Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شعبان،استقبال رمضان کا مہینہ

 ماہِ رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے اور اس میں معرفت وعرفان وترقیاتِ روحانی کے مظہر ، رحمان کی رحمت ، مغفرت اور بے شمار وبلاحساب برکات کا نزول ہوتاہے
 
 * * *ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ ۔ مکہ مکرمہ * * *
 
ماہِ رجب کی ابتدا ہماری زبان سے لگی اس دعا سے ہوتی ہے :
    ’’اے اللہ ! ہمارے لئے رجب اور شعبان کو بابرکت بنادے اور ہمیں رمضان المبارک تک پہنچادے ۔‘‘
    امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں حضرت مالک بن انسؓ کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا نقل فرمائی ہے کہ جب ماہِ رجب داخل ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ: اللہم بارک لنا فی رجب وشعبان وبارک لنا فی رمضان۔
    بلا شبہ ماہِ رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے اور اس میں معرفت وعرفان وترقیاتِ روحانی کے مظہر ، رحمان کی رحمت ، مغفرت اور بے شمار وبلاحساب برکات کا نزول ہوتاہے جبکہ ماہِ شعبان اس ماہِ مبارک کا پیش خیمہ ہے ۔
    قدومِ رمضان سے قبل معبود کی طرف متوجہ ہونا اور اس سے توفیق وبرکات کی درخواست کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے ۔
    نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مطہرہ پر جب ہماری نظر پڑتی ہے تو ہمیں یہ نظر آتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ شعبان میں رمضان کی تیاری میں سرگرداں نظرآتے تھے۔
    ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ شعبان میں یوں روزے رکھتے تھے کہ ہم سمجھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم افطار نہ کریں گے ، پھر ترک فرماتے تھے ، ہم سمجھتے تھے کہ اب روزہ نہیں رکھیں گے ۔
    نیز فرمایا کہ : رمضان المبارک کے علاوہ سال کے کسی مہینے میں مکمل ماہ روزے نہیں رکھے اور شعبان کے سوا کسی دیگر مہینے میں زیادہ روزے نہیں رکھے۔ امام بخاری اور مسلم نے اس روایت کو نقل فرمایا ہے۔اسی کے پیش نظر علمائے کرام نے شعبان کا پورا مہینہ روزہ رکھنے کو مکروہ کہاہے البتہ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے ۔
    امام نسائی نے اپنی سنن میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ذکر فرمائی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں روزے رکھتے ہیں ، میں نے دیگر مہینوں میں آپ کو اس طرح روزے رکھتے نہیں دیکھا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے جس میں لوگ روزہ رکھنے سے غفلت برتتے ہیں اور یہ مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان ہے ۔
    نیز فرمایا: یہ وہ مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں ،تو میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس حال میں پیش ہو کہ میں روزے کی حالت میں ہوں ۔
    اسی طرح امام ابو دادؤد رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان میں روزے رکھنا بہت ہی پسندتھا جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رمضان میں روزے رکھتے تھے ۔
    امام ابن رجب فرماتے ہیں کہ ماہِ رمضان کا روزہ اشہر حرم کے روزوں سے افضل ہے اور بہترین نفلی روزہ رمضان المبارک سے پہلے اور اس کے بعد کا ہے ۔ نیز فرماتے ہیں کہ : ماہِ شوال اور شعبان کے روزوں کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے کہ فرائض سے پہلے سنتوں کی ۔ گویا اس سے فرائض میں پیش آنے والے نقص کی تکمیل ہوجاتی ہے ۔
    ماہ ِ شعبان استقبال ِ رمضان کی تیاریوں کا پیش خیمہ ہے ۔ شعبان سے ہی رمضان کی تیاریاں شروع کرلینی چاہئیں جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معمولات سے امت کو یہ درس دیاہے کہ کمر بستہ ہوکر رمضان کی تیاری شعبان سے ہی شروع کردینی چاہئے۔
    دیلمی رحمہ اللہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے کہ : شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ،نیز شعبان طہارت کرنے والا اور رمضان کفارہ کردینے والا مہینہ ہے ۔
    مرد ِ مسلم یہ بات ذہن نشین کرلے کہ اسے روحانی ترقی اور طہارت صرف اور صرف سنت کی اتباع سے حاصل ہوگی اور اس کا کفارہ صرف اسوۂ حسنہ کو اختیار کرنے میں ہی ہے ۔
    امام بیہقی نے روایت کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ : اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان ِ دنیا پر نازل ہوتے ہیں،پھر ہر شخص کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے شرک کرنے والے اور دل میں بغض رکھنے والے کے ۔
    یہاں اس بات کی طرف توجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے کہ کچھ ایسی اخلاقی اور شرعی جرائم ہیں جن کی وجہ سے بندے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مبارک شب وروز میں بھی محروم رہتے ہیں ۔ مختلف احادیث میں ان کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔
    «  شرک کرنا :یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا اس کا علاج توحیدِ خالص ہے ۔
    «  کینہ اور بغض:دوسروں کیلئے دل صاف نہ ہو ۔ اس کا علاج عفو ودرگزر اور میل ملاپ رکھنا ہے ۔
    «   قطع رحمی کرنا: اپنے اعزہ اور اقرباء سے میل جول نہ رکھنا۔ اس کا علاج صلہ رحمی اور رشتہ داروں کے شرعی حقوق کی پاسداری کرناہے۔
    «  والدین کی نافرمانی کرنا :یہ کبائر میں سے ہے ، اس کا علاج فوری توبہ اور والدین کی اطاعت ہے ۔
    «  کسی انسان کو ناحق قتل کرنا :یہ بھی کبائر میں سے ہے ۔یہ اشرف المخلوقات کے شرف اور اس کی تکریم کے ضابطے کو توڑنا ہے ۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہوتاہے ۔
    «   بدکار مرد وعورت۔جائز طریقے سے نفسانی خواہشات کی تکمیل انسانی نسل اور اس کی عزت کی تحفظ کی امین ہے ۔خواہشات کو آزادانہ طورپر حیوانات کی طرح پورا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں فسق وفجور ہے ۔
    «  مردوں کا ٹخنوں تک لباس لٹکانا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں جو ازار بھی ٹخنوں سے نیچے ہوگا ، وہ دوزخ میں ہوگا۔
    «  شراب نوشی:اسلام میں ہر نشہ آور مشروب حرام ہے ۔حدیث کی روشنی میں جو شخص شراب پیتاہے اس کی40 روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں ، اگر وہ اپنے پیٹ میں شراب لے کر مرتاہے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔    شعبان کا مہینہ چونکہ طہارت کا مہینہ ہے ، اس لئے اہل ایمان کو اس ماہ فضیلت میں خاص اہتمام سے گناہوں سے توبہ کرلینی چاہئے تاکہ ان کے باطن کا خوب تزکیہ ہو تاکہ وہ ماہِ رمضان کا استقبال بہتر کیفیات کے ساتھ کرسکیں ۔    ان مبارک ایام میں اپنے لئے، پوری امت مسلمہ کیلئے جملہ خیرات کی دعاکریں اور دیگر راہِ ہدایت سے بھٹکی انسانیت کیلئے بھی اللہ تعالیٰ سے ہدایت طلب کریں ۔در اصل یہی ان ایام کا وہ مبارک ثمرہ ہے جس کی لذت سے ہمیں محظوظ ہونا چاہئے ۔
    حق تعالی ٰسے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے عظیم الشان مہمان کی آمد سے پہلے پہلے عمدہ اخلاق اور عالی صفات سے مزین فرمادے کہ ہم خوب سیرت ہوکر اپنے اس مہمان کا استقبال کریں جس کی آمد کے ہم منتظر ہیں اور زبان سے دعاگو ہیں کہ :
    ’’اے اللہ! تُو ہمارے ماہِ شعبان میں برکت عطافرما او رہمیں صحت وعافیت سے ماہِ رمضان تک پہنچا۔‘‘
مزید پڑھیں:- -  -- - دعائیں کب قبول ہوتی ہیں؟

شیئر: