Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

##پمرا

چیف جسٹس نے پمرا کی کمیٹی سے وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا نام نکال دیا ہے۔ ٹویٹر پر اس پر ردعمل ظاہر کرنے والوں کا ایک طرح سے ازدحام ہے۔
انجم کیانی لکھتے ہیں کہ مریم اور نواز شریف نے عدلیہ اور فوج پر 2سال سے سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ میڈیا اور پمرا کا یہ قانونی فرض ہے کہ وہ الزامات اور سیاسی مندرجات کا ثبوت ان دونوں سے طلب کرے۔ 
نائیلہ عنایت کہتی ہیں کہ عدالت سے لبیک والوں کی نفرت انگیز تقاریر پر پابندیوں کی امید نہیں رکھتے۔
مینا کہتی ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ پمرا نے میڈیا کو پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں رپورٹنگ سے منع کیا ہے۔
عدیل راجہ لکھتے ہیں کہ اس ادارے کی سربراہی ایک بہروپئے کی طرف سے سنبھالنے کے بعد کارکردگی ا تنی خراب ہوچکی ہے کہ اب بعض درباری کالم نگاروں اور خوشامدی ٹویٹرز نے بھی اتنے بڑے عہدے کیلئے خود کو پیش کردیا ہے۔ باس کی عدالت میں بے عزتی ہوگئی۔ اسے سمجھنا چاہئے کہ عدالتیں اسکی جائداد نہیں۔
یاسر اقبال خان لکھتے ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ نے پمرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ 15روز میں عدلیہ مخالف تقریروں کا نوٹس لے۔
غزالہ عزیز ٹویٹ کرتی ہیں کہ کیا کوئی مجھے بتائے گا کہ اس وقت پمرا کا سربراہ کون ہے؟
عمر قریشی لکھتے ہیں کہ لاہور ہائیکورٹ نے پمرا کو 15دن کا نوٹس دے تو دیا لیکن اس بات کا فیصلہ کون کریگا کہ کونسا مواد عدلیہ مخالف ہے؟
اومی لکھتے ہیں کہ پمرا کو تو اب تحفظ مل گیا۔
ملیحہ لکھتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی مدنظررہنی چاہئیں۔1۔ باپ بیٹی کو عدلیہ کے خلاف بولنے سے روک دیا گیا، 2۔ مریم اورنگزیب کا نام پمرا کمیٹی سے نکال دیا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭ 

شیئر:

متعلقہ خبریں