Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیشن ماڈرن بناتا ہے یاماڈرن لوگ فیشن کرتے ہیں ،پتہ نہیں

حنا سہیل۔ریاض
قرآن کریم کی سورة اعراف میں ا رشاد ربانی ہے (ترجمے کا مفہوم):
”اے اولادِ آدم، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابل شرم حصوں کو ڈھانپے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔“
یہ تولباس کے حوالے سے خالق و مالک کائنات کا فرمان ہے۔ ہم انسانوں نے اس لباس کے ساتھ کیا کیا، ذرا غور فرمائیے:
ہمارے ہاں جو چیز معاشرے میں رواج پاجائے یا جس کو پذیرائی مل جائے وہ فیشن بن جاتی ہے۔ آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکی کہ فیشن کرنا لوگوں کو ماڈرن بناتا ہے یا ماڈرن لوگ فیشن کو رواج دیتے ہیں۔ عجیب بھیڑ چال کا سا حال ہے۔ ہمارے ہاں کچھ بھی نئی چیزپہن کر آپ کسی تقریب میں چلے جائیں تو پہلے لوگ حیران ہوں گے پھر یہی سوچیں گے کہ شاید ہمیں معلوم ہی نہیں ۔ممکن ہے یہی فیشن ہو۔
آج کل ٹی وی پر ایک اداکار کو پاجامے پر بلاﺅز اور بڑا سا دوپٹہ ساڑھی کی طرح اوڑھے دیکھ کر عقل نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ ہر چیز میں سے ایک ایک پیس نکال کر فیشن بنایا گیا ہے یعنی کرتا پاجامے کا پاجامہ اور شلوار قمیص کا دوپٹہ اور ساڑھی کا بلاﺅز الماری سے نکالااور پہن اوڑھ کر پروگرام میں آکر بیٹھ گئیں۔ 
فیشن اپنی روایات کے مطابق ہو تو اچھا لگتا ہے۔ مشرقی روایات کا مرقع فیشن بھی مشرقی ہو ۔اس میں مشرق کی حیا اور تمدن واضح ہونا چاہئے۔ مغربی تہذیب کا فیشن بھی کم از کم فحش نہیں ہوناچاہئے کیونکہ عورت کا آدھا حسن تو لباس سے ہے ۔ شہر شہر ملک ملک جتنے بھی فیشن شوز ہوتے ہیں،سب خواتین کیلئے ہی ہوتے ہیں۔ فیشن شو دنیا میں کہیں بھی ہوں ،مغرب میں کیا لمبے گاﺅن، اسکرٹ اور پینٹ شرٹ ، خوبصورت ٹوپیوں کے ساتھ فیشن کا حصہ بن سکتے ہیں۔
آج کل تو عجیب ہی چلن ہے۔ کوئی نیا فیشن اگر مارکیٹ میں لانا ہو تو اس کی پہلے پروموشن کی جاتی ہے۔ فیشن شو زمنعقد کئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے اشتہار ات بھی تیار کئے جاتے ہیں اورمیڈیا پر نشر کئے جاتے ہیں تاکہ اس فیشن کی تشہیر ہو سکے ۔
حال ہی میں پاکستان کی مشہور لان کی ایڈورٹائزمنٹ کے لئے مارکیٹنگ کے شعبے نے افریقہ کے ایک غریب ملک کا انتخاب کیا۔ اس لان کے اشتہار میں ماڈل تو مشہوربرانڈ کی لان کا خوبصورت اور دیدہ زیب لباس پہنے کھڑی ہے جبکہ اس کے پس منظر میںبے چارے غریب افریقی دکھائی دے رہے ہیں جن کے تن پر چیتھڑے ہیں۔ یہ اشتہار جب فیس بک پر ڈالا گیا تو وہاں تو گرما گرم بحث کا آغاز ہو گیا۔ بہر حال بڑی بحث و تکرار کے بعد کمپنی نے اپنا اشتہار ہٹا لیا مگر ایک غلط روایات کو پھیلا دیا کہ مہنگا لباس غریب لوگوں کی دسترس سے باہر تھا ان کو پس منظر میں کھڑا کر کے یہی پیغام دیا گیا۔
مشہور اداکار شاہ رخ خان کی خبر بھی اخبار کی زینت بنی جس میں انہوں نے ایک مشہور برانڈ کا ذکر کیا کہ ان کپڑوں کے اتنے پیسے کیوں دیں؟ جب اسٹورمیں جائیں تو پھٹے پرانے کپڑوں کیلئے اتنے پیسے دینے کو کس کادل چاہے گا۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار رشی کپور نے بھی کیا۔ واضح رہے کہ ان کا اشارہ پھٹی ہوئی جینز اور شرٹس کی طرف تھا جس کو پہن کر اچھا خاصا آدمی فقیر لگنے لگتا ہے۔
ایک بار ہم نے کسی اسٹور سے ایک قمیص خریدنے کے لئے اٹھائی۔ ڈیزائن اور کلر بہت موضوع تھے مگر جب نیچے دیکھا تو حیرانی کی انتہا نہ رہی کیونکہ آدھی قمیص چھوٹی اور آدھی لمبی تھی۔ اسی طرح ایک قمیص کی آستین غائب اور ایک آستین پوری تھی۔ یہ کیا فیشن تھا،سمجھ میں نہیں آیا ۔ایسا لگا سینے والے کے دماغ میں خلل تھا کہ آدھی قمیص سیتے سیتے بھول گیا کہ پوری سینی ہے یا آدھی۔ بس پھر یوں ہوا کہ یہ بھول ہی فیشن بن گئی ۔ اب توسیدھا سادہ بے چارہ برقع بھی فیشن کا حصہ بن گیا ہے۔ باقاعدہ عبائے کی تشہیر کی جاتی ہے اور نت نئے عبائے دنیا میں لائے جا رہے ہیں جوویسے تو ستر ڈھانپنے کے لئے بنائے گئے تھے مگر اب وہ وجود نسواں اجاگر کرنے کے لئے بھی استعمال کئے جا رہے ہیںاورمخدوش انداز میں لوگوں کو متوجہ کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ 
یہاں ہم ایک بات واصح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم ذاتی طور پر فیشن کے خلاف ہرگز نہیں۔ عورتوں کو بننے سنورنے کا حق ہے۔ اسلام نے یہ حق عورت کو عطا فرمایا ہے۔ سورة زخرف کی آیت نمبر 18میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:(ترجمے کا مفہوم):
” بیٹیاں تو زیورات میں پالی جاتی ہیں۔“
اسی طرح شوہر کے لئے عورت کے سنورنے کو لازمی قرار فرمایااور یہ بھی فرمایا کہ یہ شوہر کا حق ہے کہ بیوی خوبصورت نظر آئے۔
پیاری بہنو! فیشن کرتے وقت ہمیں اپنا آپ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ ہم کس میں اچھے لگ رہے ہیں۔ عمر کے حساب سے کپڑے پہنیں ، پرانے زمانے میں لوگ کہہ گئے ہیںکہ ” کھاﺅ من بھاتا ، پہنو جگ بھاتا“ لیکن اس جگ بھاتا کے چکر میں کہیں جگ ہنسائی نہ ہو جائے۔ یہ خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ 
 

شیئر: