Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عورت کے ٹیڑھ پن سے فائدہ اٹھاؤ ، حسن سے لطف اندوز ہو

امام احمد ابن حنبلؒ نے اپنے صاحبزادے کو10 نصیحتیں فرمائیں،ہر مرد ان نصیحتوں کو غور سے پڑھے اور اپنی زندگی میں  اختیار کرے

 

* * *ڈاکٹر بشریٰ تسنیم۔ شارجہ* **
اللہ رب العزت نے سید الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب میں مبعوث فرمایا  تو وہ مردوں کا معاشرہ تھا ،مرد کی حاکمیت تھی،اولاد میں بیٹے ہی قابل فخر تھے۔بیٹی اور عورت حقیر کمتر تھی۔ اسلام  ہمیشہ سے سلامتی کا پیغام لے کر آیا مظلوم طبقہ کے لئے۔قرآن و سنت کی ساری تعلیمات مظلوم طبقہ کو  ظلم و بربریت سے نجات دلانے کے لئے ہیں۔غلاموں اور عورتوں کے حقوق متعین کئے گئے ہیں اور ظالمانہ نظام کی نفی اور متکبر خود پسند لوگوں کو عذاب  سے ڈرایا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی آخری وصیت میں بھی ان 2مظلوم طبقہ کے حقوق کی پاسداری پر  زور  دیا گیا ہے۔
     تکبر و رعونت خود پسندی میں مبتلا لوگ نہ اپنی اصلاح کرسکتے ہیں اور نہ کسی سے محبت کر سکتے ہیں،نہ ہی اپنے متعلقین کے دلوں میں جگہ بنا سکتے ہی۔یہ ایک ایسا شیطانی عمل ہے جس کی وجہ سے نصیحت ،تنقید ،مشورہ ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے۔اپنا ہر فعل مکمل طور پر درست اور اپنی عقل سب سے بہتر لگتی ہے۔اختیارات کے مالک اور عموماً شوہر  بیوی کو  یہ  حق ہر گز نہیں دیتے کہ وہ  ان کی کسی براء کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے۔اسکا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ بیوی شوہر کے ایک درجہ زیادہ فضیلت کا انکار کر رہی ہے اور اس کی قوامیت کو چیلنج کر رہی ہے۔
    حقوق و فرائض کے بارے میں افراط و تفریط  میں مبتلا   یہ معاشرہ بے یقینی کا شکار ہے۔مغربی  اور  ہندوانہ تہذیب کے اثرات کے ساتھ  اسلامی تعلیمات کے اثر و رسوخ نے ازدواجی زندگی کو  ذہنی خلجان میں مبتلا  کر رکھا ہے اورروکے ہے مجھے ایماں تو  کھینچے ہے  مجھے کفر  کی کشاکش رہتی ہے۔
    پختہ ایمان مضبوط ارادے کی تشکیل کرتا ہے اور یہ ارادہ کسی بھی قسم کے حالات و واقعات میں متزلزل نہیں ہوتا  "قل آمنت باللہ ثم استقم "زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں  اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔کامیاب ازدواجی زندگی کی  ہر کڑی اسی قول سے  جڑی ہے۔معاملاتِ زندگی کو حکمت و تدبر، دانائی، نرمی ،محبت و شفقت اور باوقار رعب کے ساتھ  چلانا مردانہ شیوہ ہے اورکمزور ،زیر دست کی  دلجوئی کرنا اس کے ساتھ  ربوبیت کا معاملہ کرنا  مردانگی کی شان ہے اور دلوں میں عقیدت، محبت اور شیفتگی اسی سے پیدا ہوتی ہے اور بارعب  وقار  حاصل ہوتا ہے ۔کمزوروں کے لئے اور خصوصاً بیوی کے ساتھ فرعونیت کا رویہ رکھنا ،ان کے ساتھ  حاکمانہ طرز عمل پر زندگی گزارنا جاہلوں کا شیوہ ہے اور اس سے دلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔
    کچھ مردانہ ذہن کا  یہ عالم بھی ہوتا ہے کہ وہ صنف مخالف کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ عورت کی ہر بات قابلِ مخالفت ہوتی ہے۔عموماً میاں بیوی میں چپقلش اسی  بات پڑ ہوتی ہے کہ بیوی کی بات درست بھی ہو تو ماننے کے قابل نہیں سمجھی جاتی ـاپنی غلطی بیوی کے سامنے تو ہر گز تسلیم  نہیں کی جاتی ۔یہ شوہر کی انا کا مسئلہ ہوجاتا ہے۔مردانہ  غرور ونفس  اس میں ہتک محسوس کرتا ہے۔غرض وہی  ظالمانہ ایام ِجاہلیت والی  سوچ  اکثر مردوں میں پائی جاتی ہے کہ  بیوی کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔باندی کنیز کا تصور نہیں جاتا۔شوہر  بن جانا حکمت و تدبر کا متقاضی ہے کہ  نبی کریم نے اخلاق کا  سب سے اعلیٰ درجہ اسی مرد کو  ملنے کی خوشخبری سنائی ہے جو اپنی  بیوی کے ساتھ اعلیٰ اخلاق رکھتاہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمد کے  بارے میں فرمایا: انک لعلی خلقِ عظیم۔
    اور خود نبی کریم  نے  عملاً بتایا کہ وہی اپنے گھر والوں کے لئے بہترین اخلاق والے ہیں۔کریمانہ اخلاق کا اعلیٰ نمونہ ہر طرح سے موجود ہے، گھر والوں کیلئے نہ خشونت نہ عقوبت نہ زبان کی تلخی نہ  بے جا پندار میں مبتلا بلکہ قابلیتوں کا اعتراف، درگزر کا مزاج،  تحمل کا مظاہرہ، نرمی و محبت کا ا یسا دریا جس کی روانی میں کمی نہ آئے۔صنف نازک کی طبعی کمزوریوں کا احساس کرتے ہوئے ان  سے مشفقانہ برتاؤ کرنا ہی ایک  مہذب شوہر کو زیب دیتا ہے۔
    امام احمد ابن حنبل  رحمہ اللہ نے اپنے صاحب زادے کو شادی کی رات10 نصیحتیں فرمائیں۔ہر مرد  شادی  کرنے سے پہلے  ان نصیحتوں کو غور سے پڑھے اور اپنی زندگی میں عملی طور پر اختیار کرے۔جو شادی شدہ ہیں وہ بھی اپنے انداز  و اطوار کا جائزہ لیں۔
    امام صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:
    "میرے بیٹے!تم گھر کا سکون حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اپنی بیوی کے معاملے میں ان10 عادتوں کو نہ اپناؤ لہذا ان کو غور سے سنو اور عمل کا ارادہ کرو۔
    ض    عورتیں تمہاری توجہ چاہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ تم ان سے واضح الفاظ میں محبت کا اظہار کرتے رہولہذا وقتاً فوقتاً اپنی بیوی کو اپنی محبت کا احساس دلاتے رہو اور واضح الفاظ میں اسکو بتاؤ کہ وہ تمہارے لئے کس قدر اہم اور محبوب ہے اور اس کا وفادار ہے ۔(اس گمان میں نہ رہو کہ وہ خود سمجھ جائے گی، رشتوں کو اظہار کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے)۔
    ض یاد رکھو اگر تم نے اس اظہار میں کنجوسی سے کام لیا تو تم دونوں کے درمیان ایک تلخ دراڑ آجائیگی جو وقت کے ساتھ بڑھتی رہے گی اور محبت کو ختم کردے گی۔
    ض  عورتوں کو سخت مزاج اور ضرورت سے زیادہ محتاط مردوں سے کوفت ہوتی ہے لیکن وہ نرم مزاج مرد کی نرمی کا بیجا فائدہ اٹھانا بھی جانتی ہیں لہذا ان دونوں صفات میں اعتدال سے کام لینا تاکہ گھر میں توازن قائم رہے اور تم دونوں کو ذہنی سکون حاصل ہو۔
    ض عورتیں اپنے شوہر سے وہی توقع رکھتی ہیں جو شوہر اپنی بیوی سے رکھتا ہے۔یعنی عزت، محبت بھری باتیں، ظاہری جمال، صاف ستھرا لباس اور خوشبودار جسم لہذا ہمیشہ اسکا خیال رکھنا  (ہمارے ہاں شوہروں  میں یہ حس بالکل نہیں پائی جاتی ،خوش لباسی خوش گفتاری، وغیرہ گھر میں آتے ہی عنقا ہو جاتی ہے)۔
    ض  یاد رکھو، گھر کی چار دیواری عورت کی سلطنت ہے، جب وہ وہاں ہوتی ہے تو گویا اپنی مملکت کے تخت پر بیٹھی ہوتی ہے۔اسکی اس سلطنت میں بیجا مداخلت ہرگز نہ کرنا اور اسکا تخت چھیننے کی کوشش نہ کرنا۔جس حد تک ممکن ہو گھر کے معاملات اسکے سپرد کرنا اور اس میں تصرف کی اسکو آزادی دینا۔
    ض  ہر بیوی اپنے شوہر سے محبت کرنا چاہتی ہے لیکن یاد رکھو اسکے اپنے ماں باپ ،بہن بھائی اور دیگر گھر والے بھی ہیں جن سے وہ لاتعلق نہیں ہو سکتی اور نہ ہی اس سے ایسی توقع جائز ہے لہذا کبھی بھی اپنے اور اسکے گھر والوں کے درمیان مقابلے کی صورت پیدا نہ ہونے دینا کیونکہ اگر اس نے مجبوراً تمہاری خاطر اپنے گھر والوں کو چھوڑ بھی دیا تب بھی وہ بے چین رہے گی اور یہ بے چینی بالآخر تم سے اسے دور کردے گی۔
    ض  بلاشبہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور اسی میں اسکا حسن بھی ہے، یہ ہرگز کوئی نقص نہیں، وہ ایسے ہی اچھی لگتی ہے۔ جس طرح بھنویں گولائی میں خوبصورت معلوم ہوتی ہیں لہذا اس کے ٹیڑھپن سے فائدہ اٹھاؤ اور اسکے اس حسن سے لطف اندوز ہو۔اگر کبھی اسکی کوئی بات ناگوار بھی لگے تو اسکے ساتھ سختی اور تلخی سے اسکو سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو وَرنہ وہ ٹوٹ جائے گی اور اسکا ٹوٹنا بالآخر طلاق تک نوبت لے جائیگامگر اسکے ساتھ ساتھ ایسا بھی نہ کرنا کہ اسکی ہر غلط اور بیجا بات مانتے ہی چلے جاؤ وَرنہ وہ مغرور ہو جائیگی جو اسکے اپنے ہی لئے نقصان دہ ہے لہذا معتدل مزاج رہنا اور حکمت سے معاملات کو چلانا۔
    ض  شوہر کی ناقدری اور ناشکری اکثر عورتوں کی فطرت میں ہوتی ہے۔اگر ساری عمر بھی اس پر نوازشیں کرتے رہو لیکن کبھی کوئی کمی رہ گئی تو وہ یہی کہے گی تم نے میری کونسی بات سنی ہے آج تک لہذا اسکی اس فطرت سے زیادہ پریشان مت ہونا اور نہ ہی اسکی وجہ سے اس سے محبت میں کمی کرنا۔یہ ایک چھوٹا سا عیب ہے اس کے اندرلیکن اسکے مقابلے میں اسکے اندر بے شمار خوبیاں بھی ہیں،بس تم ان پر نظر رکھنا اور اللہ کی بندی سمجھ کر اس سے محبت کرتے رہنا اور حقوق ادا کرتے رہنا۔
    ض  ہر عورت پر جسمانی کمزوری کے کچھ ایام آتے ہیں۔ ان ایام میں اللہ تعالیٰ نے بھی اسکو عبادات میں چھوٹ دی ہے، اسکی نمازیں معاف کردی ہیں اور اسکو روزوں میں اس وقت تک تاخیر کی اجازت دی ہے جب تک وہ دوبارہ صحتیاب نہ ہو جائے ،بس ان ایام میں تم اسکے ساتھ ویسے ہی مہربان رہنا جیسے اللہ تعالیٰ نے اس پر مہربانی کی ہے۔جس طرح اللہ نے اس پر سے عبادات ہٹالیں ویسے ہی تم بھی ان ایام میں اسکی کمزوری کا  لحاظ رکھتے ہوئے اسکی ذمہ داریوں میں کمی کردو، اسکے کام کاج میں مدد کرادو اور اس کیلئے سہولت پیدا کرو۔
    ض  آخر میں بس یہ یاد رکھو  بیٹے کہ تمہاری بیوی تمہارے پاس ایک قیدی ہے جسکے بارے میں اللہ تعالیٰ تم سے سوال کرے گا۔ بس اسکے ساتھ انتہائی رحم و کرم کا معاملہ کرنا،اس کی گواہی سب سے پہلی اور معتبر گواہی  ہوگی۔
    ربنا ہب لنا من ازواجنا و ذ ریتنا قرۃ اعین وجعلنا للمتقین  اماما، آمین۔
 
مزید پڑھیں:- - - -وکیل خواتین کے ساتھ مساویانہ معاملہ

شیئر: