Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بےروزگاری اور وزارت محنت کے قوانین

سعید محمد بن زقر ۔ المدینہ
آج کے کالم میں اپنے قارئین کو سعودی وژن 2030 کے ایک کلیدی حصے سے آگاہ کرنا چاہتاہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پہلو ایسا ہے جس پر مزید روشنی ڈالنا واجب ہے۔ سعودی وژن 2030کے تحت خواتین کو سعودی معاشرے میں مطلوبہ اہم کردارادا کرنے کا موقع فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس میں توجہ دلائی گئی ہے کہ سعودی لیبر مارکیٹ میں مرد و زن کے درمیان توازن پیدا کیا جائیگا اور خواتین کے حلقوں میں موجود بےروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کو قابو کیا جائیگا۔
بعض قوانین ایسے ہیں جو خواتین کو انکا اپنا حق حاصل کرنے کی راہ میں لگام لگائے ہوئے ہیں۔ میں نہیں کہتا کہ یہ قوانین باقاعدہ لگام لگانے کیلئے ہیں۔ خوش گمانی کا تقاضا ہے کہ میں یہ کہوں کہ ایسا خواتین کا حد سے زیادہ دھیان رکھنے کے جذبے سے کیا گیا ہے۔ اس قسم کے ضوابط بنانے والے چاہتے ہیں کہ خواتین کسی طرح کی بھی پریشانی اور تنگی میں نہ پڑیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہی قوانین نجی ادارو ںمیں خواتین کو روزگار دلانے کے امکانات پر منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔ فکر کی بات یہ ہے کہ کام دینے والے وطن عزیز کے سماجی حصے کا اٹوٹ حصہ ہیں۔ انکی بابت ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ وہ ہموطن بہنوں اور بیٹیوں کے تقدس کا اتنا ہی خیال رکھیں گے جتنا واجب ہے۔ علاوہ ازیں ایک پہلو اور بھی ہے۔ ہمیں اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو نجی اداروںمیں کام کرنے کا سلیقہ اور شعور بھی دینا ہے۔ انکے اندر خود اعتمادی بھی پیدا کرنا ہوگی۔ ہمیں صحیح فیصلے لینے کیلئے خواتین کی حوصلہ افزائی بھی کرنا پڑیگی۔
اصولی بات یہی ہے کہ ہماری بیٹیاں اور بہنیں جتنا زیادہ تعلیم حاصل کریں گی اور جتنی زیادہ زندگی گزاریں گی انکے اندر اتنی ہی پختگی آئیگی۔ اسی قدر خوداعتمادی ان میں آئیگی اور اسی درجے ان کے اندر ہنر اور لیاقت ابھرےگی۔ ایسا ہوگاہو تووہ درست فیصلے کرسکیں گی۔ ہمیں اپنی خواتین کو فیصلے کرنے کا حوصلہ دینا پڑیگا۔ جب خواتین فیصلے کرینگی تو اس سے انکا پیداواری عمل اور ملازمت کی کارکردگی مثبت شکل میں بہتر ہوگی۔ وہ اپنے خاندان اور معاشرے کیلئے زیادہ مفید بنیں گی۔ غیر خاندانی افراد کے ساتھ معاملات کا سلیقہ آئیگا۔ اس تناظر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ قوانین کی لفظی پابندی انہیں روزگار دلانے کے بجائے روزگار سے ہٹانے کا باعث بن رہی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے یہاں ایک قانون ہے جس کے بموجب ایک خاتون کارکن مردو ںکے درمیان بیٹھ کر کام نہیں کرسکتی۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی ادارے کو مارکیٹنگ کی ماہر کسی خاتون کی خدمات درکار ہوں تو اسے ایک سے زیادہ خواتین کی تقرری کرنا ہوگی ورنہ وہ ایک خاتو ن کو بھی ملازمت نہیں دے سکتا۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ ایک خاتون کو ملازمت سے قانونی طور پر محروم کیا جارہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے قوانین نیک نیتی کی دین ہیں البتہ یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ اس قسم کے قوانین خواتین کو ملازمت کے حصول کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ سعودی عرب میں خواتین کے حلقوںمیں 75فیصد بےروزگاری ریکارڈ کی گئی ہے۔زیادہ تر نوجوان لڑکیاں ہی بےروزگار ہیں۔ اس تناظر میں ایسے قوانین پر نظر ثانی واجب ہوگی جو خواتین کی ملازمت کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ 
مسئلہ قوانینِ محنت تک ہی محدود نہیں بلدیاتی کونسلوں کے لائحہ عمل بھی خواتین کی ملازمت کی راہ میں حائل ہیں۔ مثال کے طور پر پابندی یہ ہے کہ چھوٹی دکانوں پر کام کرنے والی خاتون الگ ہوگی اور مرد الگ ہوگا۔اس پابندی کی وجہ سے چھوٹی دکانوں پر مالکان خواتین کی تقرری سے جان چھڑا رہے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ دکاندار ایک کی بجائے کئی خواتین کو ملازمت دے اور انکے لئے باقاعدہ پارٹیشن کا بھی بندوبست کرے۔ اگر دکاندار پر یہ ساری پابندیاں عائد کی گئیں تو یہ اسکی بساط سے بڑھ کر ہونگی اور وہ کسی بھی حالت میں خواتین کی تقرری نہیں کریگا۔ خواتین کو کیشئرکے طور پر بھی کام کرنے کی اجازت ہے۔ بڑی دکانوں پر یہ تقرری آسانی سی ہوجاتی ہے۔ چھوٹی دکانوں پر مختلف پابندیوں کی وجہ سے خواتین کیشئر کے طور پر کام نہیں کرسکتیں۔ بلدیاتی کونسلوں کو بھی اپنے ضوابط پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: