Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ اتنی دھان پان، ہوا کا جھونکا آئے تو ساتھ ہی لے جائے

اُم مزمل۔جدہ
وہ والدین کے حالت احرام میں ہی خالق حقیقی سے جا ملنے پرسجدہ¿ شکر اداکر رہی تھی ۔ وہ اسکی تلاش میں آیا تھا۔ کہاکیا صرف کھانا پکانے سے دعوت کا کام ختم ہو گیا؟کیا آج سارا دن افسوس کیا جائے گا ۔ وہ دعائیں کرتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ اس نے اسے زورسے دھکا دےکر کہا” کاہل عورت ’نجانے کس جاہل نے تمہیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری دے دی۔” وہ لڑکھڑائی اور اس کی پیشانی دروازہ کی چوکھٹ سے جا ٹکرائی۔
وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی ۔والدہ کی تربیت نے اسے دین سے قریب کر دیا تھا۔ وہ کسی کو کمتر نہیںسمجھتی تھی۔ اسکی نگاہ اسباب کی بجائے مسبب الاسباب پر ہوتی تھی۔ وہ اس بات کا ادراک رکھتی تھی کہ کسی مخلوق کی مجال نہیں کہ اس سے کوئی کام لے سکے۔ جب تک کہ خالق کا حکم نہ ہو جائے۔ 
وہ عالمی شہرت کے حامل تعلیمی ادارے سے اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے داداجان کے حکم پر واپس آگیا تھا جنکا کہنا تھا کہ وسائل سے مالامال
 اپنے ملک کو نوجوانوں کی ضرورت ہے ۔تعلیم یافتہ لوگوں کو چاہئے کہ عوام کی بہتری کے لئے ہر گلی،محلے میں پرائیویٹ اسکولوںکی شکل میں تعلیم کی جو تجارت ہو رہی ہے اس کے سدباب کے لئے ریاست کی مدد کریں ۔پورے ملک میں ایک نصاب تعلیم رائج کرنے میں بھرپور کردار ادا کریں۔ ہر بچے کے لئے تعلیم مفت اور لازم قرار دی جائے کیونکہ ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ مفیدعلم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر واجب ہے ۔
وہ ڈھائی ماہ پہلے رخصت ہو کر یہاں آئی تھی۔یونیورسٹی میں زیر تعلیم اس طالب علم نے اپنے اوپر ایسا لبادہ اوڑھ رکھا تھا کہ اس کے 
والد شہرکے اعلیٰ تعلیمی ادارہ کے سربراہ ہونے کے باوجود پہچان نہ سکے اور اس خواہش کی تکمیل میں کہ جب تک ہمارے گاﺅں میں تعلیم یافتہ طبقہ اپنا کردار ادا نہیں کرے گا ،اس وقت تک ہمارا ملک کیسے ترقی کرے گا ،اپنی لخت جگر کو جو پی ایچ ڈی کا تھیسس بڑی عرق ریزی سے مکمل کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں چند دن پہلے ہی کامیاب ہوئی تھی، رخصت کردیا۔ 
وہ حالات حاضرہ پر گفتگو کرتا رک سا گیا تھا۔وہ میز سے برتن سمیٹ کر سینی میں جمع کرتی جارہی تھی اور دوسرے ہاتھ میں موجود اسپرے کرکے ململ سے میز بھی صاف کررہی تھی ۔وہ اس تیزی سے سارے کام انجام دے رہی تھی کہ لگتا تھا وہ نہایت منظم شخصیت ہے ۔ جب اس نے اس کے سامنے کے برتن اٹھا کر سینی میں رکھ کر میز صاف کرکے کانچ کے برتنوں سے بھری سینی اٹھانا چاہی تو وہ جو فطرتی 
طور پر ہمدرد طبیعت تھا، اچانک اسکی مدد کو اٹھ کھڑا ہوا اور کہا آپ اتنا وزن کیسے اٹھاسکیں گی لیکن ابھی اسکا یہ مختصر مکالمہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ سینی اٹھا کر واپسی کے لئے مڑ چکی تھی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں موجود درجن بھر نفوس اسکی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ وہ حیرت سے اپنے میزبان سے استفسار کر رہا تھاکہ کون تھی یہ؟وہ ایک شاہانہ تفاخر سے کہ رہا تھا ”خادمہ ہے ہماری“، جیسے اسکی اہمیت اس بات سے بڑھتی ہو کہ جب ہماری خادمہ کو دیکھکر تم حیران ہورہے ہو تو اس گاﺅں میں ہماری حیثیت سے بھی ایک دن ضرور متاثر ہوجاﺅگے۔ 
وہ ورطہ حیرت میں مستغرق ہو کر کہہ رہا تھا کہ سر سے پیر تک سیاہ چادر میں ملبوس،وہ ہستی ، اس کا چہرہ لگتا تھا جیسے شبنم سے دھل رہا ہو۔ اس کا پرشکوہ،شاہانہ انداز جیسے کسی شہزادی کی آمد ہو ۔ہاں اتنا ضرور لگا کہ کسی نے اس کو قحط زدہ علاقے میں بھیج دیا ہو۔ اتنی دھان پان سی کہ ہوا کا کوئی جھونکا آئے تو اسے اپنے ساتھ ہی لے جائے اورپھر کہاکہ دوست تم اپنی اس خادمہ کوہمارے ہاں بھیج دو۔ میں اس کے لئے ایک بڑا بارانی علاقہ تمہارے نام لکھدوں گا۔“ 
وہ اسکا عمزاد جو اپنی ہم جماعت ڈاکٹر سے شادی کرکے اپنے خاندان بھر میں چیلنج کرتا رہتا تھا کہ میں نے ایک شہری لڑکی کو تیر کی طرح سیدھا کر رکھا ہے اور اس کے چیلنج کو قبول کرتے ہوئے وہ بھی اپنی یونیورسٹی فیلو سے شادی کرکے اسے گاﺅ ں لے آیا تھا۔فرق صرف اتنا تھا کہ ایک نے بہرحال انسانیت کا دامن نہیں چھوڑا تھا جب کہ دوسرے نے یہ حد بھی پار کر لی تھی ۔اسی کا نتیجہ تھا کہ اس علاقے سے بہت عرصہ دور رہنے والے کو اس کہانی کی کوئی خبر نہیں تھی اور وہ اس کو اپنی خادمہ کہہ رہا تھا۔ 
وہاں موجود سارے رشتہ دار اس تجسس میں تھے کہ وہا ںموجودمہمان کو کیا جواب ملتا ہے جبکہ اس کو یہ بات مزید چراغ پا کر گئی کہ اس کو جیسے کسی نے قحط زدہ علاقے میں رکھا ہو۔“ 
وہ ناراضی سے کہنے لگا کہ میرے نکاح میں ہونے کے باوجود اس نے تمہاری طرف دیکھا کہ تم اسے نجات دلا دو گے ۔ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار تو یہاں موجود نہیں، والدین جو حج کی ادائیگی کے لئے گئے تھے ،آج ٹی وی پر سرکاری طور ان کے حوالے سے اطلاع دی گئی کہ تیز دھوپ کی وجہ سے سن اسٹروک ہوا اور وہ بحالت احرام اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ وہ حیرت سے دیکھنے لگا۔اس محفل میں پہلی بار آنے والے اور ان سب سے کہیں زیادہ امیر کبیر مہمان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور غصے میں کہا”تف ہے تم پر کہ اپنی منکوحہ کو سب کے سامنے لاتے ہو اور اس کو خادمہ کہہ کر اسکی بے عزتی بھی کرتے ہو۔ کیا تم مرد کہلانے کے لائق ہو؟“وہ تیزی سے بیرونی دروازے کی جانب بڑھتا چلا گیا اور باقی مہمان بھی آناً فاناً وہاں سے روانہ ہوگئے۔
اسے سب کے سامنے کچھ ایسی خفت برداشت کرنا پڑی کہ اس نے اس کا بدلہ لینے کی ٹھان لی۔ وہ اس کی کوئی بات نہیں سمجھ سکی کہ وہ بار بار کس کا نام لے رہا تھا اور پھر اچانک اس نے اپنے اوپر مٹی کے تیل کی بو محسوس کی ۔ایسا لگا کہ سناٹے میں کوئی کھٹکا ہوا ہو اور ابھی اس نے ماچس کی تیلی زمین پر پھینکی ہی تھی کہ ہر طرف شعلہ سا لپک گیا اور وہ جو جلدی میں اپنا بٹوہ چھوڑ گیا تھا،اچانک وہاںآ پہنچا۔ اس نے اپنے کندھے سے چادر اتار کر اس پر ڈالی اور اسی وقت اندر سے وہ نکل آیااور کہنے لگا کہ کیا تم اس کو نہیں لے جاسکتے ۔ میں تمہارے خلاف پرچہ کٹوادوں گا۔“
اس نے ایک ہاتھ سے اسے سنبھالتے ہوئے دوسراہاتھ جیب میں ڈال کرپستول نکال کر اس کا نشانہ لیا اور کہا کہ میں خالی پستول کبھی اپنے پاس نہیں رکھتا ۔ یہ کہہ کر اس نے پیلی روشنی دیتے، ٹمٹماتے بلب پر فائر کردیا۔ وہ اپنی شامت آتے دیکھ کر فوراً جان چھڑانے کو 
 چیخ چیخ کر تین حرف اس پر بھیج رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میں کل ہی اس کے والدین کے گھر کے پتے پر کاغذ بھجوادوں گا پھر تم مجھے کیسے عدالت میں سزا دلواسکوگے ؟
بارہ سال کے بعد وہ اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ شکار پر گیا تھا۔ اس دفعہ وہ بھی ساتھ تھی ،کہہ رہی تھی کہ ” مجھے اپنی زمین پر کام کرنے والے بہت عزیز ہیں ان کی وجہ سے تو ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہیں ورنہ ہمارے عاقبت نااندیش لوگوں نے کھانے پینے کی 
 چیزیں بھی بیرون ملک سے ہی منگوانے کا قصد کر رکھا تھا۔ تاحدنظر اس کی اپنی زمین تھی اور وہ سچ مچ شہزادی جیسی زندگی گزاررہی تھی ۔ وہ اس کی ہربات مانتی تھی۔ جانتی تھی کہ اس کا شوہر معمولی آدمی نہیں۔ اس لئے اسے چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھانا نہیں چاہئے کہ اس پر اپنے گاﺅں والوں کی بہت ذمہ داریا ں ہیں۔اسکے بغیر ڈرجانا ، اس بھیانک رات کا خیال آجانے پرکہ جیسے ہر طرف سے شعلہ اسکی طرف لپک رہا ہو، پھر کسی کے اچانک اس پر چادر ڈال دئیے جانے پر بے ہوش ہوجانا،وہ یہ باتیں کبھی اسے نہیں بتائے گی اور وہ سوچتا تھا کہ وہ کبھی یہ بات اسے نہیں بتائے گا کہ اسکا بٹوہ وہاں نہیں رہا تھا وہ تو نجانے کس احساس کے تحت کشاں کشاں اس کے گھر چلا آیا تھا شا ید قدرت کا یہ فیصلہ تھا۔
جاننا چاہئے کہ جو خالق پر بھروسہ کرتا ہے وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ 
 

شیئر: