Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گہری سیاہ آنکھیں سرخ انگاروں کی مانند سلگتی دکھائی دے رہی تھیں

یہ میری فطرت  ہے ،جو ہستی دل کو متاثر کرگئی ، اْسے گوگل سرچ پر ایڈ کرلیتی ہوں۔ندا ،ثانیہ کو رضا کی معلومات  سے آگاہ کئے جارہی تھی، رضا   اتنی زورسے چیخا کہ ثانیہ کا دل دہل گیا
قسط 7
ناہید طاہر۔ریاض
’ ارے بابا وہ کچھ نہیں کہے گا۔تم خوامخواہ ٹینشن لیتی ہو۔وہ بندہ دل کا بْرا نہیں ہے ‘۔نداکی تسلی کے باوجودثانیہ رضا کی جانب پشت کیے کھڑی رہی۔کچھ دیر بعد رضاوہاں سے چلا گیاتب ثانیہ نے سکون کا سانس لیا اور لنچ کرنے لگی۔
’تمہیں پتہ ہے یہ6 فٹ اْونچارضا جو خود کو آزاد پنچھی مانتا ہے دراصل  خاندانی اصولوں کی زنجیروں میں بری طرح جکڑا ہوا قیدی ہے۔ !!! بیچارے کے اوپر ایک اور رضامراد مسلط ہیں ، جنھوں نے اس رضامراد کی  لگام اپنے ہاتھوں میں تھام رکھی ہے‘۔نداکھانے کے دوران اپنی معلومات ثانیہ تک منتقل کرنے کاخوبصورت فریضہ انجام دے رہی تھی۔
’یہ ایک اوررضا مرادکون ہیں‘؟ثانیہ نے اپنی ہنسی پربمشکل قابوپایا۔
’رضا کے دادا صاحب۔! یعنی اس کالج کے سب سے اہم ٹرسٹی الطاف حسین‘۔ندانے وضاحت کی۔
’اچھا یہ بات ہے‘۔ثانیہ نے دلچسپی سے آنکھیں پھیلا کر ندا کو دیکھتے ہوئے منہ میں لقمہ رکھا۔
’ اس چھ فٹ اونچے رضا کی اپنے داداکے آگے ایک نہیں چلتی۔خاندان کے کسی فرد کی مجال نہیں جو داداحضور کی خلاف ورزی کرسکے‘۔ندااپنی معلومات کاپٹارہ کھولے بیٹھی تھی۔
’اچھا !‘  اچانک ثانیہ کے حلق میں لقمہ پھنستا ہوامحسوس ہونے لگا۔ اس نے جلدی سے پانی کا گھونٹ لیتے ہوئے سر کو خفیف انداز میں جنبش دی اورنداکی جانب تمام ترتوجہ مبذول کردی۔
’ یہ جناب ہی کیا ، سارا خاندان بھیگی بلی بنا ہوا داداکے حکم کی تکمیل کرتاہے۔یہ شاید حاکمانہ ماحول اور سخت اصولوں کی وجہ ہوسکتی ہے کہ رضا  آزاد زندگی کو ترجیح دیتا ہے !!!  رضا نے خودکو آزاد پنچھی بنارکھاہے۔ندا سانس لیے بغیر بولتی جارہی تھی۔
 ’یارتم لڑکی ہو یا رضا کی پرسنل ڈائری‘۔ثانیہ نے بادل ناخواستہ دلچسپی سے ندا کی ساری گفتگو سنی۔
’اچھا  ایک بات بتائو۔اتنی تفصیل اور اس قدر وسیع معلومات کیسے حاصل ہوئیں‘؟ثانیہ متجسس تھی۔
’کوئی خاص دلچسپی کاپہلو۔۔۔۔۔؟تاکہ میں وقت پر جواد کو آگاہ کرسکوں کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔ثانیہ نے چھیڑا۔
' محترمہ! غلط فہمی کا شکار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘۔ندا نے غصے سے ثانیہ کو گھورا۔اس  کے جواب میں ثانیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
  ’یہ میری فطرت  ہے ،جو ہستی دل کو متاثر کرگئی ، اْسے گوگل سرچ پر ایڈ کرلیتی ہوں۔۔۔۔کہو تو تمہاری سوانح حیات بیان کردوں‘؟ندااپنی فطرت کا پہلواجاگرکرتی ہوئی پانی کا گھونٹ بھرتی ہوئی بولی۔
ثانیہ نے مسکرا کر پہلو بدلا اور شوخی سے کہا۔  اچھا!محترمہ کے پاس میری بھی رپورٹ تیارہے‘
  ’مس ثانیہ سوشیالوجی کی بہترین پروفیسرہیں۔ دیگر مضامینِ پر بھی عبورحاصل ہونے کی وجہ سے طلباء  میں مقبولیت کے اعلیٰ مدار ج طے کرتی جارہی ہیں‘۔ نداایک پل رکی ،پھرسلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے گویا ہوئی  ’یہ تو رہی ملازمت کی باتیں۔رہی فیملی کی بات تو موصوفہ کا ایک عدد بھائی اور ایک بہن موجود ہے  جنھیں وہ بہت زیادہ پیار کرتی ہیں۔محترمہ کے ابو نہایت دیندار انسان  ہیں جو پوسٹ آفس میں ملازم ہیں۔افسوس کہ ان کی فیملی پر بھی دادی اماں کی حکومت چھائی ہوئی  ہے۔یہاں پر یہ سچویشن بالکل رضا کے حالات سے میل کھاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔کیا پتہ آگے چل کر دونوں ہم مزاج ،ہم خیال بن جائیں اوردونوں گنگناتے پھریں ’ہم دل دے چکے صنم‘۔ندانے گفتگوتمام کرتے ہوئے ثانیہ کی جانب دیکھا۔
  ’ندا دیکھنا ایک دن میں تیرا گلا گھونٹ دوں گی‘۔ثانیہ اس کی جانب لپکی۔
   ’ارے باپ رے !ایسا غضب مت کرنا۔ورنہ میں شادی کے دن جواد کے ہاتھوں سے پھولوں اور سونے کا ہار کہاں پہنوں گی‘؟ندانے خوفزدہ ہونے کی اداکاری کی۔
ندا تْو کبھی تو سنجیدہ ہوگی؟
ثانیہ اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگی۔
’خیر میں کہاں تھی۔ ارے ہاں یاد آیا‘!نداایک بارپھرشروع ہوگئی۔
’ثانیہ اپنی دادی اماں کے خلاف سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔یہ عمل ایک گناہ کبیرہ ثابت ہوگا۔!۔ تم ہر روز نوافل بطور شکرادا کرتی ہو کہ اللہ میاں نے دادی کو گائوں میں رکھا ہے۔بصورت دیگرایسے قوانین اور پابندیوں سے ثانیہ بی بی کی زندگی تو اجیرن تھی‘۔نداکی ہر بات واقعی صدفیصد درست تھی۔
واقعی وہ فل پروف رپورٹرتھی جس کی رپورٹ ٹھونک بجاکرتیارکی جاتی تھی۔
    ’ بس کر وندا۔ تم لڑکی ہو یا کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک'!ثانیہ بے اختیار ہنستی چلی گئی۔
’میری ان ہی خوبیوں کی وجہ سے جواد نے مجھ سے رشتہ جوڑا ہے۔تم توجانتی ہی ہوکہ وہ سی آئی ڈی  آفیسر ہے‘۔ندانے فخرسے سربلندکیا۔
  ’اچھا‘۔اس انکشاف پر ثانیہ کے لب مسکرااْٹھے۔
  ’تم دونوں کی جوڑی عمدہ ہے۔ خوب جمے گی‘۔ثانیہ نے تبصرہ کیا۔
  ’کیا خاک جمے گی۔جواد ہر دوسری بات پر’کچھ تو گڑبڑ ہے ‘ایک ہی جملہ دہراتا رہتا ہے‘۔پھر وہ خود ہی زور سے ہنس پڑی۔ 
   ’یار تم ہنستی بہت ہو۔تمہیں پتہ ہے تم ہنستی ہوئی بہت پیاری لگتی ہو۔زندگی میں بس یوں ہی ہنستی مسکراتی رہنا‘۔ثانیہ نے دل سے دعادی۔
اور تم دنیا کی سب سے پیاری لڑکی۔۔۔۔۔!!!
’ کمال ہے اس دل پھینک بندے نے ’مس ثانیہ وسیم فراز ‘ کی کشش سے خود کوکیسے محفوظ رکھا ہے۔؟ کچھ توگڑبڑ ہے۔۔۔؟یا پھرکوئی تووجہ ہے جو وہ اب تک اس قرب سے انجان بنا ہوا ہے‘؟خودکلامی کرتے ہوئے ندا نے تشویش سے آنکھیں موند لیں۔
   ’اتنی ٹینشن کیوں لیتی ہو۔جواد سے رجوع کر۔۔۔۔۔ وہ دوچپت رسید کرتا ہوا تیرے دماغ سے سارے فتور دفع کردیگا۔
ثانیہ نے اس کامذاق اْڑایا۔
’ کم بخت میں تیرے لیے فکرمند ہوں اور تم ہو کہ میرا مذاق اڑارہی ہو‘۔ندا نے نقلی غصہ دکھایا۔
  ’اچھا۔فکر کا انداز تو دیکھیں!  ثانیہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’ویسے تم کیوں دوسروں کی فکر میں مبتلا ،اپنا وزن بڑھانے میں لگی ہو‘۔ثانیہ نے اس کی ناک پکڑ کر دھیرے سے دبا دی۔
اففف۔۔۔۔ندانے کراہ کر ثانیہ سے اپنی ناک آزاد کی۔
یار رضااحمد کی ناک دبوچ نا۔۔۔۔!میری ناک کے پیچھے کیوں پڑی ہے۔۔۔!!!
میری بلا سے۔۔۔!!!ثانیہ کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔میں نے رضا احمد کو ایسا سبق دیا ہے وہ تاعمر میری جانب نگاہ اٹھا
کر دیکھنے کی گستاخی  نہیں کرسکتا ‘۔
میری پھولن دیوی ایسا کیا کردیا تم نے۔۔۔؟
نداکی بات پر ثانیہ  بے اختیار ہنس دی اور اسے  پہلے دن کا واقعہ سنانے لگی۔
’اوہ  یہ بات ہے‘۔ندا حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔
  ’اس دن کے تھپڑ ،وہ کبھی نہیں بھول سکتا۔۔۔۔اس کی گونج ، برسوں اپنے حصار میں باندھ رکھے گی‘۔ثانیہ  نے قہقہہ لگایا۔
’ہممم۔۔۔۔یہ بات ہے۔۔۔!!!!ندا پتا نہیں کیوں فکر مند ہوگئی۔
اب صاف سمجھ گئی تم۔۔۔۔ ! رضااحمد ثانیہ وسیم فراز کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے پہلے دس مرتبہ سوچے گا ضرور۔۔۔!!!!ثانیہ نے کھل کر قہقہہ بلند کی لیکن اچانک اس کا قہقہہ دم توڑنے لگا۔
وہ بالکل سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔اس کی گہری سیاہ آنکھیں نہایت سرخ انگاروں کی مانند سلگتی دکھائی دے رہی تھیں۔
     ’اتنا تکبر۔۔۔۔۔۔!!!! وہ زور سے چیخا تھا۔
ثانیہ کا دل دہل گیا۔!!!!!(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: