Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یمن میں امن

جمعرات 19اپریل 2018ءکو مملکت سے شائع ہونے والے اخبار ”الریاض“ کا اداریہ
  یمن کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی سیاسی مذاکرات کے احیاءکی اسکیم کا اعلان کرچکے ہیں اور بتا چکے ہیںکہ آئندہ2 ماہ کے اندر وہ اس اسکیم کو روبعمل لائیں گے۔ اسکے برعکس زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی یمن کو طویل بحران کے دلدل سے نکالنے اور امن عمل کی جہت میں آگے بڑھنے کے حوالے سے ادنیٰ خواہش کا اظہار نہیں کررہے ۔
اقوام متحدہ کے نئے ایلچی کے سامنے یمنی صورتحال بڑی پیچیدہ ہے۔ زمینی صورتحال یہ ہے کہ ایران کے حمایت یافتہ حوثی اپنی پالیسی تھوپنے کی روش اپنائے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ یمن کے تمام فریق وہی سب کچھ کہیں اور کریں جو حوثی ان سے چاہتے ہیں۔ وہ یمنی بحران کے آغاز سے لیکر اب تک اہل یمن کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ملک کے سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل کے نجات دہندہ وہی ہیں، کوئی اور نہیں۔ 
صنعاءمیں نئے ایلچی کے پہلے انٹرویو اور حوثیوں سے پہلی ملاقات کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کے ایلچی باور کراچکے ہیں کہ وہ زیرو سے کام نہیں شروع کرینگے۔ مسلسل صورتحال یہ بتا رہی ہے کہ سعودی شہروں پر ایران کے فراہم کردہ بیلسٹک میزائل حملے کرنے والے حوثیوں کے رویئے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
حوثیوں کی اسکیمیں وہ ہیں جو ایران میں تیار کی گئیں۔ ایران کو یمن کے کسی بھی امن منصوبے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایران تو یمنی ریاست کو صفحہ وجود سے مٹا کر ایران کے اڈے میں تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ عالمی برادری کو یہ بات اچھی طریقے سے سمجھ لینی چاہئے تھی اور پہلے نہیں سمجھی تھی تو اب سمجھ لینی چاہئے تھی کہ یمنی بحران کا جامع حل خلیجی فارمولے اور یمنیوں کے قومی مکالمے کی قراردادوں نیز یمن سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2216پر عملدرآمد میں ہے۔ اگر امن کا قیام حوثیوں کی خواہش ہے تو آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں کے عزم و ارادے کو کسی پر کسی بھی حالت میں نہیں تھوپا جاسکتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: