجوائی۔ وہاں سے رپورٹ  نارمل آئی  ہے۔ ڈاکٹر اب تک علیشبا کے اتنے وزن کی کوئی وجہ نہیں بتاسکے بس کہتے ہیں کہ بچی کو لاتے رہوٹیسٹ ہوتے رہیں گے۔ کراچی کا بڑا اسپتال  اتنا مہنگا ہے ہم کہاں سے اس کا  علاج کراسکتے ہیں۔ڈاکٹر جمال نے اٹلی بھی رپورٹس بھیجی ہیں لیکن اس کی  رپورٹ نہیں آئی۔ اس بات کو بھی 11سال ہوگئے ۔
  اردونیوز: بچی کے بڑھتے ہوئے وزن کے ساتھ آپ کو کن مسائل کا سامنا رہا؟ علیشبا کی مصروفیات کیا ہیں؟
شبانہ جاوید:        علیشبا عام  بچوں کی طرح نہیں کھیل سکتی ۔شروع میں سانس کی تکلیف رہی ۔ اب بھی سانس لینے میں پریشانی   ہوتی ہے  جس کے باعث بار بار نیبولائز کرنا   پڑتاہے۔کہیں بھی آنا جانا مشکل ہوتا ہے ۔اسکول   میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ۔ایک مرتبہ  اسکول جاتے ہوئے وز ن کی وجہ سے رکشے سے گرگئی  جس کے بعد اٹھنے میں بڑی  پریشانی ہوئی    اور تکلیف  میں اضافہ ہوگیااورپھر اسکول جانے کے قابل نہیں ر ہی۔رکشے میں اسکول آنا جاتا تھا۔ ہماری مالی حیثیت ایسی نہیں تھی کہ رکشے کے اخراجات   برداشت کرسکتے اس لیے اسکول چھڑوادیا۔اسکول زیادہ دورنہیںلیکن یہ پیدل نہیں چل سکتی۔  اب تو یہ حال ہے کہ گھر میں بیت الخلاء تک جانے کیلئے جب تک میں سہارا نہ دوں وہ نہیں جاسکتی۔ میں بھی اسے واکر کے ذریعے  لے کر جاتی  ہوں اور کبھی کبھار تو واکر سے بھی نہیں چلا جاتا تو   وہیل چیئر سے لے کر جاتی ہوں ۔ 
  اردونیوز:   کیاآپ کے خاندان میں اور بھی لوگ ایسے  ہیں ؟ 
  شبانہ جاوید: علیشبا کی ایک بہن بھی اسی طرح تقریباً200کلو سے زائد وزنی تھی ۔اس نے میٹرک کرلیا تھا مگر ایک مرتبہ گرنے سے کمر پر چوٹ آئی اور20سال کی عمر میں انتقال ہوگیا  ۔اس کا وزن اتنا زیادہ تھا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ اسے قبر میں اتارنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔علیشبا کے 2 بھائی ارسلان اور فرحا ن بھی ایسے ہی موٹے ہیں۔  علیشبا کی خوراک  عام بچوں کی طرح ہے بلکہ  ہر چیز ایک   حد میں دی  جاتی ہے اگر زیادہ دے دیں  تو طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔جسم زائد خوراک برداشت نہیں کرتا ۔
اردونیوز:لوگوں کا رویہ کیسا ہے ،جب وہ دیکھتے ہیں تو کیا کہتے ہیں؟
شبانہ جاوید :(آنکھیں نم ہوچکی تھیں) لوگوں کا رویہ بڑا ہتک آمیز ہوتا ہے۔ علیشبا کو باہر لے جائو تو دیکھ کر ہنستے ہیں ۔توبہ کرتے ہیں ۔استغفار  پڑھتے ہیں نہ جانے کیا کیا کہتے  ہیں  جس سے بہت دل دکھتا ہے   ۔ بعض مرتبہ رونا بھی آجاتا ہے۔ میں ان لوگوں    پر بہت غصہ کرتی ہوں ۔کہتی ہوں اللہ سے ڈرو۔ پھر بچی کو سمجھا تی ہوں بیٹا کوئی بات نہیں ، دنیا کو دیکھ کر پریشان مت ہو نہ ہمت ہارو،اللہ بڑا کریم  ہے  اس کی ذات سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔   اب یہ کافی سمجھدا ر ہوگئی ہے۔ کہیں بھی آنے جانے سے کتراتی نہیں  ۔  ابھی بھی کہہ رہی تھی  مما مجھے گھومنے لے کرچلیں،لیکن مسئلہ وہی  ہے ان کو لیکر جانا بہت بڑا مسئلہ  ہے۔
  اردونیوز: کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ یہ ذمہ داری کیوں لے لی اور شوہر کے انتقال کے بعد اسے واپس نند کے حوالے کردیتی؟
شبانہ جاوید:   نہیں کبھی یہ خیال نہیں آیا ،علیشبا میرے بغیر اور میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔اللہ نے یہ ذمہ داری ڈالی ہے ۔یہ بچی مجھ سے بہت  زیادہ  جڑی ہوئی ہے۔  میں اس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں  اس لیے مجھے اس کی طرف  سے پریشانیوں کااحساس نہیں ہوتا۔شوہر کے انتقال  کے بعد سسرال والوں نے کہا تھا اگر میکے جاؤ گی تو ہم بچی کو لے  لیں گے۔ اس بچی کی خاطر میں  7  سال سسرال میں رہی اب اپنے گھر میںرہ رہی ہوں۔ جب سے بچی پیدا ہوئی ہے تب سے آج تک سسرال والوں نے میرا ساتھ نہیں دیا ۔سسرال والے کہتے ہیں بچی آپ کو  تحفے  میںدے دی ۔ اب اس کی پرورش اور دیکھ بھال آپ ہی کی ذمہ داری ہے۔بھائی  اور دادی علیشباسے بہت محبت کرتے ہیں ملنے بھی آتے ہیں لیکن کوئی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔
  اردونیوز:  محلے والوں کا کیا رویہ ہوتاہے ، عموماً خواتین  برے خیالات کا اظہار کرتی ہیں آپ کا تجربہ کیسا ہے ؟ 
شبانہ  جاوید:  بچی کی وجہ سے محلے  میں کسی کے پاس آنے جانے کا وقت نہیں ملتا۔ حالانکہ قریب ہی والدہ کا بھی گھر ہے وہاں بھی جانا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا۔محلے  میں خواتین اور علاقے والے عجیب عجیب  باتیں کرتے  ہیں۔کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں جس سے  دل کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ یہ چیزیں برداشت نہیں ہوتیں   اس  لیے کہیں  جانے کا دل نہیں چاہتا ۔ بچی کو دیکھ کر لوگوں کو سبق  حاصل کرنا چاہیے  یہ نہیں دیکھتے  دوسروں کے دل پر کیا گزرتی ہے ۔(روتے ہوئے)بس اپنے گھر  میں بچی کے ساتھ مصروف  رہتی ہوں۔ ہمارے معاشرے کا یہی المیہ ہے  ہاتھ  تھامنے کے بجائے  دھتکار دیتے ہیں۔مجھے محلے کی گلی  سے نکلنے  میںبھی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔گلی میں لوگ موٹے موٹے پتھر ڈال   دیتے ہیں بچی کو  لے کر وہیل چیئر    چلانے  میں بہت مشکلات ہوتی  ہے۔ لوگ بے حس ہوگئے ہیں اتنی تکلیف دیکھتے ہوئے بھی ساتھ نہیں دیتے ۔کیا انہیں اللہ سے ڈر نہیں لگتا؟ جب میں شاہ فیصل کالونی میں تھی تو  محلے والے بہت تعاون کرتے تھے  یہاں کوئی ساتھ نہیں دیتا۔
  اردونیوز:گھر کا خرچہ کیسے چلتا ہے کیا آپ کوئی ملازمت کرتی ہیں؟
  شبانہ جاوید : میں نے میٹرک کیا ہوا ہے ۔5 سال تک اسکول میں آفس انچارج کے طو ر پرکام کررہی تھی جس سے گھر کے اخراجات چل رہے تھے مگر پھر علیشبا کی حالت  بہت خراب ہوگئی اور یہ میرے بغیر بالکل نہیں رہ پارہی تھی جس کی وجہ سے ایک سال سے گھر پر ہوں۔  یہ پانی بھی خود اٹھ کر نہیں  پی سکتی ۔واش روم نہیں جاسکتی ۔اپنا کوئی کام خود نہیں کرسکتی ۔میں اس کو  چھوڑکر کیسے جاسکتی ہوں؟  بس کسی طرح اللہ گزارا کررہا ہے۔اگر کوئی علیشبا کا علاج کرادے تو زندگی بھر احسان مند رہوںگی۔
  اردونیوز:  آپ نے بتایا تھا کہ لوگ بچی پر سایہ وغیرہ کا بھی کہتے ہیں ؟
شبانہ  جاوید:   جی بالکل ،اصل میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ  اوپر کے اثرات ہیں،کوئی سایہ ہوگیا جس کی وجہ میں علیشبا کو لے کرملیر کھوکھرا پار میں  روحانی علاج کیلئے گئی  جہاں   پورا دن  رہے مگر افسوس کے ساتھ بتاتی ہوں کہ ان لوگوں نے نجانے کیا کردیا کہ علیشبا جو تھوڑا بہت  چل رہی تھی اس سے بھی محتاج ہوگئی ہے۔ ان لوگوں  نے کہا اس کو ہر جمعرات کو لے کر آؤ  ۔میں اس کو اس حالت میں کیسے لے جاسکتی ہوں اور وہاں لے جانابھی کافی مہنگا    پڑ جاتا ہے۔  وہ کہتے ہیں اگر نہیں لے کر آئیں  توایک وقت آئے گا یہ چارپائی پر ہو گی اور لوگ منہ پر کپڑا رکھ  رکھ کر جائیں گے۔ان کے علاج سے میرا دل  نہیں مانا ا س  لیے دوبارہ نہیں گئی ۔
اردونیوز:   ایسے حالات میں لوگ اپنے بچوں کو چھوڑ دیتے ہیں   لیکن آپ   لے پالک بچی کیلئے اتنی قربانیاں دے رہی ہیں بہت بڑی بات ہے ۔حکومت سے کیا مطالبہ کریں گی؟
شبانہ جاوید: میری حکومت سے صرف یہی درخواست ہے کہ میری  بچی کا علاج کرایا جائے ۔مرض صحیح  نہ  ہونے کی وجوہ  تو معلوم ہوں ۔ڈاکٹر  صرف ٹیسٹ پر ٹیسٹ کرائے جارہے  ہیں، علاج نہیں کررہے  ۔اتنے ٹیسٹ کیسے کراؤں؟ صرف  اوپر 2کمروں کا گھر کرائے پر دیاہوا ہے جس کا  ساڑھے 5ہزار روپے کرایہ آتا ہے اسی سے گزارا کرتے ہیں اس کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہیں۔ کیسے ٹیسٹ کرائیں۔جب اسکول میں پڑھاتی تھی تو گھر کا گزارا ہوجاتا تھا ا تنی پریشانی نہیں تھی ۔اس حالت میں کیسے نوکری کروں؟میں خود بھی گردوں کی مریضہ ہوں۔سسرال اور میکے والوں سے کبھی   مالی مدد نہیں مانگی ۔اللہ تعالی آپ جیسے لوگوں کے دلوں میں رحم ڈالتا ہے  جو آگے بڑھ کر مدد کرتے  ہیں۔خصوصی بچوں کے ساتھ کس طرح پیش آ ناچا ہیے اس کیلئے معاشرے کی تربیت کی ضرورت ہے۔
انٹرویو کے دوران  علیشبا سے بھی  نام  پوچھا اور کچھ بات کرنے کی کوشش کی تاہم اس کے الفاظ سمجھ نہیں آرہے تھے ۔شبانہ نے بتایا کہ جب گھر میں ٹیوشن پڑھاتی تھی  تو علیشبا بھی میرے ساتھ بچوں کو پڑھاتی تھی۔یہ بہت ذہین ہے۔جب اسکول چھوڑا تو بچے بھی ٹیوشن چھوڑگئے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: