Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روزہ رکھنے کے لئے نیت ضروری ہے؟

’’ میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی‘‘یہ الفاظ نبی اکرم نے نہ خود کہے نہ تعلیم فرمائے نہ صحابہؓ سے منقول ہیں
 
 * * *محمد منیر قمر۔ الخبر* *  *
  ہر شرعی کام کیلئے نیت ضروری ہے ۔ ارشادِ نبوی ہے:
    ’’اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔‘‘
    روزہ بھی چونکہ ایک دینی فریضہ ہے لہٰذاسکے لئے بھی نیت ضروری ہے ۔ ارشادِ نبوی ہے:
    ’’جس شخص نے فجر سے پہلے پہلے روزے کی نیت اور پختہ ارادہ نہ کیا،اسکا کوئی روزہ نہیں۔‘‘(ابوداؤد وترمذی)۔
    ابن ماجہ ودارقطنی اور ابن ابی شیبہ میں ہے:
    ’’اس شخص کا کوئی روزہ نہیں جو رات کو اسکا پختہ ارادہ و نیت نہ کرے۔‘‘
    ان اور ایسی ہی بعض دیگر احادیث سے رات کے وقت یا قبل از فجر روزے کی نیت کرلینے کی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ نیت کیا ہے؟ نیت محض دل کاقصد و ارادہ ہے اور اسے ادا کرنا (تلفظ)ثابت نہیں خصوصاً نماز، روزہ اور غسل و وضووغیرہ کی نیت زبان سے کرنا نبی اکرم ،خلفائے راشدینؓ اور عام صحابہؓ  اور تابعین کرامؒ و ائمہ عظام ؒمیں سے کسی سے بھی منقول نہیں البتہ حج وقربانی اور عمرہ کی نیت کا تلفظ (زبان سے ادا کرنا) ثابت ہے۔   
    جن اعمال کیلئے زبانی نیت ثابت ہے ان کی نیت تو زبان سے کی جاسکتی ہے جبکہ جنکی ثابت نہیں ان کی نیت بھی زبان سے کرنا  صحیح نہیں۔اتباعِ سنت و اطاعتِ رسول یہی ہے کہ جہاں آپ نے کچھ کیا وہاںآپ بھی کریں اور جہاں آپ نے کچھ نہیں کیا وہاں آپ بھی کچھ نہ کریں۔
     بعض کتابوں میں عموماً روزہ رکھنے کی جونیت لکھی ہے کہ’’ میں نے رمضان کے کل کے روزے کی نیت کی‘‘یہ الفاظ نبی اکرم نے نہ خود کہے اور نہ تعلیم فرمائے۔یہ نہ خلفاءؓ وصحابہؓ سے منقول ہیں اور نہ ہی تابعینؒ وائمہؒ  میں سے کسی سے ثابت ہیں۔ کتب حدیث و فقہ کا سارا ذخیرہ چھان ماریں یہ الفاظ کہیں نہیں ملیں گے اور جن بعض عام سی کتابوں میں ملیں گے ان میں بھی قطعاً بے سند مذکور ہونگے۔ معلوم نہیں کہ یہ الفاظ کس نے جوڑ دیئے ہیں۔ویسے اگر تھوڑے سے غور و فکر سے کام لیا جائے تو خود ان الفاظ میں ہی انکے جعلی ومن گھڑت ہونے کی دلیل موجود ہے۔ سحری کھانے سے قبل یہ کہنا کہ ’’ میں نے کل کے روزے کی نیت کی‘‘ تو یہ قول واقع اور حقیقت کے خلاف ہے کیونکہ فجر تو ہوچکی اور یہ روزہ جسکی وہ سحری کھانے لگا ہے کل کا نہیں بلکہ آج کا ہے لہٰذایہاں’’ وَبِصَوْمِ الْیَوْمِ ‘‘جیسے الفاظ ہونے چاہئیں تھے کہ’’ میں نے آج کے روزے کی نیت کی‘‘ کیونکہ کتب لغت میں غَدٍ  کا معنیٰ آئندہ کل یا وہ دن جسکا انتظار ہے۔
    نیت کے مروجہ الفاظ جہاں شرعاً ثابت و جائز نہیں وہیں لغوی اعتبار سے بھی صحیح نہیں لہٰذا دل کی نیت اور قصد وارادے پر اکتفا کرنا ہی بہتر ہے اور یہی ثابت بھی ہے۔اس مسئلہ کو اور بھی آسان طریقہ سے سمجھنے کیلئے لفظ نیت کے لغوی وشرعی معنیٰ کا علم بہت ضروری ہے لہٰذا آپ القاموس المحیط فیروزآبادی،الصحاح للجوہری،مختار الصحاح رازی یا دوسری کوئی بھی لغت کی کتاب اٹھا کردیکھ لیں یا المنجدہی کھول لیں’’ ن،و،ی ‘‘کے مادہ سے بننے والے کلمات کے سلسلہ میں نویٰ الشئی کا معنیٰ ومفہوم واضح کرنے کیلئے’’ اَ  یْ  قَصَدَہٗ وَعَزَمَ عَلَیْہِ‘‘  اس سے ملتے جلتے الفاظ ملیں گے یعنی کسی کام کا قصدوارادہ اور اسکا عزم کرنا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ دل کے افعال ہیں نہ کہ زبان کے۔
    رہا نیت کا شرعی معنیٰ تو اس سلسلے میں اہل علم نے مختلف الفاظ سے ایک ہی بات کہی ہے جو حافظ ابن حجر کے الفاظ سے ملتے جلتے ہیں جو انہوں نے نیت کے شرعی مفہوم کو بیان کرنے کیلئے فتح الباری میں لکھے ہیں چنانچہ وہ رقمطراز ہیں:
    ’’شریعت نے نیت کے الفاظ کو رضائے الٰہی کیلئے کسی کام کے ارادے کے ساتھ خاص کردیا ہے۔‘‘
    گویا اعمال میں قلبی نیت(اور قصد وعزم) کا اعتبار ہوگا۔زبان سے کہے ہوئے الفاظ خصوصاً جبکہ وہ خودساختہ ہیں معتبر نہیں ۔کبار ائمہ دین کی تصریحات سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ نماز وروزہ وغیرہ کی نیت کو زبان سے ادا کرنا خودساختہ ومن گھڑت فعل ہے چنانچہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ  اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں:
    ’’جہری( زبان سے) نیت نہ واجب ہے نہ مستحب،نہ امام ابوحنیفہ ؒکے مذہب میں اور نہ ہی دیگر ائمۂ اسلام میں سے کسی کے مذہب میں بلکہ وہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ جہری نیت جائز نہیں ۔جو ایسا کرتا ہے وہ خطاکار ہے اور مخالفِ سنت بھی۔اس پر تمام ائمۂ دین کا اتفاق ہے۔‘‘
    اس کے علاوہ بھی شیخ الاسلام نے متعدد دیگر مقامات پر کئی سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے زبان سے نیت کرنے کے عدمِ جواز اور اسکی کراہت وبدعیت کا تذکرہ کیا ہے اور بتایا کہ:
    ’’نیت کا مقام دل ہے نہ کہ زبان اور تمام ائمۂ اسلام کا تمام عبادات میں ایسی ہی نیت کے بارے میں اتفاق ہے۔‘‘
    علامہ ابن قیم ؒ  نماز کیلئے زبان سے نیت کرنے کے بارے میں لکھتے ہیں:
    ’’نبی اکرم جب نمازکیلئے کھڑے ہوتے تو صرف اللہ اکبر کہتے۔اس سے پہلے(نیت وغیرہ کیلئے) کچھ نہ کہتے تھے اور نہ ہی زبان سے نیت کے الفاظ نکالتے تھے۔‘‘
    علامہ موصوف مروجہ نیت کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ کسی صحیح تو کیا کسی ضعیف حدیث میں بھی اور مسند تو کیا کسی مرسل حدیث میں بھی نبی سے ثابت نہیں بلکہ یہ تو صحابہ کرام ؓ میں سے بھی کسی سے منقول نہیں اور نہ ہی تابعین اور ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اسے مستحسن کہا ہے۔
     نماز یا روزے کی نیت کے بارے میں یہ بات امام نوویؒ ، امام ابن تیمیہؒ ، ابن قیم ؒاور دیگر محقق علماء کے کہنے تک ہی محدود نہیں بلکہ کسی حدیث سے اس کا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے علماء و فقہائے احناف بھی زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنے کو معتبر شمار نہیں کرتے۔ معروف حنفی عالم مشکوٰۃ شریف کی فارسی شرح ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں نماز کی نیت کے بارے میں لکھتے ہیں:    ’’علماء کا نماز کی نیت کے بارے میں اختلاف ہے جبکہ اس امر پر سبھی متفق ہیں کہ جہراً نیت کرنا تو نا جائز ہے۔ اختلاف اسمیں ہے کہ لفظوں (زبان سے ) نیت کرنا نماز کے صحیح ہونے کی شرط ہے یا نہیں؟ اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ شرط نہیں اور اسے شرط ماننا غلط ہے۔‘‘
    فقہ حنفیہ کی معروف کتاب ہدایہ کے باب شروط الصلوٰۃ میں علامہ برہان الدین مرغینانی لکھتے ہیں:
    ’’نیت ارادے کا نام ہے اور شرط یہ ہے کہ آدمی دل سے جانتا ہو کہ وہ کونسی نماز پڑھ رہا ہے۔رہا زبان سے نیت کرنا تو اسکا کوئی اعتبار نہیں۔‘‘
    ایسے ہی کبار علمائے احناف میں سے مولانا عبد الحئی لکھنوی ؒ عمدۃ الرعایۃ، حاشیہ شرح وقایہ میں لکھتے ہیں:
    ’’بالاتفاق دل سے نیت کرلینا ہی کافی ہو جاتا ہے اور نبی اکرم  اور آپ کے صحابہ کرام ؓسے یہی طریقہ منقول اور مسنون و ماثور ہے اور یہ کہنا کہ میں نے فلاں نماز اور فلاں وقت کی نیت کی یا کرتا ہوں یہ کسی ایک سے بھی منقول نہیں۔ ‘‘
    علمائے احناف کی کتب کے ان اقتباسات کا مفاد یہی ہے کہ عبادات خصوصاً نماز وروزہ کی مروجہ نیت سراسر خانہ ساز ہے۔ ان میں سے بعض نصوص صرف نماز کی زبان سے نیت کے بارے میں ہیں جبکہ نماز کی طرح روزے کی نیت بھی ہے اور جس طرح نماز کیلئے یہ نیت کرنا ثابت نہیں کہ میں نے فلاں نماز کی اتنی رکعتوں کی نیت کی اور اس نماز کے قبلہ رو ہوکر پڑھنے اور امام کی اقتدامیں یا انفرادی طور پر پڑھنے کی صراحتیں منقول نہیں بالکل اسی طرح ہی روزے کی نیت بھی قطعاً ثابت نہیں بلکہ یہ جعلی وبناوٹی اور خانہ ساز ومن گھڑت چیز ہے۔
مزید پڑھیں:- - - -شعبان،استقبال رمضان کا مہینہ

شیئر: