Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان عدل و انصاف کی راہ پر

***صلاح الدین حیدر***
شاعر مشرق علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے، بڑی مشکل سے چمن میں ہوتاہے دیدہ ور پیدا ۔بانیانِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے دست راست لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک نہ صرف اپنی راہ سے ہٹ گیا بلکہ اس پر غیر معیاری قوتوں نے قبضہ جما لیا لیکن لگتا ایسا ہے کہ پھر قدرت ہم پر مہر بان ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ چیف جسٹس کی صورت میں ہمیں وہ مسیحا نظر آیا جس نے قوم کو عدل و انصاف کی راہ پر دوبارہ ڈالنے کا بیڑا اٹھایا اور ایسے فیصلے صادر فرمائے کہ عوام الناس کو امید ہو چلی ہے کہ ان کا ملک اپنی منزل کی طرف نئے عزم و ہمت سے گامزن ہوچکا ہے۔
  عدالت ِ عظمیٰ نے اصغر خان کیس پر ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ ان تمام لوگوں کیخلاف تحقیقات کرے جنہوں نے۔ 1990میں افواج پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے کہنے پر مہران بینک سے 14کروڑ سے اسلامی جمہوری اتحاد بنایا تاکہ پیپلزپارٹی کو انتخابات میں ہرا کر نوازشریف کو اقتدار میں لایا جائے۔ وہ اس وقت مقصدمیںکامیاب بھی ہوئے لیکن ایئر فورس کے سابق سربراہ نے جو کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں کافی سرگرم رہے، سپریم کورٹ میں درخواست دے دی کہ آئی جے آئی بنانے والوں اور رقم وصول کر کے جعلی طریقے سے انتخابات جیتنے والوں کو بے نقاب کرے۔
تقریباً 12سال بعد آنے والا فیصلہ آج 5 سال گزرنے کے باوجود آخرنااہلی کی نظر ہوگیالیکن اب یہ دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔ عدالت نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے چیف جنرل اسد درانی کو بھی طلب کر کے ان سے وضاحت طلب کی۔خاطر خواہ جواب نہ ملنے پر چیف جسٹس نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ جو لوگ بھی اس گناہ میں شامل تھے سب کیخلاف انکوائری کر کے ان کی سزا تجویز کی جائے۔نواز شریف ، جماعت اسلامی کے لیڈران جن میں سے اکثر اب اس دنیا میں موجود نہیں ، فائدہ اٹھانے والوں میں شامل تھے۔
اب اگر یہ کہا جائے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور اہل خانہ کے گرد گھیرا تنگ تر ہوتا جارہاہے تو غلط نہ ہوگا ۔ ایک عجیب ہی خبر سننے میں آئی ہے کہ پنجاب کے ایک شہر میں جہاں نواز اور مریم ایک جلسہ کرنیوالے تھے، ان کے بینرز اور پوسٹرپر سیاہی مل دی گئی۔ دونوں کے چہرے پر کالک مل دی گئی، تو کیا اب پنجاب میں ہوا بدل رہی ہے؟اس سے پہلے بھی نواز شریف کیخلاف نعرے لگ چکے ہیں۔ پنجاب پھر غیر جمہوری قوتوں کیخلاف کھڑا ہوچکاہے،اس کی نظیر شاذو نادر ہی ملتی ہے۔
ایک اور فیصلے کے تحت عدالت عظمیٰ کی بنچ نے 4 ماہ سے چھٹی پر رہنے والے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی سینیٹ ممبر شپ معطل کردی۔ انہیں حکم دیا کہ وہ عدالت میں پیش ہوجائیں۔ ان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کی اجازت کے بغیر اسحاق ڈار سفر نہیں کرسکتے۔ وہ دل کے موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ اس ماہ کے شروع میں لندن میں ہونیوالے اجلاس میں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ اسحاق ڈار بھی ہشاش بشاش پھرتی سے چلتے پھرتے اور سیڑھیاں چڑھتے دکھائی دئیے ۔یہ کیسا دل کا مریض ہے جو لند ن میں تو گھومتا پھرتا ہے لیکن اپنے ہی ملک کی عدالت سے چھپتا پھرتاہے؟ 
چیف جسٹس نے ایک اور اہم کیس کی سماعت کی۔ سیل فون پر پیسوں سے رقم ڈالنے پر100 میں 40 روپے ٹیکس کٹ جاتاہے۔ یہ کیسا انصاف ہے۔ انہوںنے پاکستان میں کام کرنے والی چاروں سیل فون کمپنیوں کے نمائندوں کو حاضر ہونے کا حکم دیا اور وزیر خزانہ مفتاح اسما عیل کو حکم دیا کہ فوری طور پر سیل فون سے ادا کئے جانے والے ٹیکسوں کی تفصیل ان کے سامنے پیش کریں تاکہ عوام کے دکھ کا درمان ہوسکے۔اتنے سارے ٹیکس تو یقینا لاقانونی ہیں، اندھیر نگری ہے جس کا ازالہ ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت کو بتایا کہ موبائل کمپنیاں 19.5 فیصد سیلز ٹیکس،10فیصد سروس چارجز اور 12.5فیصد    واٹ وصول کررہی ہیں۔چیف جسٹس یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔یہ سراسر نا انصافی ہے۔ ان کا جملہ معنی خیز تھا۔ 
ہاں ایک بات ضرور حیران کن ہے، وہ یہ کہ احتساب عدالت نے جو کہ نواز شریف اور اہل خانہ کے حالیہ مقدمات کافی عرصے سے سن رہی ہے،اب دوبارہ 2مہینے کی توسیع کی استدعا کی ہے۔اگر اسی طرح وقت کا ضیاع کیا جاتا رہا تو انصاف کیسے ہوگا ؟ نواز شریف کے خلاف تمام مقدمات تقریباً مکمل ہو چکے ہیں، پھر یہ توسیع کیسی، دیکھیں عدالت کیا فیصلہ کرتی ہے۔ 
 

شیئر: