Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آج کی مشرقی خواتین جنہیںدیکھ کر مغرب بھی شرما رہا ہے

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
دوپٹہ ہماری تہذیب و ثقافت کی پہچان ہے اس کو مشرقی وقار ،پاکیزگی اور تقدس کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یہ ہماری مذہبی اور سماجی اقدار کا آئینہ دار بھی تصور کیا جاتا ہے۔ دوپٹے کوخواتین کی شرم و حیا اور مشرقی تہذیب کی علامت بھی قرار دیا جاتا ہے جس کے اوڑھنے سے خواتین کے چہرے پر معصومیت ہی نہیں آتی بلکہ ان کی شخصیت مزید نکھرتی ہے۔ دوپٹہ ، چادر ، آنچل یا حجاب عورت کی عصمت کی پہچان ہوتی ہے۔ جہاں عورت محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے ،وہیں اس کی حیا اور عصمت اس کے خاندان کا زیور بھی ہوتی ہے۔ جب وہ چادر و حجاب میں سمٹ کر گھر سے باہر نکلتی ہے تو اغیار کی بری نگاہوں سے محفوظ رہتی ہے۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے خوبصورت اور کشش کا سرچشمہ بنایا اگر وہ خود اس کی حفاظت نہیں کرے گی اور بے پردہ ہو کر ایسے لباس پہن کر گھر سے باہر قدم نکالے گی جس سے اس کی نمائش ہوتی ہو تو وہ عورت عظمت کی بلندی سے پستی میں گر جائے گی او رکسی بھی نامساعد حالات کی وہ خود بھی اتنی ہی ذمہ دار ہو گی جتنا کہ معاشرہ۔
حجاب کوئی سماجی یا روایتی رویہ نہیں بلکہ اخلاقی خاندانی نظام کی ناموس ہے جس کے ذریعے خواتین اپنی حفاظت خود کر سکتی ہیں۔ اسی دوپٹے سمیت خواتین ترقی کی راہوں پر گامزن ہو سکتی ہیں لیکن افسوس جب ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے کہ معلوم نہیں ہماری خواتین کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔ جو ں جوں ہم ترقی کی طرف گامزن ہو رہے ہیں، ہمارے رہن سہن ہمارے پہناوے سب کچھ تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ہماری تہذیب و روایات معدوم ہی نہ ہو جائیں ۔جو قومیں اپنی تہذیب، اپنی روایات سے دور ہو جاتی ہیںان کا وجود ہی دنیا سے رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے مگر یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی ۔ 
ہمیں اپنے معاشرے میں ہرجگہ خواہ وہ میڈیا ہو یا عام زندگی ،سب مغرب کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چیزیں جنہیں ہم ماضی میں کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ،وہ ہماری تہذیب کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ ہمارا میڈیا ہماری نسل کو بے باک بنانے میںاہم کردار ادا کر رہا ہے مگر ہم ان چیزوں کو نہ دیکھتے ہیں اور نہ پرکھتے ہیں۔ 
مشرقی خواتین جو کبھی شرم و حیا کا پیکر کہلایا کرتی تھیں آج انہوں نے اپنا وہ حشر کیا ہوا ہے کہ انہیںدیکھ کر مغرب بھی شرما رہا ہے۔ ایک دوسروں کے مقابلہ بازی کے کھیل میں ہمیں یہ بھی احساس نہیں رہا کہ ہم نے کیا کیاکھویا اور کیا پایا۔ ہم کتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمیں یہ احساس بھی نہیں کہ ہم اور ہماری نسل اپنی تہذیب و روایات سے کتنی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ 
ہمارا آنچل جو کبھی ہمارے مشرقی حسن کو چار چاند لگاتا تھا آج ہمیں بھاری لگنے لگا ہے۔ دوپٹہ یا چادر جو ہمیں زمانے بھر کی بری نگاہوں سے محفوظ رکھتا ہے آج ہمیں گلے کا پٹہ محسوس ہوتا ہے اس لئے آج خواتین سے دوپٹے سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے۔ ہمارے دوپٹے پہلے سرو ں سے سرک کر گلے میں آئے اور اب گلے سے بھی غائب ہونے لگے ہیں۔ ہم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری تہذیب کیا ہے۔ مشرقی لباس جسے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے، جو کبھی ہماری پہچان تھا، وہ اب ہمیں دقیانوسی لگنے لگا ہے۔ دوپٹے سے مزین مشرقی لباس سے بڑھ کر خوبصورت پہناوا او ربھلا کیا ہو سکتا ہے لیکن ہم اندھی تقلید میں کچھ کا کچھ کر چکے ہیں ۔یہ ضروری نہیں کہ ہر لباس ہم پر جچ رہا ہو، کوئی ضروری نہیں کہ میڈیا پر دکھائے جانے والے ہر فیشن کو اپنایا جائے۔ جوں جوں وقت کا پہیہ گھوم رہا ہے ،جدیدیت اور فیشن کے نام پر ہماری اخلاقی اور معاشرتی اقدار کو شدید خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری تہذیب نہ صرف دھندلا رہی ہے بلکہ نت نئی مغربی اقدار و رسومات غیر محسوس انداز سے ہمارے کلچر میں دبے پا¶ں داخل ہو رہی ہیں ۔ ہم مغربی طرز زندگی او ران کی روایات کو اپنا کر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں او رپھر اسے فیشن اور جدیدیت کی علامت تصور کرتے ہیں۔ اس لئے ہماری نوجوان نسل کوبھی نفسیاتی طور پر یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ قمیص کی آستینیں ضروری ہیں ا ورنہ دوپٹہ ۔ اس کے بغیر بھی لباس ”مکمل “ شمار کیا جا سکتا ہے۔مختصر یہ کہ بے حیائی کی طرف راغب کیا جا رہا ہے۔ 
آج ہم بازار یا شاپنگ سنٹر جائیں تو زیادہ تر اسی قسم کے سوٹ دکھائی دیتے ہیں جن کے ساتھ دوپٹے نہیں ہوتے ۔اگر دوپٹہ لینا ہو تو الگ سے خریدنا پڑتا ہے ، اگر آستینیں درکار ہوں تو قمیص میں انہیں الگ سے لگوایا جاتا ہے ۔ یہ کس طرح کا فیشن ہے۔ یہ کہاں کی ثقافت کو فروغ دیا جا رہا ہے؟ اس کے علاوہ آج کے دور میں جو کچھ میڈیا پر ہمیں تفریح کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، یہ وہ کچھ ہے جسے دیکھ کر کبھی ہمارے آباءکانوں کو ہاتھ لگایا کرتے تھے ۔ ہم یہ سب خرافات بڑے ہی فخریہ انداز میں دیکھتے ہیں ۔ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے بچے بھی ان چیزوں کو دیکھ رہے ہیں۔ان کے ذہنوں پر کیا اثر ہو رہا ہوگا۔ ہم چاہے کتنے ہی ماڈرن کیوں نہ ہو جائیں دوپٹے کے بغیر آج بھی خواتین کا لباس نامکمل ہی تصور کیا جاتا ہے او رپھر خواتین اپنے آپ کو اس کے بغیر غیر محفوظ بھی محسوس کرتی ہیںلیکن یہ سوچنے والی بات ہے کہ دوپٹے کو لباس سے کیوں خارج کیا جا رہا ہے یہ یقینا بے حسی اور دین سے دوری کا سبب ہے۔ 
نوجوان نسل تو سرے سے دوپٹہ اوڑھنا پسند ہی نہیں کرتی لیکن ان کی دیکھا دیکھی عمر رسیدہ خواتین نے بھی دوپٹہ اوڑھنا چھوڑ دیا ہے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ جن خواتین کے سروںسے کبھی ہم نے دوپٹہ ہٹتے نہیں دیکھا تھاآج ہمیں وہ بغیر دوپٹے کے دکھائی دیتی ہیں۔ ماضی میں کوئی عورت اپنے گھر کے بزرگ کے سامنے سر پر آنچل لئے بغیر نہیں جایا کرتی تھی۔آج ہماری خواتین کو کوئی لحاظ رہا اورنہ ہی شرم ۔ اےسے میں ہم اپنی آنے والی نسل کو کیا سبق دے رہے ہیں۔ہماری نسل کدھر بھٹک رہی ہے۔ ہمیں کچھ خبر نہیں ۔
دوپٹے کی افادیت وہی عورت سمجھ سکتی ہے جو اس کے تقدس کو سمجھتی ہو ۔ ہماری تہذیب میں دوپٹے کی کتنی اہمیت ہے، اس بات کا خیال ہمیں نہیں رہا ۔ فیشن کو ضرور اپنائیں۔ اپنے انداز بھی بدلیں مگر دوپٹہ ضرور اپنے لباس میں شامل کریں کیونکہ یہ خواتین کی شرم و حیا کی علامت ہی نہیں بلکہ اس سے خواتین کی نسوانیت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ 
 

شیئر: