Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پردیس ،صرف وطن سے ہی نہیں، ہرقدر سے دوری ہے

مسز ربانی۔ جدہ
کام زوروں پر تھا۔ گھر کی تعمیر اور تزئین بھی ایک بہت لمبا اور سر کھپانے والا کام تھا اور اس کا اندازہ اسے شروع کرنے کے بعد ہوا۔ بہرحال کرنا تو تھا ہی سو کرلیا۔ کسی نے کہا کہ ٹھیکے پر دے دو،کسی نے کہاکہ نہیں اپنے سامنے روزانہ کی مزدوری پر کام کرائیں۔ کریں تو کیسے کریں، ملک سے دورپردیس میں رہنا صرف وطن سے دوری نہیں بلکہ آبائی سرزمین کی ہرقدر سے دوری ہے ۔ لوگوں کا ملنے کا انداز بولنے کا انداز اور معاملات کا انداز سب سے یکسر دور ہوجاتے ہیں اور پھر یہ تو ہمارے بزرگوں نے بھی ہمیں بتایا ہے کہ کسی شخص کے اخلاق کی پہچان اس وقت ہوتی ہے جب اس سے کوئی معاملہ کیاجاتا ہے۔ 
بہرحال کام شروع ہو گیا۔ مہربانی ہمارے اپنوں کی جنہوں نے خوب محنت کی او رہم بھی اسی دوران پہنچ گئے۔ کچھ چیزیں جو قابل ذکر ہیں اور میں نے نوٹ کیں وہ یہ کہ وہاں لوگوں کا رویہ ہمارے ساتھ بالکل مختلف ہے یعنی ہمارے پیسے کی انکی نظر میں کوئی قدر نہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ہم صرف کماتے ہیں، خرچ کرنے کی نوبت ہی نہیںآتی جبکہ سب کو معلوم ہے کہ انسان جہاں کماتا ہے، وہیں خرچ کرتا ہے۔ اس کے بجٹ سے جو بچتا ہے، وہی جمع کرسکتا ہے او رجمع کرنے میں جو دقت اور مشقت ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کسی کی اتنی محنت سے کمائی ہوئی رقم جب وہاں خرچ ہوتی ہے تو حقیقتاً دکھ ہوتا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گھر مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر کاریگر کا الگ کام ، ہر ایک کی الگ کہانی ، الگ فرمائشیں ، اپنی مرضی کے پیسے، اپنی مرضی کا دن۔ آنے اور جانے کا وقت وہ خود مقرر کرتا ہے۔ یوں دنوں کا کام مہینے اور مہینے کا کئی مہینوں پر پھیل جاتا ہے۔ 
مزدور کی مزدوری کام کی نوعیت کے مطابق نہیں بلکہ کام کروانے والے کے مطابق ہوتی ہے کہ وہ کس علاقے کا ہے اور کس آدمی کا ہے۔ مزدوروں کے منہ غار کے دہانے کی طرح کھلے ہیں۔ کوئی 50ہزار،کوئی 20 ہزاراور کوئی لاکھ سے اوپر مانگتا ہے اور کہنے والے ہمارے اپنے کہ ارے بھئی آپ ان مزدوروں سے کیا بھا¶ تا¶ کرتے ہیں انہیں 10کے بجائے 12دیں ، ثواب ہے اور ہم چاروناچار سوچتے کہ شاید وہ ٹھیک ہیں اور ہم ہی ان آداب سے ناواقف ہیں۔
بہر حال کسی نہ کسی طرح گھر مکمل ہوا اور ہم آدھے ادھورے کبھی گھر کو اور کبھی جیب کو دیکھتے اور سوچتے کہ ابھی تو صرف گھر تک بات پہنچی ہے۔ شادی ہے ، عزت رہ جائے تو بڑی بات ہے ۔ شادی اگر پہلے بچے کی ہے تو وہ اور بھی جان لیوا ۔ہر آدمی ایک ہی نصیحت کرتا ہے کہ یار آپ زیادہ نہ سوچیں ،پہلے بچے کی شادی ہے، پہلی خوشی ہے۔ دل بڑا رکھیں۔ ہم پاکستان کی کمائی میں نہیں گھبراتے، آپ تو ریال والے لوگ ہیں۔
ہاں جی ہم ریال والے لوگ ہیں جبھی، ورنہ غم نہ ہوتا۔ غربت اور غیر ملکی، دونوں کا المیہ الگ ہے۔ غریب نظر آتا ہے او رہم نظر میں ہی نہیں آتے۔ ساری زندگی کمانے اور بچانے میںگزار دیتے ہیں۔ واپسی پر گھر اور بچوں کی شادی کا خیال آتا ہے۔ ساتھ میں شوگر، بی پی اور دیگر جان لیوا امراض بھی ،اب کس کو اپنے دکھی دل کی داستان سنائیں ۔کوئی مہلت دے تب ناں۔
شادی شروع ہوئی۔ حسب معمول یہ تیاری ،وہ تیاری بجائے اس کے کہ کوئی سیدھا سادھا راستہ دکھائے ، کم خرچ بالا نشیں کی بات کرے۔ سب یک زبان تھے کہ چکن تو عام ہے۔ آپ مٹن پرزور دیں، ایسی ڈشز رکھیںکہ لوگ عش عش کریں۔لوگوں کو محسوس ہو کہ کچھ ہٹ کرہے ، ورنہ دعوت تو روز ہی کھاتے ہیں لوگ۔ یہ بھی مسئلہ حل ہوا۔ اب دوسری شادی لاہور کی ہے۔ کراچی سے لاہور جانا کما ل تو نہیں تھا لیکن چند لوگوں کو لے کر جانا مشکل مرحلہ تھا ۔کسے چھوڑیں اور کسے پکڑےں۔ بہرحال کچھ ناراض ہوئے کچھ خوش۔ خاص خاص، چنیدہ لوگ لےکر چلے۔ اسٹیشن پر سامان دیکھتے ہی قلی آیا اور صاحب اتنا کہہ کر اٹھانے لگا۔ ہم نے سوچا اتنے سارے بیگ اسے گھنٹہ تو لگے گا۔ ہزار مانگے ہیں، ٹھیک ہے مگر باقی لوگوں کو اعتراض تھا۔ ارے بھئی آپ نے اتنا کیوں دیا۔ 10،12بیگ ،ہیں400بہت ہیں ۔وہ لوگ قلی بے چارے سے مسلسل بحث کر رہے تھے۔ میں نے کہا اتنا کچھ ہو گیا۔ اس 2ماہ میں کہ یہ ہزار مجھے جائز لگ رہا ہے۔یہ لوگ کیا کماتے ہوں گے، کیا کھاتے ہوں گے۔
ارے آپ نے تو کمال کی بات کی۔ کم سے کم 30سے 40ہزار ایک مزدور کماتا ہو گا اور میں نے سوچا ،یہ بے چارے اتنا کماتے تو ان کے گھر ٹوٹے نہ ہوتے ،ان کے بچے ریل کی پٹریوں پر نہ کھیلتے۔
خیر سفر شروع ہوا ۔ ہم میزبان تھے حتی المقدور کوشش تھی کہ مہمانوں کا خیال رکھا جائے ورنہ ہمارے لئے سیدھا سادھا الزام تھا کہ ساری عمر ریالوں میں کمایا مگر کنجوسی سے کام لیا۔ چائے والا چائے والا آوازیں دیتا او رمیں سوچتی کہ30کی چائے لوں تو ہزار سے زیادہ کی ہو گی، چلو خیر ہے۔ مہمان ہیں ۔ارے بھئی چائے والے، سب کو چائے دو۔ ان میں سے کچھ نے پہلے یہ سوچ کر انکار کیاکہ شاید ان کو ادائیگی کرنی ہو گی لہٰذا بولے کہ اچھی نہیں ہوتی ۔ میں نے کہا پی لیں میری طرف سے ہے۔ اچھی نہ ہو تو پھینک دینا۔ اچھا چلیں واہ بھئی، یہ تو بڑے مزے کی ہے۔ ظاہر ہے چلتی ٹرین تھی، اسٹیشن کئی بار آیا اور یوں لوگ سردی کے بہانے شروع ہو گئے۔ ہاں بڑی اچھی چائے ہے اور سردی میں زیادہ لطف آ رہا ہے۔ 
اسٹیشن پر گاڑی رکی، میں نے کہا چلو اب مونگ پھلی لے آ¶ ،چھوٹے چھوٹے پیکٹ تھے۔ ارے اتنے سارے کیو ںلے آئے۔ آپ نے ہی تو ہزار کا نوٹ دیا تھا،یہ تو 800کے لئے ہیں 200بچا دیئے۔ ویسے یہ 15کا پیکٹ ہے مگر یہاں50کا دیا ہے ۔ بہت مہنگا ہے مگر میں نے سوچا آپ کو کیا فرق پڑتا ہے ،آپ کے لئے توچند ریال ہی ہوئے ناں۔ یوں ہم ریال وریال ہوگئے۔
ایسے ڈھیروں واقعات ہمیں ہر سفر پر ہر موقع پر پیش آتے ہیں لیکن مجھے دو باتیں بہت ہی زیادہ پریشان کرتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے ساتھ لوگ رعایت نہیں کرتے۔ یہ سوچ کر کہ ہم بہت ہی مالا مال ہیں ، ہمیں پھر بھی یہ قبول ہے لیکن اس مزدور کو جو لاکھوں میں آپ سے مزدوری لے جاتا ہے ،اسے کچھ بڑھا کر دینا پسند کرتے ہیں اور وہ قلی جو ہزار یا 500مانگتا ہے، اس سے بھا¶ تا¶ کرتے ہیں۔ کبھی ان کے چہرے کو اور ان کی عمر کو غور سے دیکھیں ۔وہ غربت اور نقاہت کے باوجود مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ ان سے زیادہ مول تول نہ کریں۔ ہمیں اپنے ایک سامان کے ساتھ چلنا مشکل لگتا ہے اور وہ سر پر 2، بغل میں2 بیگ اوردونوں ہاتھوں میں کتنا کتنا سامان اٹھا کر لدے پھندے سیڑھیاں چڑھتے آپ کو اسٹیشن سے باہر چھوڑ کر آتے ہیں۔ ان کا حق ہے ہم پر۔زیادتی پھر بھی قابل قبول ہے لیکن وہ تو بہت ہی قابل رحم ہیں۔ اللہ کریم بصارت عطا فرمائے تاکہ ہم لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ انہیں فائدہ دیں۔ 
مذکورہ واقعات سے ایک ہی غرض ہے کہ ہمارے مال میں جن کا بھی حق ہے، ان کی حق تلفی بالکل نہ کریں۔ اسراف اور زیادہ خرچ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے نہ کریں ۔ جان لیں کہ وہی لوگ کامیاب ہیں جو اپنے رب کریم کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتے ہیں۔ 
 

شیئر: