Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نماز ، مؤمنین صالحین کے دل کا سرور

 ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ نمازوں کی پابندی کرے ، زیادہ نوافل بھی پڑھے تاکہ اس کے نور ‘ علم اور ایمان میں اضافہ ہو
 
* * * قاری محمد اقبال عبد العزیز ۔ ریاض* * *
گزشتہ سے پیوستہ

    انسان اگر نماز کے کلمات کے معانی پر توجہ مرکوز رکھے اور بارگاہ رب العزت میں حاضری کے احساس سے سرشار ہو تو اسے نمازمیں لذت وسرور حاصل ہوتا ہے۔ اگر زبان سے کلمات ادا ہورہے ہوں اور دل کو معلوم ہی نہ ہو کہ زبان نے کیا کہا تو پھر یہ لذت مفقود ہو جاتی ہے۔ پھر حالت یہ ہو جاتی ہے کہ آپ ایک نمازی سے پوچھیں: آپ نے دوسری رکعت میں کون سی سورت کی تلاوت کی تھی؟ وہ کہے گا: مجھے تو معلوم نہیں کہ میں نے کیا پڑھا تھا۔جتنے لوگ بھی نماز ادا کرنے والے ہیں ان میں سے ہر نمازی کو اس کی نماز کا پورا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ رسول اللہفرماتے ہیں:
    ’’آدمی نما ز پڑھ کے فارغ ہوتا ہے تو اُس کو نماز کا صرف دسواں حصہ اجر ملتا ہے‘ کسی کو نواں‘ آٹھواں‘ ساتواں‘ چھٹا‘ پانچواں‘ چوتھا‘ تیسراحصہ اور کسی کو نصف اجر ملتاہے۔‘‘ (ابوداؤد)۔
    یہ اتنا بڑا فرق کیسے واقع ہو جاتا ہے جبکہ نماز تو سبھی پڑھتے ہیں اور سب کا عمل دیکھنے میں تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ جو شخص پوری توجہ سے نماز نہیں پڑھتا‘ اس کا دل دنیا میں مشغول رہتا ہے یا وہ رکوع وسجود اور قیام اطمینان سے نہیں کرتا تو ا س کی نماز ناقص رہ جاتی ہے۔
    آج کے اس ڈیجیٹل دور میں نوجوانوں کے دل اکثر انٹرنیٹ اور موبائل وغیرہ میں اٹکے رہتے ہیں یا پھر کاروباری الجھنیں انسان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہوتیں اس لئے نماز میں خشوع ‘ توجہ اور اخلاص مفقود ہوتا جا رہا ہے۔آج ہماری نوجوان نسل کو سب سے پہلے تو 5 وقت مسجد میں حاضر ہونے اور نماز باجماعت ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ جب یہ اہتمام ہو جائے تو پھر اخلاص‘ خشوع اور توجہ اِلی اللہ پر زور دینے کی ضرورت ہے۔
    اللہ کے دسترخوان پر روحانی غذ ا:  
    دنیا کی اس زندگی میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کو اندرونی اور بیرونی شہوات کے امتحان میں ڈالاتو اس کی رحمت کی تکمیل اور احسان کا تقاضا ہوا کہ اس نے بندے کے لئے ایک ایسے دسترخوان کا انتظام کر دیا جس میں اس کے لئے رنگا رنگ نعمتیں اور انواع واقسام کے تحائف جمع کر دئیے۔ اس کے لئے مختلف قسم کے لباس اور بخشش وعطا کی فراہمی کا اہتمام کرکے بندے کو دن میں5مرتبہ اس دستر خوان پر آنے کی دعوت دی۔ا س دستر خوان کے رنگوں میں سے ہر ایک رنگ میں مالک کائنات نے بندے کے لئے ایسا نفع‘ مصلحت اور وقار رکھ دیا‘ جو دوسرے رنگوں سے مختلف ہے تاکہ بندے کے لئے عبودیت کے ہر رنگ میں ا س کے لئے لذت وسرور کی تکمیل ہو جائے  تاکہ وہ اپنے بندے کو عزت وتکریم کے تمام رنگ دکھا دے۔
    مساجد اور ذکر الٰہی کے حلقے ایسے دسترخوان ہیں جن پر روح کی غذا کا انتظام ہوتا ہے۔ آج اکثر انسان دن رات اپنے اجسام کی غذا کی فکر ہی میں رہتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اپنی روح کو غذا فراہم کرنے کی فکر بھی کرتے ہیں حالانکہ مربی اعظم نے اس بارے میں بہت وضاحت سے امت کی رہنمائی فرما دی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
    ’’جب تمہارا گزر جنت کے باغیچوں سے ہو ا کرے تو کچھ چر چُگ لیا کرو۔ عرض کیا گیا: جنت کے باغیچے کیا ہیں؟ فرمایا: اللہ کے ذکر کے حلقے۔‘‘ (ترمذی) ۔
    پیارے بھائی! یہ کھانا پینا ،یہ چرنا چُگناجسمانی غذا کے لئے تو نہیں ہوتے، مساجد میں کوئی روٹی گوشت یا الوان واقسام کے پکوان تو نہیں ہوتے۔وہاں تو نماز‘ تلاوت‘ ذکر‘ وعظ ‘ درس وتدریس ہوتی ہے۔ یہ سب روحانی غذا ہے۔
    شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    ’’میں نماز فجر کے بعد اشراق تک مسجد میں بیٹھ کر ذکر واذکار کرتا ہوں۔ یہ میرا روحانی ناشتہ ہے۔ اگر میں یہ نہ کروں تو میری طاقت سلب ہو جائے۔ ‘‘
    تاریخ وسیر کی کتابوں میں مذکور ہے کہ سیدناعبد اللہ بن مسعودؓکے شاگرد ِخاص حضرت ربیع بن خثیم رحمہ اللہ کوفہ میں رہتے تھے۔ایک بار انہوں نے30 ہزار درہم کا گھوڑا خریدا۔ گھوڑے کو اپنے قریب باندھ کر وہ نماز میں مشغول ہو گئے۔ ایک چور آیا اور ان کا گھوڑا کھول کر لے گیا۔ ان کا غلام گھوڑے کو چارہ کھلانے آیا تو دیکھا کہ گھوڑا غائب ہے۔ ربیع سے پوچھنے لگا: میرے آقا!گھوڑا کہاںہے؟ فرمانے لگے: چوری ہو گیا۔ کہا: آپ کی موجودگی میں کیسے چوری ہوگیا۔ کہنے لگے: میں نماز میں مشغول تھا اور اپنے رب کی حاضری کا لطف اٹھا رہا تھا۔ میں نے سوچا گھوڑے کو بچانے کیلئے نماز منقطع کرنا ٹھیک نہیں۔ چور تو میری چوری کر ہی رہا تھا مگر میں نے اپنے رب کی چوری کرنا مناسب نہ سمجھا۔
    یہ تھاہمارے اسلاف کا حال کہ وہ 30 ہزار درہم کے مقابلے میں نماز کی لذت کو مقدم جانتے تھے۔
    دعوت کے لوا زمات:
    جس طرح جسمانی غذا کی دعوتوں میں کھانے سے پہلے اور بعد میں کچھ لوازمات ہوتے ہیں۔ کھانے سے پہلے مہمانوں کی خدمت میں ہلکی پھلکی اشیاء (Appetizers)پیش کی جاتی ہیں اور کھانے کے بعد بالعموم پھل یاسویٹ ڈش پیش کی جاتی ہے، اسی طرح روحانی غذا کے طلب گار  ربانی مہمانوں کو بھی نماز سے پہلے کچھ انعامات دئیے جاتے ہیں اور پھر نماز کے بعد بھی انعام و اکرام کی بارش کی جاتی ہے اَگر وہ اپنی جگہ پر کچھ دیر بیٹھ کر ذکر الٰہی کرتے رہیں۔
    مسجد میں نمازی کے لئے بیٹھنے کے وقت سے لے کر اٹھنے کے وقت تک اللہ کے فرشتے بخشش ورحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ نبی اکرم نے فرمایا :
    ’’بندہ جب تک اپنی نماز والی جگہ میں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے تب تک وہ نماز ہی میں ہوتا ہے،فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس بندے کو بخش دے ،اس پر رحم فرما۔‘‘(مسلم)۔
    یعنی جو شخص نماز ادا کرنے کے بعد اپنی جگہ بیٹھا رہے اور اللہ کو یاد کرتا رہے تب تک وہ فرشتوں کی دعا کا مستحق رہتا ہے۔ اللہ کے رسول نے ہمیں بتلا دیا ہے کہ جو شخص نماز فجر کے بعد اپنی جگہ بیٹھ کر ذکر کر تاہے حتیٰ کہ سورج پوری طرح نکل آئے اور پھر 2سے لے کر 8 رکعات تک نماز ادا کرکے مسجد سے نکلے تو اس کے لئے ایک نفلی حج اورعمرے کا ثواب ہے۔ حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:
     ’’ جس شخص نے نماز فجر باجماعت اداکی ،پھربیٹھ کر اللہ کا ذکرتا رہا‘ حتیٰ کہ سورج نکل آیا، اس کے لئے ایک حج اور ایک عمرے کا ثواب ہے، پورے حج وعمرے کا،پورے حج وعمرے کا، پورے حج وعمرے کا۔‘‘ (صحیح الجامع)۔
     نماز کا ہر فعل گناہوں کا کفا رہ ہے:
    نماز کے افعال میں سے ہر فعل کو اللہ تعالیٰ نے مذموم اور مکروہ اعمال کے کفارہ کاذریعہ بنا دیا ہے۔وہ اپنے بندے پر نماز کے باعث ایک خاص قسم کے نور کی بارش کرتا ہے۔ نماز نور ہے ،بندے کے اعضاء وجوارح کے لیے قوت کاباعث ہے۔یہ اس کے رزق میں وسعت کا اور بندوں کے دلوں میں اس کی محبت کا سبب ہے۔ اس کی نماز کے باعث اللہ کے فرشتے اور زمین کے وہ ٹکڑے بھی خوش ہوتے ہیں جن پر نماز پڑھی جاتی ہے۔زمین کے پہاڑ اور درخت اور نہریں بھی اس کی نماز سے خوش ہوتے ہیں۔ یہ نماز رو ز قیامت اس کے لیے نور اور خاص اجر کا باعث ہوگی۔
    وضو سے گناہوں کی صفائی:
    جب بندہ اللہ کی حضور حاضری کے لیے تیاری کرتا ہے تو ابتدائی اعمال وافعال سے لے کر ہی اس کے گناہوں اور غلطیوں کے ازالے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ جب وہ وضو شروع کرتا ہے تو جس جس عضو کو دھوتا چلا جاتا ہے اُسی عضو کے گناہ مٹتے چلے جاتے ہیں۔ ایک وضو سے دوسرے وضو تک جتنے صغیرہ گناہ اس سے سرزد ہوتے ہیں وہ وضو کی برکت سے معاف ہوجاتے ہیں۔وہ وضو کے ذریعے جسمانی صفائی کرتا ہے لیکن اگر اس کی نیت درست ہو تو ایک خود کار نظام کے تحت اس کی روحانی صفائی خود بخود ہوتی رہتی ہے۔ ارشاد نبویؐ ہے :
    ’’مؤمن بندہ جب وضو کرتا ہے اور کلی کرتا ہے تو اس کے منہ کی ساری خطائیں نکل جاتی ہیں۔ جب وہ ناک جھاڑتا ہے تو اس کے ناک کی ساری خطائیں نکل جاتی ہیں۔ جب وہ چہرہ دھوتاہے تو اس کے چہرے سے خطائیں نکل جاتی ہیں حتیٰ کہ آنکھوں کی پلکوں کے نیچے تک سے نکل جاتی ہیں۔ جب وہ ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں کی ساری خطائیں نکل جاتی ہیںحتیٰ کہ ناخنوں کے نیچے تک سے نکل جاتی ہیں۔ جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو سر کی ساری خطائیں نکل جاتی ہیں حتیٰ کہ کانوں تک سے نکل جاتی ہیں۔ جب وہ اپنے پاؤں دھوتا ہے تو ا س پاؤں کی ساری خطائیں نکل جاتی ہیںحتیٰ کہ ناخنوں کے نیچے تک سے نکل جاتی ہیں۔‘‘(نسائی)۔
    مسلم کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
    ’’حَتّٰی یَخْرُجَ نَقِیًّا مِنَ الذُّنُوبِ‘ ‘
    ’’ یہاں تک کہ جب وضو سے فارغ ہوتا ہے تو گناہوں سے پاک صاف ہو چکا ہوتا ہے۔‘‘
    نمازوں اور جمعہ کے ذر یعے گناہوں کی صفائی:
    ایک بندہ مؤمن کی سب سے بڑی تمنا یہی ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے اس کے گناہ زائل ہوجائیں۔ نماز ا س کے لیے بہترین ذریعہ ہے۔ ایک نماز سے دوسری نماز تک جتنے گناہ انسان سے سرزد ہوتے ہیں وہ دوسری نماز کی ادائیگی سے ختم ہو جاتے ہیں۔ رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے:
    ’’پانچوں نمازیں اورایک جمعہ سے دوسرے جمعہ تک جتنے گناہ ہوتے ہیں نمازیں اور جمعہ ان کا کفارہ ہیں۔‘‘(مسلم)۔
    نمازی سے کائنات کی ہر چیز محبت کرتی ہے:
    جب آدمی پوری طرح سے نمازی بن جاتا ہے تو کائنات کی ہر شے اس سے محبت کرتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک کام کیے ان کے لیے رحمان محبت پیدا فرما دے گا۔‘‘ (مریم 96)۔
    یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے کہ فرائض کی ادائیگی اور پھر کثرت نوافل تقرب الٰہی کا بہت بڑا سبب ہے۔بندہ جب اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کر لیتا ہے تو اللہ رب العزت اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ وہ جب کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو فرشتے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر پوری زمین میں اس کے لیے محبت عام کر دی جاتی ہے۔ ارشاد نبوی ؐہے :
    ’’اللہ تبارک وتعالیٰ جب کسی شخص سے محبت فرماتا ہے تو جبریل ؑ کو آواز دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت فرما تا ہے تم بھی اس سے محبت رکھو،جبریل ؑ اس سے محبت شروع کر دیتے ہیں، پھر جبریل آسمانوں میں منادی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتا ہے تم سب بھی اس سے محبت کرو چنانچہ آسمان والے اس شخص سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں،پھر اس کے لیے زمین میں بھی قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘(بخاری)۔
     نماز نور ہے:
    قیامت کے اندھیروں میں جب کوئی بجلی کا قمقمہ ہو گا نہ چاند ہو گا نہ سورج ہو گا،بے نماز ی ٹھوکریں کھاتے پھریں گے جبکہ نمازیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نور عنایت کیا جائے گا۔ ارشاد نبوی ہے:
    الصَّلَاۃُ نُورٌ وَالصَّدَقَۃُ بُرْہَانٌ(مسلم)۔  
    شیخ محمد ابن عثیمین اس حدیث کی شرح میں بیان فرماتے ہیں:
    ’’نماز آدمی کے لیے دل میں ‘ چہرے میں‘ قبر میں اور حشر میں نور ہوگی۔ آپ دیکھتے ہیں کہ نمازی آدمی کے چہرے پر دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ رونق اور خوبصورتی ہوتی ہے۔ یہ وہی نور ہے جو رات کے اندھیروں میں نمازیں پڑھنے والوں کو نصیب فرما دیا جاتا ہے۔
    بے نماز شخص کے چہرے پر عجیب قسم کی بے رونقی ہوتی ہے اور ہر وقت اس کی ہوائیاں اڑی رہتی ہیں۔ نماز کے باعث دل میں بھی نور پیدا ہو جاتا ہے جس کے باعث انسان اپنے رب کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اور اس کے اسماء وصفات اور اسکے افعال کی اور اس کے احکام کی معرفت حاصل کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ بہتر طریقے سے اپنے رب کی عبادت کر سکتا ہے۔ ‘‘
     رسول اللہ کا ارشاد گرامی قدر ہے:
    ’’جو کوئی اس نماز پر ہمیشگی کرے گا یہ اس کے لیے قیامت کے دن نور‘ برہان اور نجات بن جائے گی، جو اس کی حفاظت نہیں کرے گا اس کے لیے نہ کوئی نور ہو گا نہ برہان ‘ نہ ہی وہ نجات پا سکے گا۔ اس کا حشر قارون‘ فرعون‘ ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔‘‘(احمد)۔
    اس فرمان رسول کی روشنی میں ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی پابندی کرے اور فرائض کے بعد زیادہ سے زیادہ نوافل بھی پڑھے تاکہ اس کے نور ‘ علم اور ایمان میں اضافہ ہو سکے۔
    شاہی دستر خوان پر نمازی کے لیے نعمتیں:
    اس دستر خوان سے اللہ کا مہمان جب اٹھتا ہے تو وہ سیر ہو کر اٹھتاہے۔ وہ خوب اچھی طرح کھا پی کر وہاں سے لوٹتا ہے۔ یہ غذا جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوتی ہے۔
     اسے قبولیت کا لباس پہنا دیا جاتا ہے۔اسے غنی کرکے واپس کیا جاتا ہے۔ وہ جب اس دستر خوان پر آتا ہے تو آتے وقت اس کے دل کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ اسے بھوک‘ قحط‘ بنجر پن ‘ پیاس‘ بے لباسی‘ اور بیماری کا سامنا ہوتا ہے لیکن وہ جب اپنے مالک کے ہاں سے اٹھتا ہے تو مالک اسے غنی بنا چکا ہوتا ہے۔ وہ اسے کھلاکر ‘ پلا کر‘ لباس پہنا کر اور ایسے تحائف عطا کرکے بھیجتا ہے جو اسے پوری مخلوق سے غنی کر دیتے ہیں۔
    یعنی اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے کا دل آنے سے پہلے بے شمار تفکرات‘ ہموم اور وساوس سے لبریز ہوتا ہے مگر جب وہ نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو لیتا ہے تو اس کا دل محبتِ الٰہی‘ توکل‘ صبر‘ رضا اور شکر نعمت کے جذبات سے معمور ہوتا ہے۔ وہ دنیا جہان کی نعمتوں کو اس عبادت کے مقابلے میں حقیر خیال کرتا ہے۔جیسا کہ رسول اللہ کا ارشاد گرامی ہے:
    رَکْعَتَا الْفَجْرِ خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیہَا۔
    ’’فجر کی دو سنتیں دنیا اور اس کے تمام خزانوں سے بڑھ کرہیں۔‘‘

(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - -شب معراج کی عدم تعیین، مبنی بر حکمت

شیئر: