Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ضمیر

***جاوید اقبال***
تو ثابت ہوتا جارہا ہے کہ جو گزشتہ والے کل میں تھا وہ آج میں بھی ہے اور وہ آئندہ والے کل میں بھی ہوگا۔ ساہی برادری نے مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرکے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ قومی اسمبلی کے رکن غلام رسول ساہی اور ان کے برادر عزیز صوبائی اسمبلی کے رکن اور سابقہ اسپیکر محمد افضل ساہی نے پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کو دی گئی اپنے استعفے کی دستاویز میں تحریر کیا ہے کہ ان کا ضمیر اب گوارہ نہیں کرتا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے رکن رہیں۔ 1970ء کے فروری کی بات ہے۔ اُن دنوں محمد افضل ساہی پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کررہے تھے۔ اسلامیہ کالج سول لائنز کے کریسنٹ ہاسٹل میں قیام تھا۔ بھٹو کا خمار ذہنوں پر سوار تھا۔ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ہاسٹل کے انتخابات میں حصہ لیا جائے۔ ہمارا ایک گروپ بن گیا۔ باقی سب نشستوں کے لیے تو امیدوار مل گئے ۔میس (MESS) ڈائریکٹر کے لیے تلاش جاری رہی۔ اچانک محمد افضل ساہی کا نام کسی نے سامنے رکھ دیا۔ کریسنٹ ہاسٹل میں زیادہ تر جنوبی پنجاب کے وڈیروں کے راہ گم کردہ بچے رہائش رکھتے تھے۔ بادشاہی مسجد کے اطراف کی پرُرونق آبادی سے قربت انہیں انتہائی عزیز ہوتی تھی۔ غروب آفتاب کے بعد ہاسٹل پر ہوُ کا عالم طاری ہوجاتا، رات گئے کچھ زندگی لوٹتی۔محمد افضل ساہی کی جیب بھاری تھی، اس لئے بخوبی انتخاب میں حصہ لے سکتا تھا لیکن ایک مشکل تھی۔ ساہی گفتگو کے فن سے نا آشنا تھا۔ کیسے ووٹر کو متاثر کرتا؟ چنانچہ فیصلہ ہوا کہ جب رات کے کھانے کے بعد ہمارا گروہ ووٹ مانگنے کے لیے کمروں کا راؤنڈ لگائے تو ساہی اپنے دائیں جبڑے پر رومال رکھ لے اور خاموش رہے۔ ہم بہانے کریں گے کہ امیدوار کے جبڑے میں درد ہے اس لیے وہ گفتگو نہیں کرسکتا۔ اگلی 2 راتیں ایسا ہی ہوا۔ ہم ووٹ کی طلب میں ہاسٹل میں گھومتے ، جبڑے پر رومال رکھے ساہی سر جھکائے ساتھ چلتا رہتا۔ ووٹر سے گفتگو کے دوران ہم اپنے امیدوار کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کرتے رہتے، اس کے جبڑے کی المناک صورتحال پر روشنی ڈال کر ووٹ کی صدا لگاتے۔ 2 راتیں بیت گئیں۔ ووٹر کے دل کی کون جانے لیکن بظاہر ہماری کامیابی یقینی ہوچلی تھی۔ تیسری رات ساہی غائب ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ گھر سے اچانک بلاوا آگیا تھا۔ جانا پڑا۔ وقت بہت کم تھا۔ ہم متبادل امیدوار لائے تو سہی لیکن انتخاب ہار گئے۔ ایک ہفتے کے بعد محمد افضل ساہی کی واپسی ہوئی۔ گھر میں حالات معمول پر آچکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ جبڑا بھی بصحت تھا۔ تو اب غلام رسول ساہی اور محمد افضل ساہی اچانک ضمیر کی آواز پر لبیک کہہ رہے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور اس سے پہلے مشرف کی حکومتوں سے کیا کیا نہ لیا۔ کھیلوں کی چوہدراہٹ اور اسمبلی کی اسپیکر شپ جیسے بلا شرکت غیرے قابل رشک عہدے! ضمیر ! ضمیر !
پنجاب کے وڈیروں کے قابل نفرت کردار کا تھوڑا ذکر ہوجائے! انہیں جاگیریں کہاں سے عطا ہوئیں ذرا یہ بھی دیکھ لیا جائے۔ 1857ء میں جب سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر دلی کے لال قلعے میں شکست خوردہ ، بے بس بیٹھے تھے تو ہمارے ان وڈیروں کے آباو اجداد تاج برطانیہ کا دم بھرتے انگریز فوج کی ہر طرح سے مدد کر رہے تھے۔ اس کے عوض لمبی لمبی جاگیریں ، انعامات ، سندیں اور خلعت ہائے فاخرہ وصول کررہے تھے۔ مزاری قبیلے کے سردار امام بخش مزاری نے کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا اور بدلے میں ’’سر‘‘ کا خطاب اور متعدد مراعات سے نوازا گیا۔ دریشک قبیلے کے سردار بجاران خان نے حریت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے دریشکوں کا ایک خصوصی دستہ انگریزوں کو بھیجا۔ اس قبیلے کو بھی انگریزوں نے متعدد مراعات دیں۔ ملتان کے معروف قریشی خاندان کے سربراہ شاہ محمود قریشی نے انگریز کمشنر کو مقامی آبادی میں پھیلنے والی بغاوت کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور سرکاری فوج کی مدد کے لیے 25 سواروں کی ایک ملتانی پلٹن تیار کرکے انگریزوں کو بھجوائی۔ اس کے بدلے میں اسے قیمتی جاگیر ، نقد انعام اور 8 کنویں زمین انگریز سرکار نے عطا کی۔ ملتان ہی کے گیلانی خاندان کے سربراہ اور گدی نشین مخدوم سید نور شاہ نے انگریزوں کی حمایت کے عوض خلعت اور سند کے علاوہ جاگیریں پائیں۔ ملتان کے گردیزی بھی پیچھے نہ رہے اور انہیں بھی خلعت و سند سے نوازا گیا۔ خانیوال کے ڈاہوں نے بھی انگریز سرکار کو اپنی جانثاری سے مسرور کیا۔ ممدوٹ بھی پیچھے نہ رہے۔ لاہور کے قزلباش سردار علی رضا نے ایک گھڑ سوار دستہ تیار کرکے جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے خلاف لڑنے کے لیے دہلی روانہ کیا۔ قزلباشوںکو ان خدمات کے عوض خطاب کے علاوہ سند اور وظیفے سے نوازا گیا اور بعد میں 147 دیہات پر مشتمل تعلقہ داری دے دی گئی۔ لاہور کے کلاں شیخ خاندان کے سربراہ شیخ امام الدین نے جنگ آزادی میں 2 دستے خصوصی طور پر انگریزوں کو دہلی بھجوائے جنہوں نے حریت پسندوں کا خون بہایا۔ اس کے عوض انگریزوں نے شیخ امام الدین کوبہت بڑی جاگیر بخشی۔ پنجاب کے چٹھ خاندان کے ایک بڑے زمیندار جان محمد نے انگریزوں کا ساتھ دینے کے عوض قیمتی جاگیر ، عہدے اور منصب پائے۔ کھرلوں کا وڈیرا احمد خان 1857ء میں انگریزوں کا جاسوس بنا رہا بدلے میں اسے خان بہادر کا خطاب ، خلعت اور وظیفہ کے علاوہ جاگیر عطا ہوئی۔ جھنگ کے سیال سرداروں نے انگریزوں کے مدد کے لیے ایک خصوصی فوج تیار کی ، انہیں جاگیریں اور خلعتیںملیں۔ سرگودھا کے انگریز پرست ٹوانوں کے گھڑ سواروں نے دہلی کی تسخیر میں ’’شجاعت‘‘ کے خوب جوہر دکھائے چنانچہ انہیں خطاب ، پنشن اور لمبی چوڑی جاگیریں عطا ہوئیں۔ اسی قسم کی غدارانہ خدمات کے عوض انگریزوں نے نونون ، پنڈدادنخان کے کھوکھروں ، جہلم کے راجوں ، اٹک کے گوندلوں ، گھیبوں ، کٹھڑوں ، خانوں ، مکھڈ شریف کے پیروں ، اعوانوں ، کالا باغ کے نوابوں ، عیسیٰ خیل کے نیازیوں اور متعدد غداروں کو سرفراز کیا۔ کتنا بدنصیب ہے ہمارا وطن کہ جنگ آزادی کے شہیدوں کے ساتھ غداری کے بل پر فرنگی دور میں سر بلند ہونے والوں کی اولاد آج بھی ’’ممتاز‘‘ اور ’’معزز‘‘ہے اور اقتدار جس کرسی پر جا بیٹھے اس کا پایہ جا پکڑتی ہے ۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے جنوبی پنجاب کے وڈیروں نے مسلم لیگ (ن) سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اور پاکستان تحریک انصاف میں جا گھسے ہیں۔ اقتدار کے ہُما کی پرواز کا رخ پہچان جانے والے یہ اقتدار و جاہ پرست نہ میاں نواز شریف سے مخلص تھے اور نہ عمران خان کو عزیز رکھتے ہیں۔ یہ لوگ وطن پرست ہیں اور نہ محب قوم ! عمران خان یاد رکھیں ! اگر انہوں نے ایسے لوگوں کے لیے اپنی جماعت کے دروازے کھولے جن کے آبا و اجدادجنگ آزادی کے شہداء کے لہُو سے رنگی خلعتیں عطا و کرم میں حاصل کرتے رہے تھے تو بہت جلد پی ٹی آئی بھی اس المناک تاریخ کا ایک باب بن جائے گی۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں