Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا کیئر ٹیکر حکومت کا فیصلہ ہوگیا؟

درجنوں ایم این اے ، ایم پی اےدوسری جماعتوں میں کودکود کر جارہےہیں، اللہ ہی جانے  ان میں لوٹا کون ہے؟
* * * * *
خلیل احمد نینی تال والا
    سپریم کورٹ کے جج صاحبان گزشتہ کئی سالوں سے صرف عوام کے عام مسائل جو انتظامیہ بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو حل کرنے تھے، حل کرنے کی کوششیں کررہے ہیں ۔ دنیا بھر میں ایسا کسی اور ملک میں نہیں ہوتا ۔اگر ہم تفصیلات میں جائیں تو یہ دیکھ کر حیران و پریشان ہوجائیں گے کہ کیا یہ کام عدلیہ کے تھے جواب ملے گا ہرگز نہیں ۔اگر عدلیہ انہی مسائل میں گھری رہی تو عوام کو انصاف کس سے ملے گا ۔کیا ملک میں صاف پانی دلانا عدلیہ کا کام تھا ۔کیا کراچی کی ہائی رائز بلڈنگیں رکوانا عدلیہ کی ذمہ داری تھی ۔ بڑے بڑے دیگر شہروں بشمول لاہور ،ملتان،پشاور،اسلام آباد ،فیصل آباد کے شہریوں کو بھی صاف پانی میسر نہیں ہے۔خود چیف جسٹس ثاقب نثار ان شہروں میں جاکر ان شہروں کے انتظامیہ اور وزیراعلیٰ کو بار بار متنبہ کرچکے ہیں۔صرف ایک دن قبل ہی انہوں نے وزیراعلی ٰ خیبر پختونخواپرویز خٹک کی سرزنش کی وہ روز اول سے پی ٹی آئی کے آنے کے بعد تعینات رہے ہیں ۔ایک اسکول یا اسپتال نہیں بنواسکے ۔لمبی ترین مدت کے ریکارڈہولڈر وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ ،سابق میئر کراچی مصطفی کمال کے دور کی سڑکیں ،بجلی ،گٹراور پانی کی نکاسی نظام ان کے جانے کے بعد سنبھال سکے؟ جواب میں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔اگر ملے گا تو اربوں روپے کے پانی بیچنے کے ثبوت ملنے کے باوجود شرجیل میمن جیل میں یا اسپتال میں آرام کرتے ملیں گے ۔
    کرپشن کاریکارڈ تمام صوبوں میں ہر ہر سطح پر اپنے عروج پر جاچکا ہے۔عدلیہ پوچھتی ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں دوائیاں کیوں ناپید ہیں ۔ڈاکٹر صاحبان کیوں نظر نہیں آتے؟اسپتالوں کی تمام مشینیں کیوں خراب پڑی ہیں ۔اسپتالوں کے بستروں پر 3،3 مریض کیسے راتیں گزارتے ہیں ؟عدلیہ دوائیوں کی قیمتیں کیوں خود کنڑول کرنا چاہتی ہے ۔ایک ہاتھ سے وہ سیاستدانوں کی کرپشن کو نیب کے حوالے کرتی ہے تو دوسرے ہاتھ سے بیوروکریٹس کے گھر سے سونا ،بانڈ،نقدیاں برآمد ہوتی ہیں ۔جو ملک تعلیم کے میدان میں سب سے آگے ہوتا تھا ۔آج اُس ملک میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی اجازت پر کروڑوں روپے رشوت کے بغیر اجازت نامے نہیں ملتے ۔صوبوں کی گورنروں سے پوچھا جائے کہ گزشتہ 50سالوں میں کتنی یونیورسٹیاں کھلیں۔کتنے میڈیکل کالجوں کا اجراء ہوا۔معذرت کے ساتھ ہمارے صدر ممنون حسین نے کتنی یونیورسٹیوں میں جاکرکانووکیشن اٹینڈ کئے ؟ان کے پاس تو وقت تھا۔
    کیا عدلیہ بچھڑے ہوئے والدین کے بچوں اور جھلسی ہوئی مظلوم ملازمین لڑکیوں کا سوموٹو ایکشن لیتی رہے گی ۔کیا چیف جسٹس صاحب اسپتالوں کا دورہ کرکے مریضوں کے عیادت اور اُن کے مسائل دیکھنے میں اپنا قیمتی وقت گزاریں گے ۔کیا عدلیہ الیکشن اور کیئر ٹیکر حکومت کا معاملہ سنبھالنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی ۔سیاستدانوں اور فوج کی کشیدگی کو ختم کرانے کے لئے مارشل لاء روکنے کا یقین دلائے گی ۔کیا عدلیہ میڈیا کی بندش رکوانے کے لئے اور ملازمین کو تنخواہیں دلوانے کا آرڈر پاس کرے گی ، تو پھر اتنی بڑی بیوروکریٹس کی بھر مار کس لئے ہے؟ ہر صوبے میں قطار درقطار صوبائی وزراء کس لئے بھرتی کررکھے ہیں؟اُس پر مرکزی وزراء کیا کرتے پھر رہے ہیں ۔اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ کھلتے ہی کیوں بند کردیا گیا ۔
    جہاں شہر کے عوام تو صاف پانی کو ترس رہے ہوں وہاں ایئر پورٹ کے نلکوں سے پانی کی دھاریں پھوٹ پڑیں ۔اگر عدلیہ اس میں گھری رہی تو ان لاکھوں مقدموں میں جو برسوں سے عدالتوں میں سڑ رہے ہیں اور معصوم مظلوم عوام ان عدالتوں کے دھکے کھار ہے ہیں اُن کی داد رسی کون کرے گا؟جہاں ججوں پر وکلاء اپنا غصہ اتار رہے ہوں ۔عدالتوں میں بھی امن کے بجائے کشت و خون ہورہے ہوں تو کس کی بدنامی ہوگی ۔کیا عدلیہ امریکن ڈپلومیٹ کلر کو ای سی ایل میں ڈالنے کا آرڈر کرے گی ؟کیا عدلیہ کے ججز اپنے الزامات کی صفائیاں پیش کرتے ہیں ؟
    صدر مملکت کابیان کہ ادارے اپنے دائروں میں رہ کر کام کریں یہ کس کس کی طرف اشارے دلوائے گئے ہیں ۔اب تو ان کے ایک صوبے کا وزیراعلی ٰ دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلی ٰ پر کھلی تنقید کرکے اپنے کاموں کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہا ہے ۔جو تمام صوبوں کابجٹ اپنے صوبے پر لگاکر اترارہا ہے جس کے جواب میں ایک صوبے کا وزیراعلی ٰ جب بجلی کا بحران حل نہیں کرتا تو کہتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر میرے گھیرائو کرنے کے بجائے وزیراعظم ہائوس کا گھیراؤ کریں۔ میں قیادت کرونگا ۔حد ہوگئی ڈھٹائی کی۔ کوئی مل کر الزامات بھی سننے کیلئے تیا رنہیں ۔
    ابھی نئی کیئر ٹیکر حکومت کا وجود نہیں آیا۔درجنوں ایم این اے ،ایم پی اے ،سینٹرز حضرات بلوں سے نکل کر ایک دوسری سیاسی جماعتوں میں کودکود کرآجارہے ہیں ۔اور دونوں طرف لوٹوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ۔اللہ ہی جانے لوٹا ان میں کون ہے؟بے ضمیر کون ہے؟پارٹی کا سربراہ جو فخر سے گلے لگارہا ہے یا جو حسرت سے جاتا دیکھ رہا ہے۔ کل تک باضمیر آج دوسری پارٹی میں بے ضمیر کیسے ہوگیا۔جب خود عمران خان سابق صدر آصف علی زرداری کے امیدوار کو سینیٹ کا چیئرمین بنوائیں تو وہ ٹھیک ہے اور اگر انہی کے پارٹی کے ایم پی اے ازخود ڈیل کرکے ووٹ دیں تو وہ بے ضمیر کہلائیں گے ۔
    مجھے ڈر ہوچلاہے کہ کسی دن سابق صدر آصف علی زرداری کے پارٹی میں عمران خان کی پارٹی ضم ہوکر مسلم لیگ (ن) کے خلاف اکٹھے الیکشن نہ لڑیں ۔یہ کام باآسانی سے ہمارے مولانا فضل الرحمان انجام دے سکتے ہیں۔اورنعرہ یہ لگے گا کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی بھائی بھائی مسلم لیگ (ن) کتھوں آئی ۔
مزید پڑھیں: -- -  -عدالتی فیصلے سے سیاست میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئیگی

شیئر: