Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ثانیہ کی سسکیاں کوئی نہ سمجھ سکا،وہ بڑوں کے وعدے پر قربان ہوگئی

ندا کو کانوں کان خبر نہ ہوسکی،رخصتی بھی سادگی سے کی گئی،گائوں کی دوشیزہ کی طرح لمبا گھونگھٹ ڈال کر وہ  انجان شخص کیلئے پیا گھر سدھا گئی
ناہید طاہر۔ ریاض
قسط9
رات گہرئی ہونے لگی ،اچانک دروازے پر ہلکی سی دستک  سنائی دی
"سوگئی کیا۔۔۔۔؟ " ابو کی سرگوشی  اْبھری پھر قدموں کی چاپ اْس کے سرہانے آکر تھم گئی۔
"ابو آپ؟ "وہ شاید تکیے میں منہ چھپا کر سسکیاں بھر رہی تھی۔
"مجھے معاف کردو بیٹی۔۔۔۔میں اپنی والدہ کے وعدے کو  توڑنہیں سکتا۔۔۔۔!!! "
"وعدہ۔۔۔؟؟؟"
"بیٹی جس شخص سے تمہارابیاہ طے پایا۔۔۔۔۔۔ دراصل وہ تمہارے داداجان مرحوم کے ایک دوست کا پوتا ہے،وعدہ لیاتھاکہ اپنی پوتی یعنی تم کو اپنے گھر  امانت کے طور پر سنبھال کر رکھیں گے۔آج وہ اپنی امانت مانگ رہے ہیں۔
مجھے اس بات کا بخوبی علم ہے اور اسلام میں بھی کسی باپ کواس بات کی اجازت نہیں کہ وہ  خود کے مفاد اور مصلحتوں کے تحت  بیٹی کاجبری نکاح کرے۔!!!
"لڑکی کی مرضی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔تمہیں پورا اختیار ہے چاہے تو  انکار کرسکتی ہو۔۔۔ یقین کرو میری والدہ کی مرضی تم پر یوں مسلط  نہیں کی جائے گی۔۔۔۔۔!
     ہاں ایک باپ کی گزارش  ضرور ہے !
"اپنے اس بوڑھے باپ پر اعتبار کر لو۔۔۔! ان شاء  اللہ سب ٹھیک ہوجائیگا ۔"
ثانیہ بے اختیار  اٹھی۔
’’ابو گزارش نہیں ،حکم کیجئے۔۔۔۔۔!!!مجھے احساس ہے میرے ابو کبھی غلط نہیں ہو سکتے۔آپ تودنیا کے سب سے بہترین ابو ہیں۔ آج تک آپ کاکوئی فیصلہ  غلط ثابت نہیں ہوا،بھلایہ فیصلہ کیسے غلط ہوسکتا؟
جب آپ نے سوچا ہے تو کچھ نہ کچھ مصلحت  ہوگی ، میرے لئے کوئی خیروبھلائی ضرور پوشیدہ ہوگی۔۔۔۔۔!!!
وہ سسکیوں کے دوران گویا تھی۔
وسیم فراز نے  مسرت سے ثانیہ کے کانپتے وجود کو اپنے سینے سے لگا لیا۔جیتی رہو بیٹی !مجھے تم سے یہی امید تھی۔
ثانیہ کے بلند اخلاق وکردار اور  وجود کی نرمی نے اس کے لبوں کو  سی رکھا جس پر ثانیہ نے خاموشی  کی مہر چسپاں کرلی ۔  18 اکتوبر کو عقد طے پایاتھا۔اس نے دل کو پتھر کرلیا۔حیرت ناک امر یہ کہ  ندا کوبھی کوئی بھنک لگنے نہیں دی۔۔۔بس بیماری کا بہانہ بنا کر کالج سے ایک ہفتے کی رخصت لے لی۔
زندگی کے اس حسین موڑپر لڑکیاں خوشی سے  چہکا کرتی ہیں،جبکہ ثانیہ کافی پریشان تھی۔
وقت کس طرح ریت کی مانند مٹھی سے پھسل جاتا ہے پتا ہی نہیں چلتا۔ 18 اکتوبر بھی آ پہنچا،ثانیہ کسی طائربسمل کی طرح  تڑپتی رہی ،روتے روتے بْرا حال تھا۔۔۔ غم و یاس کے بادل جب دل ودماغ پر چھاجائیں تو اشکوں کی بارش اس تلخی کو دھودیتی ہے۔۔۔۔۔!لیکن ثانیہ کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا ،بلکہ دردکی تلخی اس کے وجود کے اندر پھیلتی چلی گئی۔رخصتی  کے موقعے پربھی وہ خاموشی کا مجسمہ بنی ہوئی تھی۔دادی جان نے اسے سینے سے بھینچ لیا۔
اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ رکھو۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے اللہ ہمیں وہ نہیں دیتا جو ہمیں اچھا لگتا ہے بلکہ اللہ ہمیں وہ دیتا ہے جو ہمارے لئے اچھا  ہوتاہے!
"تم بڑی نصیبوں والی ہو جو اتنے اونچے گھرانے کی بہوبن کر جارہی ہو۔شہزادی کہلاؤگی ، دولہا راجا۔۔۔! شہزادوں سے کم نہیں۔جواب میں وہ بے بسی سے سسک اٹھی۔
چاند سورج کی جوڑی ہے۔۔۔۔۔۔! امی نے قریب آکر سرگوشی کیں تو وہ سسکیوں کے درمیان شرمانے کی کوشش کرنے لگی۔ جذبات قدرتی نہ ہوں تو انسان بڑی بے بسی محسوس کرنے لگتا ہے۔
’ ہاں دولہا بھائی واقعی  بہت ہینڈسم ہیں، میں نے جب انھیں دیکھا تو اپنے حواس کھو بیٹھی۔!ناز نے ثانیہ کے کان میں سرگوشی بھری۔ مجھے یقین ہے یہی کیفیت آپ کی بھی ہوگی۔ !دوسرے ہی پل دادی جان کے گلے میں باہیں ڈال کر خوشی سے چہکی" مرحوم دادا جان ، دادی جان کی پسند کے کیا کہنے۔ میں تو  دل سے قائل ہوگئی۔اب میں نے بھی فیصلہ کرلیا ہیکہ  اپنا بیاہ  دادی جان کی پسند کے  مطابق کروں گی۔۔۔۔۔!!!۔یہ سن کرثانیہ کے خشک لبوں  پر ایک مصنوعی  مسکرا ہٹ پھیل گئی۔
"شکر ہے آپ کے لب  مسکرائے تو سہی !ناز کی چھیڑخانی جاری تھی۔
’ بے شرم لڑکی ! دادی جان نے پیار سے ناز کو آنکھیں دکھائیں۔
دادی جان معافی کی طلب گار ہوں۔۔۔۔ناز نے معصومیت سے اپنے کان پکڑ ے تو سبھی ہنس پڑے۔
بہت سادگی سے عقد ہوا۔۔۔۔۔نہ کوئی باراتی اور نہ ہی کسی قسم کا شور۔نکاح کے بعد بھی وہ اپنے شوہر کی ایک جھلک نہیں دیکھ سکی اور نہ ہی اسے اس معاملے سے کوئی دلچسپی تھی۔
گاؤں کی جاہل دوشیزگان کی طرح  لمبا گھونگھٹ ڈال کر اسے شوہر کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا دیا گیا۔ثا نیہ غم واندوہ کا بوجھ اٹھائے ماضی کو خیرباد کہہ کر پیاکے گھر چلی آئی۔ سسرال میں کائنات کی ساری بہاریں خوشنما پرندوں کی طرح چہچہاہٹ بھرتی محسوس ہوئیں۔پھر بھی اس کے دل سے اداسی کا موسم نہیں گیا۔(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: