Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2 ماہ کی عمر میں مملکت آ ئی پھر یہیں کی ہو رہی، ڈاکٹر مہتاب انور

 تسنیم امجد ۔ ریا ض
زندگی کسی انسان کے لئے ایک امتحان ہوتی ہے اور کسی کے لئے عیش و نشاط کا سامان ہوتی ہے ، کوئی اپنے وجود کا بھرم رکھتا ہے اور کوئی بلندیوں پہ قدم رکھتا ہے ، کوئی اس جہاں سے جانے کی تمنا کرتا ہے اور کوئی زندگی کو بار بار پانے کی تمنا کرتا ہے ۔کوئی ایک ایک نوالے کو ترستا ہے اور کسی کے ہاں دھن برستا ہے ۔زندگی بھر جو لوگ مشکلات جھیلتے ہیں انہیں بے کس و مجبور کہا جاتا ہے اور جو زندگی میں خوشیوں سے کھیلتے ہیں انہیں خوش بخت و مسحور کہا جاتا ہے ۔یہ وہ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں زندگی ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے ، جنہیں خوشی و مسرت اپنے ساتھ لیتی ہے،جنہیں نصیب عنایات کی رہبری ہوتی ہے ، جنہیں مقدر جہاں کی سروری ہوتی ہے ،جن دلوں کے مابین نہ ٹوٹنے والا بندھن ہوتا ہے، ان کا آنگن بہاروں کا مسکن ہوتا ہے،کامیابیاں ان کے قدم چومتی ہیں ، راحتیں ان کے گرد گھومتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ کا ئنات کی ہر شے کسی نہ کسی مقصد کے لئے مصروفِ عمل ہے ۔جب تک منزل یعنی مقصد متعین نہ ہو سفر نہیں ہو سکتا۔مقصد دلکش ہو تو انسان سفر کی صعو بتیں بھی ہنسی خو شی بر داشت کرتا چلا جا تا ہے ۔خو بصورت منزل خود مسا فر پیدا کرتی ہے اور سچے مسافرو ں کا استقبال خود منزلیں کیا کرتی ہیں ۔گویا چلنے والے ہی منزل پاتے ہیں ۔تن آ سا نو ں کے لئے زمین تنگ ہو جاتی ہے جبکہ آ گے بڑھنے والوںکا ہر قدم ریاضت بن جاتا ہے ۔ان کا عمل قبولیت کا شرف پاتا ہے ۔جو لوگ خود ابھرنے ،سنبھلنے اور نکھرنے کی صلا حیت سے محروم ہو تے ہیں،ان کی روح بھی تاز گی سے محروم رہ جاتی ہے ۔انسان کو اپنے محاسبے کی ضرورت قدم قدم پر ہے ۔اللہ تعا لیٰ نے انسان کو بہترین صلا حیتوں سے نوازا ہے ۔ضرورت ان کو پہچا ننے کی ہے ۔شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ما نگے کی رو شنی سے نہ پا ﺅ گے راستہ
 اس تیرگی میں لے کر خود اپنے دئیے چلو
ہوا کے دوش پر اردونیوز کی آج کی مہمان ڈاکٹر مہتاب انور کھو کھرایسی ہی شخصیت ہیں جنہیں بلا شبہ خوش نصیب کہا جاتا ہے ۔ ہماری دعا ہے کہ ڈاکٹر مہتاب کی زندگی مزید شادمانیوں سے معمور ہو۔
ڈاکٹر مہتاب انور سے مل کر ا حساس ہوا کہ نسلِ نو آج بھی وہی لگن اور خوب سے خوب تر کا جذ بہ رکھتی ہے جو ما ضی کی ان ہستیوں میں تھا جن کو بقائے دوام کا ا عزاز حا صل ہوااور آج بھی وہ شہرت و عظمت کے آ سمان پر ستاروں کی ما نند چمک رہی ہیں۔ار سطو، بقراط،افلا طون ،بو علی سینا ،امام غزالی ،امام ابو حنیفہ،مو لا نا روم ،شیخ سعدی ،علامہ اقبال اور قا ئدِ اعظم جیسی ہستیوں کی زندگیا ں ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ ہماری تاریخ بھی نا مور خواتین سے بھری ہے جنہوں نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا اوران کی کا میابی کا سبب بنیں۔
ڈاکٹر مہتاب کا کہنا ہے کہ وہ2 ماہ کی عمر میں مملکت آ ئی تھیںپھر یہیں کی ہو رہیں۔تمام اسکو لنگ مملکت میں ہی مکمل کی ۔میرے بابامحمد انور کھو کھر ٹیلی کمیونی کیشن کے شعبے سے وا بستہ ہیںاور اپنی محنت و لگن سے ملک کا نام رو شن کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ جب کبھی میری تعریف ہوئی، مجھے ایسا لگا یہ پا کستان کی تعریف ہے ۔
اسے بھی پڑھئے:زبان انسان کو تخت پر بٹھاتی ہے، جوتے بھی پڑواتی ہے 
ماما شہناز بیگم ہاﺅس وائف ہیں ۔ہوم مینجمنٹ میں ان کا جواب نہیں ۔بہن بھا ئیو ں میں میرا نمبر تیسرا ہے ۔میری تر بیت تو بڑوں کو دیکھ کر ہی ہو گئی۔بڑی بہن سمیرا انور کو ماما جوکچھ سکھاتی تھیں، وہ مجھے بھی از بر ہو جا تا تھا ۔سب سے چھو ٹی سدرہ انور بھی یہی کہتی ہیں۔بھا ئی اکلوتا ہونے کے نا تے خوب ناز نخرے اٹھواتا تھا ۔ماں باپ کے ساتھ ساتھ وہ ہمارا بھی لا ڈلا تھا ۔
ہمارا تعلق سیالکوٹ سے ہے ۔دادا کشمیر کے ضلع ” اخنور“میں رہتے تھے ۔یہ ہندوستان کے بہت قریب ہے ۔1947ءمیں پاکستان آ ئے ۔انہوں نے ہمیں قیامِ وطن کی بے شمار کہا نیا ں سنا ئیں۔ انہیں سن کر ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ۔ہمیں ا حساس ہوا کہ آزادی کتنی قیمتی ہے اور اس کے لئے کتنی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے ۔ ہمارے وطن کی بنیا دو ں میں لاکھو ں شہیدوں کا لہوشامل ہے۔ ہمارے خاندان میں بھی کئی شہا دتیں ہوئیں ۔کاش ہم اس حقیقت کا ادراک کر سکیں کہ ہندوستان کے مسلمانو ں نے پا کستان کے لئے اپنا تن من دھن قربان کر دیا ۔انہوں نے آ زادی کے چراغ اپنے خونِ جگر سے جلائے ۔اس وطن کے لئے جس کی اہمیت آج ہمارے سامنے ویسی نہیں جیسی ہونی چاہئے ،ہم انہی ممالک کی روایات و ثقافت کو اپناتے ہیںجنہوں نے ہماری زندگیا ں اجیرن کر رکھی تھیں۔ما ﺅں نے اپنے بیٹے قربان کئے ۔بہنوں نے بھا ئیو ں کا لہو پیش کیا ، سہاگنوں نے اپنے سہاگ قربان کر دیئے ۔آ زادی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کی قدر غلاموں سے پو چھ کر دیکھئے۔دادا کوشا عر ا ختر شیرانی کے آ زادی کے حوالے سے یہ اشعار بہت پسند تھے ۔وہ اکثر گنگناتے تھے :
عشق و آزادی بہارِ زیست کا سا مان ہے
عشق میری جان ،آ زادی مرا ایمان ہے 
عشق پہ کر دو ں فدا میں اپنی ساری زندگی
اور آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
میرے والد کی پیدائش سیالکوٹ میں ہو ئی ۔یو ں ہمارا خاندان وہیں کا ہوا۔یہ وطن کا ایک اہم صنعتی شہر ہے اور اس کا معیشت میں خا صا حصہ ہے ۔میں نے اپنے آ باءو اجداد سے بہت کچھ سیکھا ۔والدین کی عادت تھی کہ ہم بچو ں کو اکثر چھٹی کے دن اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں ضرور بتاتے تھے ۔ویسے ددھیال کے بیشتر رشتے مملکت آ گئے ۔اس طرح ہمارے اندر بھی وہ عادات پروان چڑھتی چلی گئیں ۔مملکت آ نے کے بعد بھی ان کا رابطہ رہا ۔گھر کا ما حول مذ ہبی تھا اور اسلامی تعلیمات عالی سے آ گا ہی والدین خود ہی دیتے تھے۔ اسکول کی زندگی میں بہت کچھ سیکھا۔ہر میدان میں آ گے آ گے رہنے کا شوق تھا ۔ہر پروگرام میں حصہ لیا۔آل را ﺅ نڈر کا سر ٹیفکیٹ و صول کیا۔ انعامات کی بھی خا صی طویل فہرست ہے ۔والدین کی حو صلہ افزائی نے آ گے بڑھنے میں مدد کی ۔ماما نے گھر داری بھی سکھائی ۔چھو ٹے چھوٹے پراجیکٹ ،جیسے کچن کیبنٹ کی صفائی، سویٹ ڈشوں میں انفرا دیت ،گھر کی صفائی ،باغبانی وغیرہ،سو نپ دیئے جاتے ۔اکثر بہنوں میں مقابلہ ہو تا ۔مار کنگ ہو تی اور شاباش کے ساتھ ساتھ انعام بھی ملتے ۔اس مسا بقتی ما حول میں ہم گھر داری میں بھی منجھ گئیں۔
اسی طرح مملکت کی ایجو کیشن مکمل ہو ئی اور ہمیں مزید تعلیم کے لئے وطن بھیج دیا گیا ۔شروع سے ہی میری خواہش تھی کہ میں ڈینٹسٹ بنوں ۔اس لئے بچپن کے کچھ تجربات ایسے ہوئے کہ میں نے مستقبل میں اس شعبے میں کام کرکے اس میں جدید ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا سو چ لیا ۔اسلامک انٹر نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل یو نیو ر سٹی میں دا خلہ ہوا تو خود کو منوانے کے دروازے کھلتے چلے گئے ۔میں نے ہر مثبت سرگرمی میں حصہ لیا جبکہ پڑھائی میں بھی نام پیدا کیا ۔بہت ہی خو شگوار تجربہ رہا۔ہاں ہا سٹل میں رہنا کھلتا تھا ۔بہت اداسی میں وقت گزرا ۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ میری روم میٹس اچھی تھیں،با لکل بہنو ں کی طر ح۔زینب ظہیر اور را بعہ خان نے میری قدم قدم پر رہنمائی کی۔ان کا احسان میں زندگی بھر نہیںبھو لو ں گی ۔ایسا لگا” سمیرا اور سدرا “میرے ساتھ ہیں ۔ویسے یو نیور سٹی کا ہا سٹل بہت اچھا ہے۔ والدین بھی مطمئن تھے ۔شکر ہے میرا یہ خواب بھی پورا ہوگیا۔
وطن نے مجھے بہت اعتماد دیا۔اگر ایسا نہ ہو تو بچو ں کی شخصیت پنپنے میں پیچھے رہ جاتی ہے ۔خیر تعلیم مکمل ہو ئی اور گریجویشن کا دن آ گیا جس کاشدت سے انتظار ہوتا ہے ۔والدین کی محبتو ں کے سائے تلے ڈگری وصول کی اور واپس مملکت چلے آ ئے ۔مجھے اپنے مقصد کی تکمیل پر بہت اطمینان تھا لیکن والدین کو اپنے نئے پراجیکٹ کی فکر تھی جو ہر والدین کو ہو تی ہے ۔میری رخصتی کا پرا جیکٹ ۔
میں ا کثرسو چتی ہو ںکہ یہ بھی کیا دستورِ دنیاہے کہ ہم لڑ کیا ں ہمیشہ ہی پرائی رہتی ہیں ۔جب بیٹی پیدا ہو تی ہے تو والدین واری جاتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی ٓا نکھو ں میں ایک نمی بھی دیکھی جا سکتی ہے جو اس کی جدائی کی اور کبھی مقدر کی ہو تی ہے ۔والدین کا کہنا ہے کہ بیٹیاں نہ تو بو جھ ہو تی ہیں اور نہ ہی وہ زیادہ خر چہ کراتی ہیں ۔یہ تو بیٹو ں سے زیادہ والدین کا خیال رکھتی ہیں۔ان کے آ نے سے آنگن میں پھول کھل جا تے ہیں ۔بے اختیار یہ کہنے کو دل چا ہتا ہے:
میرے گھر آ ئی ایک ننھی پری
چا ند نی کی حَسین رتھ پہ سوار 
دیکھ کر اس کو جی نہیں بھرتا 
اس کی با تو ں میں شہد جیسی مٹھاس
بہر حال!میری ر خصتی کا انتظام ہو گیا اور میںاپنے پھو پھی زاد ” حسن حیدر“ سے منسوب کر دی گئی ۔خو ش قسمتی سے ہمارا نکا ح 21رمضان ا لمبارک کو مسجد ا لحرام میں ہوا ۔پڑ ھانے والے بھی امام ِ کعبہ تھے ۔والدین اور پھو پھی ،پھوپھاکی ڈ ھیروں دعا ئیں بھی ساتھ ملیں۔بابا مجھے پھو پھو کے سپرد کر کے بہت خوش تھے ۔وہ بہت ہی شفیق خاتون تھیں۔میو نسپل کمیٹی اسکول کی پر نسپل تھیںاس لئے انہیں رکھ رکھاﺅ بہت آ تا تھا۔ رخصتی ایک سال بعد ہو ئی ۔میں نے اس درمیانی وقفے میں ڈ ھیروں محبتیں و صول کیں ۔آ خر 2اکتوبر 2015ءکو مجھے حسن حیدر لے ہی آ ئے ۔میری زندگی میں ما شا ءاللہ بہا رو ں کا ا ضا فہ ہو گیا ۔شو ہر نہایت معاون ثابت ہو ئے ۔انہو ں نے مجھے احساس ہی نہ ہو نے دیا کہ میں سسرال میں آ چکی ہوں ۔ساس، سسر سے لاڈ و پیار تو والدین سے بھی زیادہ پائے ۔آج وہ دو نو ں ہی ہماری زندگی میں نہیں۔وہ ہمیں محبتیں دے کر سفرِ آ خرت پر روانہ ہوگئے لیکن ان کا و جود یو ں محسوس ہو تا ہے کہ ہمارے پاس ہی ہے ۔میں اکثر اپنے ناشتے کے ساتھ ان کا ناشتہ بھی تیار کر لیتی ہو ں ۔پھر خیال آ تا ہے کہ وہ تودنیا میں ہی نہیںرہے ۔یہ حقیقت مجھے اشکبار کر دیتی ہے ۔
ہم دو نوں شروع میں الخبر رہے کیو نکہ حسن ٹیلی موبائل فون کمپنی میں ملا ز مت کرتے تھے ۔اب انہوں نے ریا ض میںاسی فیلڈ میں ذاتی کام شروع کیا ہے ۔میرے شوہر اپنے گھر میں سب سے چھو ٹے ہیں اس لئے انہیں بھی بہت محبت ملی جس کی حصہ دار میں بھی بنی۔ میرے جیٹھ ذوا لفقار حیدر ،اپنی فیملی کے ہمراہ مکہ مکر مہ میں ہیں، اس لئے ہم جب بھی وہاں جاتے ہیں ،بہت مزہ آ تا ہے ۔
ڈاکٹر مہتاب نے یہاں کچھ رکتے ہو ئے کہا کہ آج جبکہ مجھے میڈیا میں آ نے کا اعزازملا ہے، میںایک پیغام والدین کے نام دینا چا ہو ں گی ۔خا ص کر والد کے نام کیونکہ بیٹی کی زندگی میں باپ کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔وہ باپ کو اپنا آ ئیڈیل بنا لیتی ہیں۔ان کا رویہ ان کی ما ں کے سا تھ کیسا رہا ،وہ ان کے ذہن پرنقش ہو جاتا ہے ۔جو باپ بیٹیو ں کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریا ں پو ری کرتے ہیںاوران کی ماں کو عزت و محبت دیتے ہیں،وہ بیٹیو ں کو بہت بھا تے ہیں ۔باپ کو اپنی بیٹی سے بہت قریبی محبت سے بھر پور رشتہ استوار رکھنا چاہئے۔ کا میاب عو رتو ں کے پیچھے ان کے باپ کا کردار ہو تا ہے ۔جن گھرانو ں میں بیٹوں کو بیٹیوں پر فو قیت دی جاتی ہے وہاں ان کے دل پر کیا گزرتی ہے اس کا احساس ا گر انہیں ہو جا ئے تو وہ کبھی ایسا رویہ اختیار نہ کریں جس سے ان کو تکلیف ہو ۔یہ بیٹیاں بظا ہر چپ نظر آ تی ہیں لیکن گھر کے کونے کھدروں میں اور بستر میں منہ چھپا کر خوب رو تی ہیں ۔ان کے لئے شاعروں نے خوب اشعار کہے لیکن مجھے یہ نظم بہت پسند ہے اس لئے آ پ کی نذر کرتی ہو ں:
بیٹیا ں پھولوں کی طرح ہو تی ہیں
نا مہرباں دھوپ میں سایہ ہو تی ہیں
نرم ہتھیلیو ں کی طرح ہو تی ہیں 
بیٹیا ں تتلیوں کی طر ح ہو تی ہیں 
چڑ یو ں کی طر ح ہو تی ہیں 
تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی ہیں
ردا ﺅ ں جیسی ہو تی ہیں
بیٹیا ں ان کہی صدا ﺅ ں جیسی ہو تی ہیں
بیٹیاں تو تعبیر ما نگتی دعا ﺅ ں جیسی ہو تی ہیں
ہمارے سوال کے جواب میں ڈاکٹر مہتاب نے کہا کہ اتفاقاً ہم دونوں کی دلچسپیاں ایک سی ہیں ۔ہسٹری یعنی تاریخ ہم دو نو ں کا پسندیدہ مضمون ہے اس لئے دو نو ں ہی ڈا کیو منٹری ہسٹری مو ویز شوق سے دیکھتے ہیں ۔شوہر،لاکھ لاکھ شکر ہے بہت ہی شفیق ہیں۔میری مصروفیات کا خیال رکھتے ہوئے بے جا حکم نہیں چلاتے بلکہ ہم مل کر کام کر لیتے ہیں ۔ہمیں گھومنے پھرنے کا بہت شوق ہے ۔مملکت تو گھوم چکے اب ان شا ءاللہ ہمارا پروگرام بائی روڈ پوری دنیا گھومنے کا ہے ۔پھر میں ان شا ءاللہ اپنا سفر نا مہ لکھو ں گی ۔ناول پڑھنے کا بھی مجھے شوق
ہے ۔” عمیرہ ا حمد “کا ناول مجھے بہت پسند ہے ۔شاعری بھی ہم دو نو ں کو پسند ہے ۔مشا عروں میں جانا ضروری سمجھتے ہیں ۔اپنی پسندپیش کرتی ہو ں،نا صر کا ظمی کے چند اشعار ہیں:
کسی کلی نے بھی دیکھا نہ آ نکھ بھر کے مجھے
گزر گئی جرس گل اداس کر کے مجھے 
میں سو رہا تھا کسی یاس کے شبستاں میں
جگا کے چھوڑ گئے قا فلے سحر کے مجھے 
میں رو رہا تھا مقدر کی سخت راہو ں میں
ا ڑا کے لے گئے جا دو تری نظر کے مجھے
میں تیرے درد کی طغیا نیو ں میں ڈوب گیا
پکارتے رہے تارے ابھر ابھر کے مجھے
ترے فراق کی راتیں کبھی نہ بھو لیں گی
مزے ملے انہیںرا تو ں میںعمر بھر کے مجھے
حسن حیدر ہنستے ہو ئے کہنے لگے کہ بیگم کی طویل گفتگو نے مجھے بو لنے کا مو قع ہی نہیں دیا ۔میںآ خر میں یہ کہو ں گا کہ اپنی اہلیہ کی محنت و لگن کے سامنے میں خود کو کچھ بھی نہیں سمجھتا ۔انہیں اپنے پیشے سے بہت لگاﺅ ہے ۔ہم دو نو ں کا پرلطف سفر جاری ہے ۔زندگی خوش اسلوبی سے گزارنا ایک فن ہے۔اس فن کی پہچان ہو نی چا ہئے ۔میری کوشش یہی رہتی ہے کہ اپنے والدین کے سکھا ئے ہوئے سبق پر عمل جاری رکھوں۔کچھ اشعار بیگم کی نذر ہیں :
مجھے منز لو ں سے عزیز ہیں ،تری رہگزر کی مسا فتیں
کہ لکھی ہیںمیرے نصیب میںابھی عمر بھر کی مسا فتیں 
اسی ایک پل کی تلاش میں جسے لوگ کہتے ہیں زندگی
تری راہ گزر میں بکھر گئیں مری عمر بھر کی مسا فتیں
ڈاکٹر مہتاب نے کہا کہ میں سمجھتی ہو ں انسان کو اتنازندہ رہنے کا شوق نہیں ہو تا جتنا خود کو منوانے کا ۔خود شناسی ایک فن ہے ۔
 

شیئر: