Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

علم ایسا ہتھیار جو کبھی کند نہیں ہوتا، ڈاکٹر عشرت سوری

زینت شکیل۔جدہ
مالک عرش بریں نے انسانوں کے لئے کائنات مسخر کر دی تاکہ وہ اپنی ذہانت سے زمین و آسمان میں موجود علم کو اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر حاصل کریں۔ وہی ذہانت جو قدرت نے بہترین علم حاصل کرنے اور عمل میں لانے کے لئے اس کائنات کو جاننے میں صرف کرنے کے لئے عنایت فرمایاہے ۔ جو اپنی ذہانت کا درست استعمال کرے گا جنت میں اپنی بہترین جگہ بنانے میں کامیاب ہوسکے گا۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اپنے آپ کی قدر کرتے ہیں، قدرت کی طرف سے عطا فرمائے ہوئے ،اپنے پاس موجود رزق کو خرچ کرتے ہیں۔ انسان کی ہر صلاحیت اس کے رزق کی ہی صورت ہے ۔
ہر انسان ذہین ہوتا ہے۔ کوئی زیادہ، کوئی کم لیکن اصل ذہانت اس شخص کی درست وقت میں درست فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے اورقدرت کا بہترین عطیہ ہے۔ 
ڈاکٹر دبیرسوری اور انکی اہلیہ ڈاکٹر عشرت سوری ”ہوا کے دوش“پر اردونیوز کے مہمان تھے جنہوں نے وقت کے درست استعمال ہی کو کامیابی کا اہم راز بتایا اور کہاکہ جس نے اپنے وقت کو منظم کر لیا وہ کبھی کسی کام کے نہ کئے جانے پر وقت کی کمی کا اظہار نہیں کرے گا۔ وقت کو منظم نہ کرنے کی حقیقت سے عمومی طور پر سب واقف ہوتے ہیں۔ یہ صرف عذر کے طور پر کہتے ہیں کہ وقت ہی نہ ملا ورنہ آپ کا کام ضرور کر دیتے۔
ڈاکٹر عشرت اپنے بارے میں بتا رہی تھیں کہ والدین کی اہم ذمہ داری ان کے اپنے بچے ہوتے ہیں اور ان میں جو سب سے بڑے ہوتے ہیں انکی ذمہ داری بہر حال خود بخود بڑھ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اکثر والدین اپنی سب سے بڑی اولاد کو بہت زیادہ توجہ سے پالتے ہیں کہ ان کودیکھ کر ان کے چھوٹے بھائی بہن کی تربیت خود ہو جائے گی۔ اکثر والدین اس بات کو برملا کہتے ہیں کہ آپ اپنی سب سے بڑی اولاد کی تربیت پر بھرپور توجہ دیں، ان سے چھوٹے انہیں دیکھ کر ہی بڑے ہونگے تو انہیں اپنے گھر کی تربیت کا خوب اندازہ ہوگا۔ صبح کی مسنون دعائیںپڑھی جائیں۔ صبح کے آغاز سے ہی بچوں کی تربیت شروع ہوجاتی ہے پھر گھر کے افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ رویہ، خاص کر والدہ کا اپنے معاملات میںطرز عمل، ان کی انصاف پسندی وغیرہ، یہ سب کچھ بچے سیکھتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ رواداری اور درگزر کا رویہ ہم نے اپنی والدہ سے سیکھاہے۔ والد محمد طیب نے تعلیم کی اہمیت سے اتنا آگاہ کیا کہ جیسے ہر بچہ جب بڑا ہو تو نہ صرف خود تعلیم یافتہ ہو بلکہ اپنے ارد گرد رہنے والوں تک تعلیم پہنچانا بھی اس کی ہی ذمہ داری ہو۔
ایبٹ آباد، مانسہرہ، سوات یہ سب ایسے علاقے ہیں کہ جن کی خوبصورتی دیکھنے کے لئے دنیا بھرسے لوگ آتے ہیں لیکن ان علاقوں کے لوگوں میں تعلیم عام کرنا نہ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے بلکہ وہاں کے پڑھے لکھے لوگوں کا بھی اخلاقی فریضہ ہے ۔آج سے 50 سال پہلے وہاں کی تعلیمی صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اس صورت میں ہر ایک طالب علم ایک فرد کو پڑھائے، اس طرح ہر علاقے میں 50 فیصد تعلیم یافتہ لوگ100 فیصد تعلیم یافتہ آبادی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں ۔
والد صاحب کی علم دوست شخصیت نے ہم سب بھائی بہنون کو نہ صرف خود اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی طر ف راغب کیا بلکہ ہر ایک نے بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلیم کے شعبے میں اپنی خدمات کو یقینی بنایا۔ کئی نے تعلیم کے حصول کے بعد تعلیمی شعبے کو اپنایا اور کسی نے جاب 
 تو کسی دوسرے شعبے میں اختیار کی لیکن تعلیم کے شعبے میں کام کرنے والوں کو سہولت پہچانے والوں میں شامل ہوگئے تاکہ جن لوگوں نے اس اہم کام کا بیڑا اٹھایا ہے،انکے ساتھ ملکر اپنے ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹایا جا سکے۔
پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر عشرت بتا رہی تھیں کہ ہم نے وقت کو درست طریقے سے مینج نہیں کیا ورنہ ہر عورت کے پاس اتنا وقت 
 ضرور ہوتا ہے کہ پہلے اپنے بچوں کی تعلیم و تر بیت کرے اوران کے اذہان کو ایک سوچ عطا کر دے کہ اگرصرف ہم تعلیم حاصل کریں تویہ ادھوری بات ہے۔ پوری اور مکمل بات یہ ہے کہ ہر ایک فرد اتنا علم ضرور حاصل کر لے کہ اس کوزندگی کا مقصد معلوم ہوجائے ۔علم ایسی روشنی ہے جو دیے سے دیا جلانے کے مترادف پھیلتی جاتی ہے۔ اس کے لئے قدرت بھی نیک نیت لوگوں کی مدد کرتی ہے ۔جس نے لوگوں کی بھلائی کا کام سوچا ،اس کے لئے راستے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عشرت سوری کئی جامعات میں طالبات کی استاذہ رہیں۔ کہتی ہیں کہ دارلحکمہ یونیورسٹی طالبات کی بہترین ذہنی نشو ونما کر رہی ہے ۔ایک پروفیسر ہونے کی وجہ سے مصروفیت اپنی جگہ ہوتی ہے لیکن وہ ایسے کسی دعوت نامے کو رد نہیں کرتیں جس میں ان سے مقالہ پڑھنے یا تعلیمی سیمینار میں شرکت کی درخواست کی جاتی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ پوری دنیا میں تعلیم کو عام کرنے میں اپنے خاندان کی شمولیت کا ذکر ان معنوں میں کر رہی تھیں کہ آج نہیں بلکہ جب وہ خود اسٹوڈنٹ تھیں، اس وقت سے اپنے علاقے میں جگہ جگہ جاکر عورتوں کی تعلیم سے آگاہی اور اسکی ضرورت پر بات چیت کرتیںبلکہ انہیں معمولی نوعیت کے تعلیمی پروگرام کا حصہ بھی بناتیں تاکہ انہیں اپنی زندگی یوں ہی بیکار نہ محسوس ہو اور انہیں بھی اپنی ذات پر بھروسہ اور اعتماد حاصل ہو سکے۔
ڈاکٹر عشرت سوری نے وقت کو اپنے تمام کاموں کے لئے منظم کرنے کے سلسلے میں بتایا کہ ہم جب چھوٹے تھے ،اپنے والدین 
 کے گھر پر تھے، جب بھی اتنا ہمارے پاس وقت ہوتا تھا کہ ہم اپنی پڑھائی لکھائی کے ساتھ محلے کی لڑکیوں کو پڑھانے کا وقت خوب نکال لیتے تھے ۔
شادی کے بعد شوہر نے ہمیشہ سپورٹ کیا ۔انسان جب تعلیم کی اہمیت کو جان لیتا ہے تو اپنی صلاحیت سے اپنی مٹی کا قرض سب سے بہترین صورت میں اسی طور اتار سکتا ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کو تعلیم سے بہرہ مند کرنے کی کوشش کرے ۔انہیں تعلیم کی اہمیت سے نہ صرف آگاہ کرے بلکہ اس کے لئے تعلیم کا حصول بھی آسان بنائے۔ ہم بھی شوہر کے آفس جانے کے بعد تمام گھر کی صفائی،ستھرائی سے لیکر تمام کام کرکے خود پڑھانے چلے جاتے تھے اور شوہر کے گھر آنے سے پہلے واپس آجاتے تھے دونوں ملکر ایسے تعلیمی پروگرم ترتیب دیتے جن سے لوگوں کو کم از کم اتنی تعلیمی صلاحیت سے آراستہ کردیا جائے کہ انہیں اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی مشکل نہ ہو۔ وہ حیرت سے کہہ رہی تھیں کہ آج جب وہ خواتین کو دیکھتی ہیں کہ کوئی بھی جاب کئے بغیر اور گھر کے کسی کام کو ہاتھ لگائے بغیر وہ سارا دن گزارتی ہیں اور وقت کی کمی کا رونا بھی اپنی جگہ ہوتا ہے۔ وہ اس حال پر حیران رہ جاتی ہیں ۔
امریکہ کی جانب سے سوات میں شروع کئے جانے والے تعلیمی پروگرام میں وہ مقالہ پڑھنے کی دعوت پر اپنی موجودگی کو لازمی بناتی ہیں کہ دنیا میں جہاں بھی ہوں، پروگرام طے ہوجاتا ہے ۔ اپنی تعطیلات میں سیاحت کے پروگرام کو مو خر کرکے اپنی مٹی کی روشنی میں حصہ دار بننے کی کوشش میں ضرور پہنچتی ہیں۔
ڈاکٹر عشرت نے کہاکہ ایک ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ اس ریاست کا ہر فرد تعلیم یافتہ نہ ہو۔ کسی گاﺅ ں اور شہر کی اس میں کوئی تخصیص نہیںاور دیکھا جائے تو گاﺅں کی خواتین زیادہ محنتی ہوتی ہیں اور اپنے گھر کے کام کاج کے لئے زیادہ دور تک پیدل سفر کرتی ہیں چاہے انہیںلکڑی چننا ہو،پانی لانا ہو یا کھیت میں کام کرنا ہو یا پھر کھانا تیار کرکے اپنے شوہر کو پہنچاناہو۔ ہر صورت میں اسے پیدل ہی آناجانا ہوتا ہے۔ گاﺅں کی زندگی میں اس جفاکشی کی وجہ سے کوئی بیماری انہیں نہیں گھیرتی۔ وہ مٹاپے سے بھی دور رہتی ہیں۔ اگر ہمارے یہاں چند ایک چیزیں درست کر لی جائیں توتیز تر ترقی ممکن ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارا ملک قدرتی نعمتوں سے تومالامال ہے ہی۔ 
خواتین کے لئے انہوں نے یہی کہا کہ وقت کو درست طریقے سے ترتیب دیں۔ گھر کے کام کے ساتھ اپنے علاقے کے لوگوں کی تعلیم و ترقی میں ہاتھ بٹانے کا وقت مل جائے گا۔ صرف میڈیا ریٹنگ کو فالو کرنا سراسر اپنا وقت اور پیسہ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ 
شادی کی بابت ڈاکٹر عشرت سوری نے کہا کہ دبیر صاحب کا خاندان نہایت اعلی تعلیم یافتہ ہے ۔اس لئے دونوں خاندانوں میں اچھی ہم آہنگی ہے ۔ایک دوسرے کا خیال رکھنا ہی دراصل اچھے اخلاق کی نشانی ہے۔ہماری شادی میں ادا کی جانے والی رسمیں بہت سادہ اور اچھی تھیں۔ اس زمانے میں بڑے اہتمام سے شادی کی وڈیو بنوائی جاتی تھی اور اسے وقت نکال کر دیکھتے بھی تھے ۔آج تو تقریب میں موجود ہر مہمان اپنے اسمارٹ فون سے ہر تقریب میں آڈیو وڈیو بناتا نظر آتا ہے ۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شوق برقرار اسی وقت تک رہ سکتا ہے جب اس کو ایک حدمیں رکھا جائے۔ اب تو لوگ ایک ہی منظرکو سیکڑوں دفعہ تصویر میں قید کرتے ہیں اور شا ید ہی کبھی تمام آڈیو اور وڈیو کو دوبارہ دیکھنے کا وقت نکال سکتے ہوں۔ یہ دنیا کی ترقی کی انتہاءہے ۔اب اسکی انتہائی حد آناباقی رہ گیا ہے۔
میرے سسرال میں کوئی پڑھنے لکھنے پر پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ اس اقدام کو احسن نظروں سے دیکھا گیا کہ خود بھی پڑھائی کا سلسلہ جاری رکھااور تعلیمی شعبے میں درس و تدریس میں مشغول بھی رہیں اور اپنے وقت کو منظم کرتے ہوئے کئی تعلیمی اداروںکو اپنے علم سے مستفید کیا۔ 
پاکستان میں خواتین کی تعلیم،روزگار اور انکی بہبود کے لئے سرگرم ادارے کی سر پرست اعلیٰ محترمہ شمیم کاظمی کی بہت قدر کرتی ہیں۔ انکے خاندان کے سب ہی افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تعلیم کے شعبے کو اپنایا۔ ان کی چھوٹی بہن ایک ماسٹرز پاکستان سے کرچکی تھیں لیکن جب یو کے اپنے صاحب زادے کی تعلیم کے سلسلے میں گئیں تو گھر والوں کے مشورے پر آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایک اورمضمون میں ماسٹرز کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد ایک بہترین یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر کے بطور تعینات ہوئیں۔ 
ڈاکٹرعشرت کی تمام بہنوں اور بھائیوں نے خود بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے ایسے ادارے جو لوگوں کی بہبود کے لئے کام کر رہے ہوں، ان اداروں کو کوئی تعلیمی مدد کی ضرورت ہو تو وہ ضرور اسے پوری کرتے ہیں۔ 
ڈاکٹر دبیر کا کہنا ہے کہ میری اہلیہ ڈاکٹر عشرت نہایت منظم،مہذب اور معتبر شخصیت ہیں ۔انہیں اپنے علاوہ اوروں کا خیال بھی رہتا ہے ۔اپنے علاقے کی بہبود کے لئے وقت دیتی ہیں۔ اپنے صاحب زادے کی تعلیم و تربیت میں خاص دلچسپی لیتی ہیں۔ یہ امر انتہائی اہم اور لائق توجہ ہے کہ ہم صرف اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے جیسے لوگوں کے لئے بھی اس دنیا میں آئے ہیں ۔ ہر کاروان بنتے بنتے ہی بنتا ہے۔ علم ایسا ہتھیار ہے جو کبھی کند نہیں ہوتا۔ اس ہتھیار سے سب کو مسلح کرنے کے لئے تمام لوگوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا چاہئے۔
ڈاکٹر عشرت کے پسندید ہ مصنفین کی ایک طویل فہرست ہے ۔اقبال،غالب،میر ،درد، داغ ،جگر اور ان کے علاوہ انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا،اے آر خاتون اور رضیہ بٹ وغیرہ جبکہ عالمی ادب میں انہیںسب سے زیادہ شیکسپیئر نے متاثر کیا۔
 

شیئر: