Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں رواداری اور کھلا پن

امیل امین ۔ الشرق الاوسط
ان دنوں سعودی عرب میں نیا دور دیکھنے میں آرہا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان اس دور کے اصل محرک ہیں۔ خادم حرمین شریفین کی ہدایت پر وہی رواداری اور کھلے پن کے ماحول کو فروغ دے رہے ہیں۔ یہ اغیار کے ساتھ رواداری اور کھلے پن کا عمل دین حنیف کے بنیادی تصورات اور تعلیمات کے صحیح فہم کا نتیجہ ہے۔ 
چند روز قبل سعودی عرب میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ دیکھنے میں آیا ۔ویٹیکن مکالمہ بین المذاہب کے ادارے کے سربراہ جان لوی ٹوران نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔اس ادارے کی بڑی اہمیت ہے۔ اسے خود مختار ریاست ویٹی کن میں وزارت عظمیٰ کا درجہ حاصل ہے۔ اس کا قیام 1962-65ءکے دوران اس تبدیلی کا غماز تھا کہ کیتھولک رومانوی گرجا گھر دنیا کے دیگر مذاہب کے ساتھ تعلقات کا نیا باب شروع کرنے جارہا ہے۔ خاص طور پر اسلام اور یہودیت کے ساتھ جو ابراہیمی مذاہب مانے جاتے ہیں، تبدیلی کا ترجمان تھا۔ اس موقع پر ایک دستاویز منظر عام پر آئی جس نے جغرافیائی اور نظریاتی فاصلوں کی خلیج کم کردی۔
کہہ سکتے ہیں کہ کیڈینال ٹوران اور ان کے ہمراہ وفد کا دورہ سعودی عرب مکالمہ بین المذاہب کے کامیابی کارواں کو آگے بڑھانے کے عزم کا عملی اظہار ہے۔ ویٹیکن کا مذکورہ ادارہ 5عشروں سے زائد عرصے سے اس کی قیادت کررہا ہے۔انصاف کا تقاضا ہے کہ یہ سچائی بھی تسلیم کی جائے کہ ویٹیکن کے مذکورہ ادارے کو جو کامیابی نصیب ہوئی ہے، وہ ایسی حالت میں کبھی نہ ملتی اگر انہیں دوسری جہت میں تکثیری معاشرے اور اچھوتی رواداری میں یقین رکھنے والے قائد نہ ملتے۔ بلا شبہ اختلاف ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی حکمت کے تحت تمام لوگوں کو ایک امت نہیں بنایا۔
ہم جس ماحول کا تذکرہ کررہے ہیں اس سے ہماری مراد شہزادہ محمد بن سلمان کا پیدا کردہ ماحول ہے۔ انہوں نے اس کا اعلان اکتوبر کے مہینے میں ”سرمایہ کاری کے مستقبل فورم“کے تحت کیاتھا۔ ریاض اس فورم کا میزبان تھا۔ محمد بن سلمان نے اس موقع پر دوٹو ک الفاظ میں کہا تھا کہ وہ اپنے ملک کو اعتدال اور دنیا بھر کیلئے کھڑکیاں کھولنے اور تباہ کن افکار کے خاتمے کی طرف لے جائیں گے۔شہزادہ محمد بن سلمان کا نیا دور مملکت کو اس کے سابق تشخص کی طرف لے جانیوالا دور ہے۔مملکت کی پہچان میانہ روی، اعتدال پسندی اور پوری دنیا کے ساتھ میل جول اور گفت و شنید کیلئے کھڑکیاں کھلی رکھنے کی رہی ہے۔ سعودی عرب تمام مذاہب کے پیروکاروں اور دنیا بھر کی اقوام اور روایات کے ساتھ ملنے جلنے کی روش اپنائے ہوئے تھا۔محمد بن سلمان مملکت کی اس پہچان کو بحال کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں۔شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے حالیہ غیر ملکی دورے کے موقع پر اپنے کردار سے اپنی گفتار کو عملی جامہ پہناکر اعتبار کا رشتہ استوار کیا۔ انہوں نے اغیار کے ساتھ مختلف بامقصد ملاقاتیں کرکے تعمیری فکر کی تجلیاں دکھائیں۔انہوں نے بندش کے دور میں حقیقی مصلح کے طور پر اپنی تصویر بہتر بنائی۔ انہوں نے قاہرہ میں قبطیوں کے پوپ تواضروس دوم سے ملاقات کی ۔ انہوں نے لندن میں کینٹ بری گرجا گھر کے بڑے پادری اسقف جاسٹن ویلبی کو ملاقات کا موقع دیا۔محمد بن سلمان نے ان دونوں موقعوں پر فکر و ہم تک گفت و شنید کا دائرہ محدود نہیں رکھا ۔انہوں نے حال و مستقبل کے حوالے سے انسانیت نواز تصورات کو عملی جامہ پہنانے پر بھی توجہ مرکوز کی۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ دنیا بھر کے لوگ اہل ایمان سے ایسے ایمان افروز انسانیت نواز تصرفات کے آرزومند ہیں جن سے ایک دوسرے کے احترام ، ایک دوسرے کے ساتھ رواداری، ایک دوسرے کے ساتھ برابری اور ایک دوسرے کی قدرومنزلت کو فروغ ملتا ہو۔ 
ویٹیکن کے رہنما کیڈینال توران فرانسیسی نژاد ہیں ، مملکت کے مہمان بنے ۔یہ روشن افکار کے علمبردا ر مانے جاتے ہیں۔ یہ روایتی جامد دائروں میں بند رہنے کے قائل نہیں۔ یہ وہ شخصیت ہیں جو2 سے زیادہ عشروں سے اسلامی دنیا سے قریب ہونے کی تحریک کی قیادت کررہے ہیں۔ یہ میل ملاپ کیلئے مسلسل اور زبردست جدو جہد کرنے والی شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ دنیا کے حوالے سے عیسائیوں اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے زیادہ سے زیادہ قریب آنا چاہئے، دونوں ایک دوسرے کو زیادہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سمجھیں۔ اس سے اللہ تعالیٰ سے قربت کی بابت بنی نوع انساں کا سفر مضبوط ہوسکے گا۔ 
ایسے عالم میں جبکہ یورپی ممالک اسلام فوبیا میں مبتلا ہے اور وہ اسلام کے ساتھ ایسی باتیں منسوب کررہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں،ایسے عالم میں کیڈینال توران اس امر کا پرچار کررہے ہیں کہ ہمیں سیاسی اسلام اور اسلام کے بحیثیت دین کے درمیان فرق کرنا ہوگا۔ سعودی عرب رواداری اور دنیا بھر کے ساتھ مصالحت کے کارواں کی دہلیز پر کھڑا ہوچکا ہے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: