Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند میں انسانوں کے مقابلے میں جانور زیادہ محفوظ

* *  * *
ظفر قطب ۔ لکھنؤ
 
ہندوستان میں انسانوں کی زندگی کے مقابلے جانور کہیں زیادہ محفوظ ہیں۔ خاص کر ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں جب سے نام نہاد جانور حامیوں کی تنظیمیں قائم ہوچکی ہیں۔ انھوں نے تو ایسے خطرناک جانوروں کی جانب انگلی اٹھانا بھی گناہ قرار دیا ہے جو انسانی زندگی کیلئے مضر ہیں ۔ یہ کہنا کہ ایسے جانوروں کو ہرگز نہ مارو کیونکہ ان کی نسل روئے زمین سے معدوم ہورہی ہے ۔ یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ اگر ایسے جانوروں کی نسل واقعی ختم ہورہی ہے تو حالیہ دنوں کے ریکارڈ کے مطابق یہ جانور اب جنگلوں کو چھوڑ کر آبادیوں کی جانب کیوں بھاگنے لگے ہیں؟ جو لوگ اس کا سبب جنگلوں کی کٹائی بتاتے ہیں وہ انتہائی اپنی لاعلمی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
     گزشتہ 20 برسوں میں ہندوستان میں جنگلاتی علاقوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ سماجی جنگل کاری نے جنگلاتی جانوروں کو فروغ پانے کے اہم مواقع دیئے ہیں ، اس لیے ان کی افزائش بھی خوب ہوئی ہے۔ اب وہ آبادیوں کی جانب بھاگنے لگے ہیں کیونکہ ان کی مرغوب غذا ہرن اور نیل گائے کھیتوں اور کھلیانوں میں آزادی کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگی ہیں۔ چونکہ ان کے شکا رپر بھی انھیں جانور سے محبت کرنے والوں نے پابندیاں عائد کرادی ہیں اس لیے وہ بھی اپنی کثرت تعداد کی بنا پر جنگل سے نکل کر دھان گیہوں مٹر جو چنا اور دالوں کی فصلوں کے خوشوں کو چٹ کرنے کے لیے انسانی آبادیوں اور کھیتوں میں آگئی ہیں۔
     ظاہر بات ہے کہ جب یہ جانور جنگل سے باہر آگئے تو ان کے پیچھے پیچھے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے شیر چیتے اور دوسرے جانور بھی انسانی آبادیوں کی طرف چل پڑے۔ قدرت کے نظام غذا سے بغاوت کرکے کچھ انسانوں و سیاست دانوں نے اپنی پسند سے ایسے قوانین بنا دیے کہ جو وہ کھائیں دوسرے بھی وہی کھائیں اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے جیسا کہ حالیہ ایام میں گجرات ، راجستھان ، مغربی یوپی اور مدھیہ پردیش میں پیش آیا۔ملک کے اقلیتی فرقہ کے کئی افراد کو اس لیے قتل کردیا گیا کیونکہ ان پر شک ہوگیا تھا کہ انھوں نے اکثریتی فرقہ کے نزدیک ایک جانور کا گوشت کھایا ہے حالانکہ جانچ کے بعد پتہ چلا کہ یہ سب ایک بڑا جھوٹ تھا ۔ اس کا مقصد ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ایک رجعت پرست پارٹی کو الیکشن میں کامیاب بنانا تھا اور اس کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلنا بہت ضروری تھا تبھی تو انھیں ووٹ بینک تیار کرنے میں آسانی ہوگی ۔
    آج کل یوپی میں کتوں کی جان پر بن آئی ہے۔ ان کی طرف سیاست دانوں اور نام نہاد جانور حامیوں کی نظر عنایت ان کیلئے مصیبت ہوگئی ہے۔ کتا گھاس اور ساگ و ترکاری تو نہیں کھاتا ۔ وہ گوشت خور جانور ہے ۔ اس کی زندگی گوشت خور بڑے جانوروں اور انسانوں سے لازم و ملزوم تھی ۔ وہ شیر چیتے وغیرہ کے مارے ہوئے شکار کے بچے ہوئے گوشت کے ٹکڑے کھاتے تھے یا گوشت خور انسانوں کے سہارے زندہ تھے اسی لیے گوشت کی دکانوں کے ارد گرد بھیڑ لگا کر بیٹھتے تھے یا آبادیوں میں مرے ہوئے جانوروں سے دعوتیں اڑاتے تھے لیکن جب ذبیحہ پر ہی پابندی لگ گئی اور بار برداری کے کام میں بڑی بڑی مشینیں و ٹریکٹر آگئے تو کتوں کو فاقہ کشی پر مجبور ہونا پڑا لیکن وہ کب تک فاقہ کرتے ،اپنی بقا کے لیے انھیں کچھ تو کرنا ہی تھا ، اسی کا نتیجہ ہے کہ اب وہ انسانوں پر حملہ آور ہونے لگے ہیں ۔
    حال میں جنگلوں سے قریب اضلاع سیتاپور اور پیلی بھیت سے موصولہ اطلاعات کے مطابق وہاں کتے آدم خور بن رہے ہیں ایسے کتوں کی دہشت رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ 5 مئی گزشتہ ہفتہ کو ایک بار پھر کتوں کے حملہ سے ایک معصوم کی جان چلی گئی ، تازہ واقعہ ضلع سیتاپور کے تال گاؤں تھانہ حلقہ کے موضع بھگوتی پور کا ہے ، یہاں6 کتوں نے حملہ کرکے10 سالہ محمد قاسم کی جان لے لی اب تک صرف سیتاپور ضلع میں 12بچوں کو کتے شکار بنا چکے ہیں
     ان تجربات کے بعد حضرت انسان کی جان بچانے یا ریبیز و چیچک جیسی خطرناک بیماریوں کی بیخ کنی کے لیے ادویات بنائی جاتی تھیں ،لیکن جانوروں سے محبت کرنے کا ڈرامہ کرانے والی تنظیموںنے شور مچا کر یہ کام بندکرادیا یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ کی سڑکوں اور گلی محلوں میں اتنے کتے پیدا ہوگئے ہیں کہ ان کے جھنڈ دیکھ کر انسان دہشت زدہ ہوجاتا ہے۔ یہ کتے پہلے شہر کے مردہ جانوروں اور گوشت کی دکانوں سے پھینکی گئی خراب بوٹیوں اور چھیچھڑوں پر زندہ رہتے تھے لیکن جب سے مرکز اور ریاستوں میں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے اس نے سلاٹر ہاؤسوں پر پابندی لگادی ہے ۔ ایسے میں بے زبان جانور کتے اور بلیوں پر مصیبت آگئی ، اس لیے اب وہ اسپتالوں کے مردہ گھروں پر بھی حملہ آور ہوکر وہاں مردوں کے اعضاء نوچ لے جاتے ہیں۔ ان میں گورکھپور میڈیکل کالج بہت بدنام ہے ، لکھنؤ سے ملحق سیتاپور ایسا ضلع ہے جہاں آدم خور کتوں کی دہشت گردی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ۔ ابھی چند روز قبل کتوں کی دہشت گردی خیر آباد علاقے میں محض6 سے7 کیلومیٹر کے دائرے تک محدود تھی لیکن اب وہ علاقہ بڑھ کر 22 کلو میٹر سے بھی زائد ہوچکا ہے ، ان کتوں کے حملوں سے شہر کوتوالی، تال گاؤں کوتوالی خیر آباد ، مچھرہٹا تھانہ ، مان پور تھانہ علاقوں کی تقریباً 7لاکھ افراد پر مشتمل آبادیاں بری طرح خوفزدہ ہیں، عوام بہت پریشان ہیں وہ اپنے بچوں اور جانوروں کے سلسلہ میں بہت فکر مند ہیں ۔
    یہ بات قابل ذکر ہے کہ یکم مئی کو خیر آباد میں جہاں کتوں نے حملہ کیا اور4 مئی کو دوسرا حملہ جہاں کیا دونوں میں 22 کلو میٹر کی مسافت ہے ، اس بنا پر عوام میں خوف بڑھتا ہی جارہا ہے۔ آدم خور کتوں کی دہشت کا یہ حال ہے کہ گزشتہ جمعہ 4 مئی کو ان کتوں نے محض ڈیڑھ گھنٹے کے اندر 7 کلو میٹر کی مسافت طے کی اس دوران آدم خور کتوں نے4 مقامات پر حملے کیے۔ جس میں دو بچوں کی جان لے لی اور ایک طالبہ سمیت2 بچوں کو بری طرح زخمی کردیا۔ موضع معصوم پور ، چوبے پور ، پیر پور ، و بڑھانا پور کی دوری سات کیلو میٹر ہے اتنی طویل مسافت ان آدم خوروں نے صرف ڈیڑھ گھنٹے میں طے کرلی۔
     ایک طرف سیتاپور میں آدم خور کتوں نے زبردست سراسیمگی پھیلا رکھی ہے تو دوسری جانب پیلی بھیت اور لکھیم پور سے بھی بچوں پر کتوں کے ذریعہ حملہ کرنے کی خبریں آچکی ہیں لیکن سرکاری محاذ پر بے حسی چھائی ہوئی ہے۔ اسے حد درجے کی لاپروائی کہیں یاکچھ سیاسی لیڈروں سے بیجا خوف یا پھر ذمہ داری سے کنارہ کشی؟ انتظامیہ نے دعوے تو بہت کرڈالے لیکن عمل در آمد کچھ بھی نہیں ہوا۔یہی کتے جو کبھی انسانوں کے دوست ہوا کرتے تھے اچانک اب ان کے دشمن ہوچکے ہیں ایسے ہی نہیں 12بچوں کو نوالہ بنا چکے ہیں۔ کتے ابھی ایک، 2ماہ کے اندر باغی نہیں بنے  بلکہ گزشتہ برس ماہ نومبر سے انھوں نے حملہ کرنا شروع کیا تھا۔ اس کی شکایت گاؤں والوں نے اسی وقت کی تھی لیکن اس مسئلہ کو انتظامی امور کے افسران نے سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا۔ اب جبکہ ان کی اجتماعی کارکردگی سامنے آرہی ہے تب بھی وہ خواب خرگوش میں ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -اعظم گڑھ جلنے سے بال بال بچ گیا

شیئر: