Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زیست کی کشتی طوفانی بھنور میں تیزی کے ساتھ پھنستی چلی جارہی تھی

’مس ندا۔۔۔۔ ! اپنی اس دوست کی ساری خوش فہمیاں دور کردیجئے ، رضااحمد کسی پر نگاہِ کرم عنایت کرنے  سے پہلے ، حیثیت اور معیار ضرور  دیکھتا ہے‘‘
قسط۔ 8
ناہید طاہر۔ ریاض
  ’اتنا تکبر۔۔۔۔۔۔!وہ چیخا !!!
محترمہ۔۔۔۔۔ ! پْرفریب  خواب دیکھنا چھوڑدیجئے۔
چاہتا تو یوں چٹکیوں میں تمہیں کالج کے باہر پھنکوا دیتا۔۔۔۔۔۔۔!!!
لیکن ایساکیا نہیں۔۔۔۔!
ہماری خاموشیوں کو مجبوری نہ سمجھیں۔۔۔۔۔! 
جانے کب وہ اچانک آدھمکاتھااورساری باتیں سن کرآگ بگولا  ہورہاتھا۔
’دوسری اور اہم بات‘۔ وہ ندا کی جانب گھوما۔
’مس ندا۔۔۔۔ ! اپنی اس دوست کی ساری خوش فہمیاں دور کردیجئے ، رضااحمد کسی پر نگاہِ کرم عنایت کرنے  سے پہلے ، حیثیت اور معیار ضرور  دیکھتا ہے۔
رہی تھپڑ کی بات !!!!
کان کھول کر سن لیجئے محترمہ رضا کو بھولنے کی بیماری نہیں۔ بہتر موقعہ ، بہتر انداز میں سود سمیت قرض اْتارنے کا شوق  ضرور ہے۔بس وقت کا انتظار کیجئے گا ‘۔اتنا کہہ کر وہ چلا گیا۔
  یہ شخص تو شیشے کے جن کی طرح اچانک نمودار ہوجاتا ہے۔مجھے شک ہی نہیں یقین ہے کہ رضا انسان نہیں کوئی اور مخلوق  ہے۔!!!ثانیہ پریشانی سے بولی تو ندا اپنی ہنسی چھپا نہ سکی۔
تم ہنس رہی ہو۔۔۔۔۔؟جبکہ اس شخص نے میری تذلیل میں کوئی کسر نہیں چھوڑرکھی ! میری  مفلسی نے اس کا کیا بِگاڑا ہے جو آئے دن بس بے عزتی کرتاہے۔میں تنگ آچکی ہوں۔آخر کیا چاہتا ہے وہ؟وہ زچ ہوگئی تھی۔
   ’وہ تمہیں چاہتا ہے۔۔۔۔!!! میرا مطلب ہے کہ وہ تم سے بدلہ لینا چاہتا ہے‘۔ندا نے سٹپٹانے کی اداکاری کی تو ثانیہ جھلا اٹھی۔   ’ندا  میں مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں‘۔ثانیہ نے وارننگ دی۔
’یار معاف کردے‘۔ندا نے کان پکڑے اور ثانیہ کی آنکھوں کے نم گوشے صاف کرنے لگی۔
ثانیہ کلاس روم سے باہر نکل آئی۔۔۔آج ٹھیک سے لیکچر بھی نہ دے سکی تھی۔۔۔دل ودماغ کافی منتشر تھے۔۔۔گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے دادی جان کسی رشتہ کے لئے ،ابو پر کافی دباؤ ڈال رہی تھیں۔۔۔اس سلسلے میں ثانیہ کواپنے آبائی گاؤں بھی بلوابھیجا تھا۔۔۔لیکن اس نے چْھٹی نہ ملنے  کا بہانہ کردیا۔۔۔ مجبوراًابو، امی‘ گاؤں ہو آئے ، تبھی سے گھر پر عجیب قسم کی خاموشی نے بسیراکرلیا تھا۔ سارا دن پریشانی میں گزرگیا۔واپسی میں  ندانے اس کی پریشانی بھانپ لی، جبکہ ثانیہ نے گھریلو مسئلہ پر بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اورسردرد کا بہانہ کرکے بات ٹال دی۔ گھر واپسی پراسے یہاں کا ماحول گزشتہ شب سے زیادہ گھٹن آمیز محسوس ہوا۔گاؤں سے دادی جان بھی تشریف فرما  تھیں۔۔۔۔۔ثانیہ کو محسوس ہورہا تھاکہ دادی جان  کے تئیں ایک گمبھیر طوفان  پوشیدہ ہے۔دامنِ  طوفان میں  تباہی کاکونسا رازپوشیدہ تھااس بات کاثانیہ کو صحیح  اندازہ نہیں ہو پارہاتھا۔
شام سے  سیاہ بادل گِھر آئے تھے رات ہوتے ہوتے یہ کالی گھٹائیں مزید گہری ہوتی گئیں۔ماحول پر عجیب ہولناکی طاری تھی۔۔۔"پتا نہیں یہ طوفانی رات اپنے دامن میں کونسے طوفان ، تباہی چھپا لائی  ہے؟  ثانیہ  ایک جھرجھری لیتی ہوئی سوچنے لگی۔
ثانیہ دی ! آپ کو ' ہٹلر' دادی جان یاد فرمارہی ہیں۔! انھوں نے آپ کو اپنے کمرے میں بلایا ہے۔ ناز نے پیغام دیا۔ اس کا دادی جان کو ہٹلر کہنا  کوئی خوشگوار تاثر پیدا کرنے سے قاصر رہا۔
’کیوں سب خیریت تو ہے نا۔۔۔؟ ‘ وسوسوں کے درمیان گھِری  وہ تشویش بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔
’مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ ہٹلر دادی جان نے آپ کو کیوں یاد فرمایاہے۔!ناز نے بے پروائی سے شانے اچکائے تو وہ بوجھل قدموں تلے دادی جان کے پاس چلی آئی۔
"ہم نے تمہاری شادی طے کردی ہے۔۔۔!!!‘  دادی جان نے  تمہید باندھنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
طوفانی رات پہلے ہی قہر ڈھارہی تھی اس پر دادی جان کی آواز خاموشی کا سینہ چاک کرتی ہوئی جیسے ثانیہ کی  سماعت میں گرم سیسہ گھولنے لگی۔۔۔اس خاموشی میں چھن سے کچھ ٹوٹا۔۔۔۔۔وہ اس کے نازک وجود میں دھڑکتا دل تھا۔۔۔!!!
نازک دل کی کرچیاں چہار سو بکھرتی چلی گئیں۔۔۔۔۔جنھیں وہ بڑی بے بسی سے دیکھنے لگی۔سارے بدن پر ایک کپکپاہٹ سی سوار تھی۔۔ اس کے حواسوں پر بجلی سی کوند گئی۔
"ہمارے اس فیصلے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔۔۔!!!" وہ فیصلہ سناکر حکم بھی صادر کرچکی تھیں۔
باہر زور سے بجلی چمکی اور اس کے ساتھ ہی بادل خوفناک انداز میں گرج اٹھے۔وحشت آمیز رات کسی آسیب کی طرح قہقہے لگارہی تھی۔
کشتی کے محافظ ہی کشتی ڈبونے میں کمربستہ نظر آرہے تھے۔!!!
"دادی جان۔۔۔!  آپ کا یہ فیصلہ شایدمناسب نہیں۔۔۔! 
جیسے کسی گہری کھائی سے اْس کی آواز ابھری لیکن افسوس دادی جان کی سماعت تک پہنچنے  سے پہلے اپنی توانائی کھوچکی تھی۔ وہ احتجاج کررہی تھی،لیکن بغیر کسی آواز کے ، لب خاموش تھے اور دل ودماغ چیخ چیخ کر دْہائی دیتے رہ گئے۔ اپنی خاندانی وقار اور بے جا اصولوں کی خاطر دادی جان نے  اس فیصلے پر مہرلگادی۔ 
" فراز میاں !  آپ  بیاہ کی تیاریاں شروع کیجیے۔۔۔یہ بیاہ نہایت سادگی سے انجام پائے۔ دراصل تمھارے ابوً کے دوست بہت بیمار ہیں۔انھیں ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔بچنے کی بہت کم امید ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ ثانیہ بہو بنکر ان کی دہلیز پہ مسکراہٹ بکھیرے۔وحشت آمیز سناٹوں کے درمیان دادی جان کی پروقار آواز کسی بے رحم منصف کی مانند گونج اٹھی جو موت کی سزا سنانے کے بعداپنے قلم کی نوک توڑدیتا ہے۔
اس کی شادی ایک ایسے شخص سے طے کردی گئی جسے اْس نے دیکھا تک نہیں اور نہ ہی اْس کے تعلق سے کوئی علم تھا۔وہ مردہ قدموں سے وہاں سے پلٹ آئی۔اپنی ذات سے جڑی تمام ہستیاں ، جن کے  حقوق کے لیے ہم آواز بلند تو کرنے کی ہمت رکھتے ہیں  ، لیکن….. اپنے حق کے لیے ہم اپنوں کے آگے ہی بے بس ہو جاتے ہیں ، احتجاج گونگا ہوجاتا ہے تودہائی دیتا دماغ ماؤف۔۔۔۔۔!!!رشتوں کا اعتماد قائم رکھنے کی چاہ میں  ہماری قوت گویائی سلب ہوجاتی ہے۔
اس ترقی یافتہ دور میں اس قسم کے فرسودہ خیالات کون رکھ سکتا ہے بھلا۔؟ثانیہ کی عقل حیران تھی۔۔۔کچھ سمجھ   نہ آرہا تھا کہ کس طرح ان کْہنہ خیالات سے بغاوت کی جائے۔؟ کیسے اسے جبراًبیاہ کو روکا جائے۔۔۔! زیست کی کشتی طوفانی   بھنور میں تیزی کے ساتھ پھنستی چلی جارہی تھی ،کنارے کا کوئی پتا ٹھکانہ نہیں تھا،اورساحل دسترس سے دوربہت دور ہوتا جارہا تھا۔!!!
"زندگی یوں بھی آزماتی ہے؟"وہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر بری طرح روپڑی۔ (باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: