Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی چٹانوں پر تاریخی نقوش

زاھی حواس ۔ الشرق الاوسط
      پتھروں اور چٹانوں پر نقوش کی تاریخ 10ہزار برس سے زیادہ کہیں پرانی ہے۔ چند ماہ قبل ہی مصرمیں ماہرین آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کے اسکالرز کو انتہائی اہمیت کی حامل ایسی چٹانیں ملی ہیں جن پر تاریخی نقوش مرتسم ہیں۔ یہ نقوش والی چٹانیں امریکہ کی بل یونیورسٹی کے ماہر آثارقدیمہ جان ڈارنیل نے جنوبی مصر کے الکاب شہر کے قریب دریافت کی ہیں۔ یہ ادفو کے پڑوس میں واقع ہیں۔امریکی اسکاکر کے اس انکشاف نے مصر قدیم میں رسم الخط کے ارتقا ءکے طریقہ کار سے متعلق بھی انتہائی اہم تصورات دیئے ہیں۔ اس سے یہ بھی باور ہوا ہے کہ مصری اس قسم کے رسم الخط کے موجد تھے اور اس سلسلے میں وہ اپنی ایک انفرادی پہچان رکھتے تھے۔ اہل مصر نے ہیرو گلیفی زبان ایجاد کی تھی۔ حال ہی میں دریافت ہونے والے نقوش کی تاریخ 3250قبل عیسوی کی ہے۔ اس انکشاف کو 2017ءکے دوران دنیا کے 10اہم ترین تاریخی انکشافات کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔
      انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب میں اسی قسم کے نقوش والی چٹانیں اور اسی معیار کی تحریروں والی چٹانیں دریافت ہورہی ہیں اور ہمیں اس کی بابت کچھ پتہ نہیں۔ یہ افسوس کا مقام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب میں منعقش چٹانوں کے انکشافات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمیں ان پر روشنی ڈالنا ہوگی۔ سعودی محکمہ سیاحت و قومی ورثے کے سربراہ شہزادہ سلطان بن سلمان نے اس حوالے سے جو مشہور بیان دیا ہے وہ بجا و برحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”آثار قدیمہ کو گڑھوں سے نکالو“۔ حق و سچ یہی ہے کہ ماہرین آثارقدیمہ کا فرض ہے کہ وہ زیر زمین دفن سعودی عرب کے آثار قدیمہ سے عالمی رائے عامہ کو روشناس کرائیں۔ 2001ءکے دوران بعض منعقش چٹانیں دریافت ہوئی تھیں، گویا ان پر ایک عرصہ بیت چکا ہے لیکن ابھی عالمی رائے عامہ ان سے صحیح معنوں میں آگاہ نہیں ہوسکی ۔اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ میں ماہر آثار قدیمہ ہوتے ہوئے بھی انکی بابت پہلی بار سن رہا ہوں۔ یہ منعقش چٹانیں جبہ اور لشویمس کے نام سے معروف مقام پر دریافت ہوئی ہیں۔ انہیں ماہر آثار قدیمہ نے دریافت نہیں کیا بلکہ انہیں دریافت کرنے والے بعض بادیہ نشین تھے جنہوں نے وہاں سے گزرتے ہوئے ان چٹانوں کو دیکھ کر ان کے نقوش سے متاثر ہونے کے بعدانکی اطلاع دی۔
      مجھے یاد آتا ہے کہ نوجوانی کے زمانے میں یمن جانا ہوا تھا۔ وہاں میں نے یمن کے دوسرے بڑے صوبے میں موجود آثار قدیمہ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اُس زمانے میں پہاڑوں میں آباد بدوﺅں سے ملاقات کرکے میں ایک سوال کیا کرتاتھا۔ ”بھائی ذرا یہ تو بتاﺅ کہ اس علاقے میں جنات کے مسکن کہاں ہیں؟
      اس عنوان سے صنعاءسے متصل علاقے میں بہت سارے تاریخی مقامات بدوﺅں کی بدولت دریافت ہوسکے۔ مجھے شہزادہ سلطان بن سلمان نے بتایا کہ جبہ او ر الشویمس کی منعقش چٹانوں کا تعلق حجری دور سے ہے تاہم ماہرین آثار قدیمہ اب تک انکی حقیقی تاریخ متعین نہیں کرسکے ۔ یہ انسانوں ، جانوروں اور جنگی معرکوں کے نقوش پر مشتمل ہیں۔ ایک طرح سے چٹانوں پر نظرآنے والے نقوش اوپن میوزیم کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب کی تاریخ غیر معمولی قدیم ہے۔ حقیقی تاریخ کا ریکارڈبنانے کیلئے بڑے پیمانے پر تاریخی کھدائیوں کی اشد ضرورت ہے۔قدیم انسان لکھنے پڑھنے سے ناواقف تھا۔ وہ تصاویر کے ذریعے اپنے اندرون کا اظہار کیا کرتاتھا۔
      شہزادہ سلطان نے مجھے یہ بھی بتایا کہ یہ نقوش یونیسکو کے عالمی ورثے میں شامل کرلئے گئے ہیں۔ الشویمس کے قریب نقوش غاروں پر ہیں۔ اونٹوں ، گایوں ، پرندوں اور کبوتروں وغیرہ کی شکلیں بنی ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں راطا اور المنجور میں بھی بہت سی ایسی چٹانیں ملی ہیں جن پر نقوش ہیں۔ وہاں ایک آدمی کی تصویر بنی ہوئی ہے جو کمان اور تیر ہاتھ میں لئے ہوئے ہے او راسکے سامنے ہرن بھاگ رہا ہے۔ چٹانوں پر ثمودی دور کے نقو ش بھی دریافت ہوئے ہیں۔ 13قسم کے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ 2ہزار سال پرانے ہونگے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سعودی تاریخ کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ بڑے پیمانے پر تاریخی کھدائیاں ہوںاور ہمیں یہ بھی معلوم ہو کہ یہ آثار قدیمہ رائے عامہ کے سامنے کس طرح بہترشکل میں پیش کئے جاسکتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

                         

 

شیئر: