Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تمباکو نوشی کارجحان اور اس کی ہلاکت خیزی

یاد رکھیں کہ بچے اپنے ماں باپ سے سیکھتے ہیں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں وہ آپ کی نقالی کریںگے اوراچھی بری عادت سیکھیں گے
* * * *    مولانانثار احمدحصیر قاسمی۔ حیدرآباد دکن* * *
نفسیاتی ماہرین کی تحقیقات نے واضح کیا ہے کہ کسی بھی بری عادت ولت کو چھڑانے میں مذہبی پہلوؤں کا اثر دیگر وسائل کے بنسبت زیادہ ہوتاہے۔ ایک سا  ئیکلوجیکل سائنس کی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ بری عادتوں وخصلتوں کو چھڑانے میں حکم شرعی کی معرفت کا اثر نسبتاً زیادہ ہے۔
     سگریٹ نوشی، گٹکھا اوراس طرح کی بری عادتوں میں مبتلا کچھ طلبہ پر تحقیقات کی گئیں تو اندازہ ہوا کہ حکم ِشرعی کا اثر اُن پر 52فیصد ہوا ۔جسمانی صحت کے لئے مضر اثرات کی باتوں کا اثر 18فیصد ہوااورمادی خساروں کی باتوں کا ان پر اثر صرف 12فیصد ہوا۔سگریٹ نوشی، تمباکو اورگٹکھا وغیرہ کے بارے میں ہمارے علماء کا فتویٰ ہے کہ یہ مکروہ تحریمی ہے کیونکہ اس کے بے شمار نقصانات ہیں اوربسااوقات یہ لت اس کے لئے مہلک وجان لیوا ثابت ہوتی ہے جس کا ہم مشاہدہ آئے دن کرتے رہتے ہیں۔ ان چیزوں کے اندر چونکہ خبث بھی ہے اس لئے اسے صرف مکروہ نہیں بلکہ مکروہ تحریمی ہی کہا جاسکتاہے۔ اللہ تعالی کا ارشادہ ہے: اورپاکیزہ چیزوں کو حلال بتاتے ہیں اورگندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں(الاعراف157)۔
    اس سے واضح اشارہ مل رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کیلئے پاکیزہ اورطیب کھانے پینے کی چیزیں ہی حلال کی ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہم بیڑی، سگریٹ، گٹکھا، قات، کھینی اورتمباکو جیسی دیگر اشیاء کو طیب وپاکیزہ چیز نہیں کہہ سکتے اس لئے تمبا کواوراس سے بنی ہوئی ساری چیزیں خواہ کتنی ہی ترقی یافتہ شکل میں کیوں نہ ہوں، اس کا استعمال کرنا ناجائز ہی ہوگا۔ ہمیں بخوبی علم ہے کہ ان ساری مصنوعات کے اندر مضر صحت مادے پائے جاتے ہیں جس کی صراحت تمام طبی ماہرین نے کی ہے جس کی وجہ سے ہی بین الاقوامی سطح پر ان کے ڈبوں پر اس کی وضاحت کرنی قانونی طور پر لازم قرار دیاگیاہے۔
     تمباکو نوشی خواہ دھنواں لے کرہو، یا چباکر یاپی کر یاکسی بھی صورت میں، اس کا استعمال درست نہیں بلکہ اس سے باز آنا اورہرحال میں اس سے دور رہنا ضروری ہے، اورجو اس کے عادی ہوچکے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ فوری اسے ترک کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کریں۔تمباکو نوشی کی صورتحال جب پیدا ہوئی تھی تو اس وقت فقہاء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا تھا کہ اسے حرام قرار دینا مناسب ہوگا یانہیں۔کسی نے اسے حرام سمجھا اورکسی نے اسے مکروہ قراردیا، کہ اس کی مضرت رسانی زیادہ واضح نہیں تھی، نیز اس لئے بھی کہ اس کی حرمت پر نص قطعی موجود نہیں تھی بلکہ مسئلہ مجتہدفیہ تھا اس لئے اکثر فقہاء نے اسے مکروہ قرار دینے پر اکتفاء کیا اوراسے شراب کی طرح حرام قرار نہیں دیا کہ جس کی حرمت کا منکر کافر ہوجاتاہے۔
    آج میڈیکل سائنس نے ثابت کردیاہے کہ تمباکو نوشی کے نقصانات یقینی ہیں اسی لئے اسکے پیکٹوں پر لکھنا ضروری ہے کہ ’’تمباکو نوشی مضر صحت ہے‘‘۔ جب اس کی مضرت متحقق اورمنفعت معدوم ہے تو ’’لاضرر ولاضرار‘‘ قاعدہ کے تحت اسے حرام ہونا چاہئے، نہیں تو اس کے مکروہ تحریمی ہونے میں تو اسی قاعدے اوراس کے مضرت رساہونے کی وجہ سے اسے حرام ہونے کا فتویٰ دیاہے۔ 25؍ جمادی الاولیٰ 1420ھجری کو مصری دارالافتاء نے ایک فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دور حاضر میں سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ تمباکو اُسے استعمال کرنے والوں کی جان کو خطرہ پہنچاتاہے۔ اس کے اندر اسراف وتبذیر، فضول خرچی اوربے جا مال کو ضائع کرنا بھی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اوراپنے آپ کو قتل نہ کرو ،یقینا اللہ تعالیٰ تم پر نہایت مہربان ہے(النساء 29)۔
    علامہ یوسف قرضاوی نے بھی اس کی حرمت کا فتویٰ دیاہے اورحرمت کی علت اس کا نقصان دہ اورخبیث ہونا قراردیا اوررسول اللہ کے اس قول سے استدلال کیا ہے کہ’’لاضرر ولاضرار‘‘ نہ نقصان پہنچائے نہ نقصان اٹھائے۔ انہوں نے اس کے علاوہ کئی آیتیں ذکر کی ہیں، جیسے:اپنی جان کو مت مارو (النساء29)۔
    مالی نقصانات پر دلیل پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسراف وفضول مال ضائع کرنے سے منع کیاہے، جیسے:
فضول خرچی نہ کرو ،اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا(الاعراف31)۔
    علامہ یوسف قرضاوی نے واضح کیا ہے کہ بیڑی، سگریٹ نوشی اورتمباکو وگٹکھا کے استعمال میں مال کا خرچ کرنا مال کو ضائع وبرباد کرنا اوراہل خانہ کی روزی پر زیادتی اورفیملی واہل خانہ کی ضروریات کو محض اس وجہ سے نظر انداز کرناہے کہ اپنے نفس کی تسکین کرے، جس کا وہ اسیرہوچکاہے، یہ اوراس طرح کا مزاج اوراس طرح کی عادت نہایت منفی اورنقصان دہ ہے۔
    انہوں نے منفی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ پوری اسلامی شریعت کا مقصد 5 چیزوں کی حفاظت کرناہے، یعنی حفظِ دین، حفظِ نفس، حفظِ عقل، حفظِ نسل اور حفظِ مال اوران چیزوں کے استعمال کی وجہ سے یہ ساری چیزیں متاثر ہوتی ہیں، اس لئے جو لوگ بیڑی سگریٹ گٹکھا تمباکو نوشی اوراس جیسی چیزوں کے عادی ہیں، انہیں اس سے فوری توبہ کرنا چاہئے کیونکہ یہ چیزیں نہ صرف ان کی صحت کو بگاڑتی ہیں بلکہ ان کی قوت وتازگی کو بھی ختم کردیتی اوران کی مردانگی کو بھی متأثر کرتی ہیں اس لئے مسلمانوں کو اس سے ہر حال میں بچنا چاہئے کہ ہمارا دین ومذہب ہم سے اسی کا متقاضی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایاہ:اوراپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو(البقرۃ 195) ۔
    کچھ لوگوں نے اس کے عدم جواز پر اس آیت سے بھی استدلال کیاہے:بے عقل لوگوں کو اپنا مال نہ دے دو جس مال کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری گزر بسر کے قائم رکھنے کا ذریعہ بنایاہے(النساء 5)۔
    بے وقوفوں اورکم عقل ناسمجھوں کو خود ان کا مال ان کے حوالے کرنے سے اس لئے روکا گیا ہے کہ وہ اس کو ضائع کرسکتے اوراس میں افساد کے مرتکب ہوسکتے ہیں، یقینا وہ افساد وفضول خرچی کے مرتکب ہوتے ہیں، اس لئے اس آیت کا بھی تقاضا ہے کہ اسے ممنوع وقطعی ناجائز ہوناچاہئے۔حدیث کے اندر بھی آتاہے کہ رسول اللہ نے مال ضائع کرنے سے منع کیا ہے۔ ان چیزوں میں روپے پیسے خرچ کرنا یقینا اضاعتِ مال ہی ہے۔ان چیزوں کی عادت ایسی ہے کہ انسان اس کا اسیر ہوکر رہ جاتاہے، خواہش وطلب کے وقت اگر یہ نہ ملے تو اس کا دل تنگ ہوجاتا، وہ اِدھر اُدھر بے چین چکر کاٹنے لگتاہے، اس کا چین وسکون غارت ہوجاتااورایسا اسے محسوس ہونے لگتاہے کہ اس کی دنیا ہی تاریک ہوگئی ہو،زندگی کا لطف ہی اس سے چھین لیاگیاہو، گویا انسان اپنے ہاتھوں خود اپنے آپ کو ایسی چیزوں کا اسیر بنالیتاہے جس کی اسے زندگی کیلئے ضرورت نہیں تھی۔
    بیڑی سگریٹ اورسگار جس کا دھواں اٹھتاہے، اسکی مضرت استعمال کرنیوالوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ اسکی مضرت متعدی ہوتی ہے۔ دوسروں کو اسکی بدبو سے سخت تکلیف واذیت پہنچتی اوردوسروں کی جسمانی صحت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ماہرین ِ طب نے واضح کیا ہے کہ اس سے کینسر اوردماغی وقلبی سکتہ کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والا بچہ بھی ماں باپ کی سگریٹ نوشی سے متاثر ہوتا، اس کی قوت مدافعت کی صلاحیت کم ہوجاتی، تنفس میں بگاڑ پیدا ہوتا، سانس کی تکلیف پیدا ہوتی اورپھیپھڑے کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے، اسکے بڑھنے کی صلاحیت کمزور ہوجاتی، ہڈیاں کمزور ہوجاتی اوراس طرح کے بے شمار عوارض پیش آجاتے ہیں، جو اسکے ساتھ پوری زندگی لگارہتا اوراس کی زندگی کو پریشانیوں سے دوچار کردیتاہے۔بسااوقات بطنِ مادر میں پرورش پانے والا بچہ اس کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوکر ولادت کے دوران ہی جاں بحق ہوجاتااوردم گھٹ کر اس کی موت ہوجاتی ہے، جس کا سبب والدین یادونوں میں سے کسی ایک کی تمباکو نوشی ہوتی ہے۔ہمیں علم ہے کہ ایذائے مسلم حرام ہے اوراس سے یقینی طور پر دوسروں کو اذیت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:اورجو لوگ مومن مردوں اورمومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو وہ بڑے ہی بہتان اورصریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں(الاحزاب58)۔))
    حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں جس کے شر اوراذیت سے اس کا پڑوسی مامون ومحفوظ نہ رہے(بخاری) ۔ایک اورحدیث کے میںہے کہ آپ نے فرمایا:جودوسروں کو ضرر پہنچائے اللہ اسے ضرر پہنچائے گا، جو دوسروں کو مشقت میں ڈالے گا تو اللہ اسے مشقت میں ڈالے گا۔
    جن چیزوں کا دھنواں یا بدبو دوسروں تک پہنچتی ہے یقینا اس سے دوسروں کو تکلیف بھی ہوتی اوراسے جسمانی ضرر بھی پہنچتاہے، شاید اسی وجہ سے اللہ کے نبی نے اچھے ہمنشینوں کو اختیار کرنے اوربری صحبتوں سے پرہیز کرنے کی تعلیم دی ہے۔سیدناابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:نیک ساتھیوں اوربرے ساتھیوں کی مثال مشک رکھنے والے اوربھٹی میں پھونک مارنے والے کی طرح ہے، حامل مشک تو تمہیں نفع ہی پہنچائیگا کہ تم اس سے یا تو خوشبو خریدوگے یاکم از کم اس کی خوشبو پائوگے اوربھٹی میں پھونک مارنے والا یا تو تیرے کپڑے جلادیگا یا اس سے تم بدبو ہی پائوگے(بخاری)۔
    بیڑی سگریٹ پینے والے ساتھیوں کو ہم بہترین وصالح ہم نشیں نہیں کہہ سکتے بلکہ ان کے سگریٹوں کی چنگاریوں سے ان کے کپڑے بھی جلتے رہتے اوردوسروں کے بھی اوراس سے خوشبو توآتی نہیں بلکہ یقینا بدبو پھیلتی اوردوسروں کو اپنی ناک بند کرنے پر مجبور ہونا پڑتاہے،ہم آئے دن اپنے گرد وپیش میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ ان بیڑی سگریٹ اورگٹکھوں نے پینے والوں کے سینے اورپھیپھڑوں کو سڑادیا، ان کی صحت کو تباہ کردیا اورانہیں کینسروں میں مبتلا کرکے ملک عدم کو پہنچادیا۔ہم نے دیکھا کہ گٹکھوں نے منہ کو گلا دیا اوروہ تڑپ تڑپ کر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔بھٹی میں پھونک مارنیوالا تو کچھ فائدے کا کام کرتاہے اوراپنے عمل سے خود بھی کماتااوردوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتاہے مگر سگریٹ پینے والے کے اندر تو مضرت وایذاء کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ خواہ کسی بھی شکل میں ہو آنے والی اولاد کے موروثی جین کو نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ اسقاط حمل کا ایک بڑا سبب ہے۔بچے پیدائش کے بعد آپ سے اچھی یابری عادت سیکھتے ہیںِآپ کی تمباکو نوشی کی عادت ان کی طرف منتقل ہوسکتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ والدین اس کا استعمال کریں اوربچوں کو اس سے پرہیز کرنے کی تلقین کریں۔ ہمیں اپنے بچوں کیلئے آئیڈیل بننا چاہئے، اچھی عادت وخصلت ہی ان کی طرف منتقل کرنی چاہئے۔ ہمیں یقین کرناچاہئے کہ اولاد ہمارے پاس امانت ہیں اورقیامت کے دن اس امانت کے بارے میں ہم سے سوال کیا جائے گا۔اگر ہم نے اپنی ان اولاد کو ضائع کردیا اورانہیں بری عادتوں کا اسیر بنادیا تو روز ِقیامت ہم کیا جواب دیں گے، اللہ کے نبی نے فرمایاہے:تم میں کا ہر کوئی نگراں ہے اوراس سے اسکے زیرنگرانی کے بارے میں سوال کیاجائیگا(بخاری)۔
     اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایاہے:جو اپنی امانتوں اوروعدے کی حفاظت کرنے والے ہیں(المؤمنون 8)۔
    والدین اگر سگریٹ نوشی کررہے ہیں اوران کے معصوم بچے یا بڑے اگر ان سے پوچھ لیں کہ ابوجان! آپ بیڑی کیوں پیتے ہیں؟ گٹکھا کیوں کھاتے ہیں؟ کیا یہ اچھی عادت اورمفید عمل ہے؟ کیا آپ کی طرح میں بھی اسے استعمال کرسکتاہوں؟تو آپ کیا جواب دیں گے؟ یا تو آپ لیپاپوتی کریںگے، ٹال مٹول کریںگے، جواب دینے میں مکاری ودروغ گوئی سے کام لیںگے، یابچے کو دھوکا دینے کی تدبیریں تلاش کریںگے۔ اُس وقت آپ کی ان حرکتوں سے بچے کو اندازہ ہوجائے گا کہ آپ دھوکہ باز اورمکاری کرنے والے ہیں، پھر آپ پرسے اس کا اعتماد اٹھ جائے گا، آپ اس کی نگاہ میں بے وزن ہوجائیںگے اورآپ کی کسی بھی بات کا اثر اس پر نہیں ہوگا، پھر آپ
 اس کی تربیت کرنے کے قابل نہیں رہیںگے اوراگر آپ نے مکاری ولیپاپوتی ودروغ گوئی سے کام نہیں لیا تو آپ اسے بھی اس گڑھے میں ڈھکیل دیںگے اوراسے بھی اس کا عادی بننے کیلئے چھوڑدیں گے، پھر کیا آپ اس سے یہ امید کرسکتے ہیں کہ وہ آپ کی عزت واحترام کرے گا اوربڑھاپے میں آپ کا سہارا اورآخرت میں آپ کیلئے صدقہ بنے گا؟
    یاد رکھیں کہ بچے اپنے ماں باپ سے سیکھتے ہیں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں وہ آپ کی نقالی کریںگے اوراچھی بری عادت سیکھیں گے۔ وہ بھی اگر اسی کے عادی بن گئے جس کے آپ عادی ہیں، پھر اگر آپ اس کی بری حرکتوں اورمذموم طرز عمل پر نکیر کریںگے تووہ آپ کی بات نہیں سنیں گے بلکہ ان کے اندر نافرمانی وسرکشی پیدا ہوگی اس لئے اگر آپ اپنے بچوں کو متوازن رکھنا اورصحیح راستے پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے اندر توازن ودرستی پیدا کریں اوراس بری لت سے فوراً توبہ کریں۔
مزید پڑھیں:- - - - -آہ ! یہ کلمۂ طیبہ سے نا واقف مسلمان

شیئر: