Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا انتخابی مہم میں نئے اتحاد بنیں گے؟

***صلاح الدین حیدر***
کہتے ہیں کہ سیاست میں کوئی بات حتمی نہیں ہوتی، کل کے دشمن آج کے دوست ہیں ۔ دوسرے الفاظ میں دیکھا جائے تو یہ اصولوں کی نہیں بلکہ منافقت کی جنگ ہے جو کہ شطرنج کی بساط پر کھیلی جاتی ہے، جہاں ایک کھلاڑی دوسرے کو صرف مات دینے کی ہی سوچتاہے ۔پرانی انگریزی کہاوت ہے کہ ’’  everything is  fair in love and war ‘‘۔اصول گئے بھاڑ میں ، اقتدار کیسے حاصل کیا جائے، بس یہ ہے سارا کھیل، تو ظاہر ہے کہ اگر نواز شریف نے مجھے کیوں نکالا کا نعرہ چھوڑ کر، ووٹ کو عزت دو کا نیا نعرہ بنایااوراپنایا تو اسے غلط تو نہیں کہہ سکتے لیکن جو بات وہ بھول گئے وہ تھی ووٹر کو عزت دو گے تو ووٹ کو عزت ملے گی۔ نواز شریف مجمع تو بہت بڑا لگالیتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی صاحبزادی مریم ان سے بھی آگے ہوتی ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نواز شریف مریم سے ہی سبق لیتے ہیں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ نواز شریف کے بارے میں اکثر کہا جاتاتھا کہ وہ بہت کم گو ہیں۔پہلے تو بہت کم بولتے تھے، لیکن 7سال کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آکر انہوںنے پینترا بدلا اور خاصا جارحانہ طرز تخاطب اختیار کیا جس سے ان کی قائدانہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں جس سے انہیں اپنا نقطہ نظر عوام الناس کے سامنے پیش کرنے میں بہت مدد ملی۔
لیکن عوامی اجتماعات کی بات کی جائے تو ایم کیو ایم کے پردے سیمیں سے غائب ہونے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہی نواز کے سب سے بڑے مخالف نظر آئے۔ 28جولائی سے پہلے جب انہیں سپریم کورٹ نے نااہل کیا تھا اور اس کے بعد جب وہ جی ٹی روڈ پر 36گھنٹے کا جلوس نکالنے میں کامیاب ہوئے تو انہیں اپنی طاقت کا اندازہ ہوا اورہمیں آج کل ایک بالکل مختلف نواز شریف نظر آتے ہیں،چیخ و پکار ،سخت جملے ، جوشِ خطابت 2007کے بعد پوری طرح امڈ آیا ہے۔ جوشیلی تقریر ، مجمع کا ماحول گرمانے کے انداز یہ سب ان کے لیے یقینا باعث مسرت ہوگا لیکن کوئی بھی تقریر اور آج کل تو ان تقاریر کی بھرمار ہے، ایسی نہیں ہوتی، جس میں عمران خان ان کا ہدف خاص نہ ہوں۔ عمران نے آج سے 22سال پہلے کرپشن کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کیا جو کہ فوراً ہی عوام میں مقبول ہوگیا، لیکن نواز نے کمالِ ہوشیاری سے اسے اپنا لیا۔دوسرے الفاظ میں اسے ہائی جیک کرلیا۔ اسی طرح پانامہ لیکس پر عمران نے شور مچایا ۔عدالت عظمیٰ میں درخواست بھی دائر کی ، لیکن پھر جماعت اسلامی ، شیخ رشید ، اور کئی ایک لوگوں نے نہ صرف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا بلکہ جلسے جلوس میں بھی نواز شریف کی بدعنوانیاں موضوعِ عام بن گئیں۔پھر بھی اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود نواز اور مریم کے اعصاب پر عمران ہی سوار ہیں۔بات تو پھر صاف ہوجاتی ہے کہ (ن)لیگ کو صرف پی ٹی آئی سے ہی خطرہ ہے۔ مبصرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ مرکزی اور جنوبی پنجاب میں ن لیگ اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہوں گے۔ 
پیپلز پارٹی بے نظیر کی موت کی وجہ سے 2008میں ہمدردی کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور پیپلز پارٹی نے مرکز اور بلوچستان میں حکومتیں بنائیں۔ زرداری صاحب صدر بن گئے لیکن جہاں انہوںنے کچھ بہت اچھے کام کیے ، ایک تو آرٹیکل 58(2-b)کا خاتمہ تھا ۔ آرٹیکل کے تحت صدرمملکت کو اختیار حاصل تھا کہ وہ وزیر اعظم کوبہ یک جنبش قلم اقتدار کی کرسی سے ہٹا دے بلکہ اس پر الزامات بھی لگا دے تاکہ ہٹائی جانے والی حکومت عدالتوں کے چکر لگاتی رہے۔ دوسرا  بڑا کام زرداری نے 18ویں ترمیم کر کے صوبے کو نام نہاد ہی سہی ، خودمختاری، دلوادی۔ یہ بہت پرانا مطالبہ تھا جو کہ پورا کیا گیا، اور پشتون بھی خوش تھے کہ ان کا صوبہ انگریزوں کے دئیے گئے نام کے بجائے ان کی لسانی شناخت بنا اور خیبر پختونخوا کہلایا ۔ زرداری کے یہ 3 بہت بڑے کام تھے، لیکن انتظامی امور میں صفر ،رشوت کا بازار گرم ہوگیا اور ملک پستی کی جانب گرتا چلا گیا ۔
پٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اور روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں 108تک جا پہنچی۔ مشرف کے زمانے میں یہ 62 روپے کا تھا۔سننے میں تو یہی آرہاہے اور کچھ مبصرین اس سے متفق بھی ہیں کہ نواز دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ کرنے کے چکر میں پیپلز پارٹی کی خوشامد میں لگے نظر آرہے ہیں۔کیا دونوں میں اتحاد ہوگا یا پھر زرداری اپنی بات پر اڑے رہیں گے کہ ن لیگ سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ہی ان کی بہتری ہے۔ 
عمران خان ہمیشہ ہی سولو فلائٹ کے عادی رہے لیکن اب شاید انہیں اتحادیوں کی ضرورت پڑے، اس لیے کہ ن لیگ کا تو شیرازہ بڑی حد تک بکھرنے لگا ہے۔روزکوئی نہ کوئی ن لیگ کا ایم این اے یا ایم پی اے ، پی ٹی آئی یا پیپلزپارٹی میں شامل ہوجاتاہے۔ظاہر ہے کہ پنجاب میںآرمی کو برا کہا یا تنقید کا نشانہ بنایا تو عوام کو پسند نہیں آئیگا ۔آرمی کی بڑی اکثریت پنجاب سے تعلق رکھتی ہے۔ عمران نے بھی آرمی اور اعلیٰ عدلیہ کی حمایت میں پارٹی کو کھڑا کردیا ہے ،عین ممکن ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی اتحاد بنا لیں، یا پھر پی ٹی آئی کراچی میں جہاں ایم کیو ایم اس وقت بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہے۔ مصطفی کمال کی پاک سر زمین پارٹی سے ہاتھ ملا لیں اور کراچی کی نشستوں پر بھی ان کی صوبہ سندھ میں کچھ نہ کچھ تو نمائندگی ہوجائے۔ویسے تو 2013میں پی ٹی آئی نے ایک ایم این اے اور 3 ایم پی اے کی نشستیں جیتی تھیں، اور پھر دوبارہ بھی جیت سکتی ہے،عمران کے جلسے کراچی اور صوبہ سندھ میں بڑے اچھے ہوئے ہیں۔
خبیرپختونخوا میں متحدہ مجلس عمل(MMA) جس نے 10سال بعد دوبار ہ جنم لیا ہے فضل الرحمن اور جماعت اسلامی رنگ دکھائیںگی لیکن عمران کے پی کے میں بہت مقبول ہیںاور قوی امید ہے کہ وہ دوبارہ کے پی کے میں حکومت بنائیں، بلوچستان میں ایک نئی پارٹی عوامی پارٹی نے سر ابھارا ہے، اس کی حکومت بھی قائم ہوچکی ہے بلکہ اب تو سینیٹ کا چیئر مین بھی بلوچستان سے ہے، تو پھر نواز لیگ تو گئی، پنجاب میں مشکلات کا سامنا، ٹوٹ پھوٹ کے آثار، راولپنڈی میں چوہدری نثار ،شاید شہباز شریف کے کہنے پر (ن)لیگ سے  انتخابات لڑیں لیکن عام خیال یہی ہے کہ آزاد امید وار بڑی تعداد میںمنتخب ہوں گے، تو پھر منڈی بہائو الدین میں بھائو کھل جائیگا اور قیمت لگانے والے ممبران کیا قوم خدمت کریں گے۔ باریک بینی سے دیکھا جائے تو پارلیمنٹ میں کسی ایک پارٹی کی اکثریت نہیں دکھائی دیتی، نئے اتحا د بنیں گے اور coalitionحکومت ہوگی۔ کس پارٹی کو فوقیت ہوگی یہ کہنا مشکل ہے۔ 
 

شیئر: