Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مکہ خوراک اسمارٹ منصوبہ ، وژن 2030کی طرف پیشرفت

فاتن محمد حسین ۔ مکہ
             حج ، عمرہ اور زیارت پر ریسرچ کا 18واں علمی فورم 2روز تک مکہ مکرمہ میں جاری و ساری رہا۔ اس دوران حج ، عمرہ اور زیارت کے مسائل سائنٹفک بنیادو ںپر حل کرنے کیلئے دسیوں تحقیقی مقالے اور گہرے مطالعہ جات پیش کئے گئے۔2روزہ فورم میں جتنا کچھ پیش کیا گیا اور جتنے موضوعات پر مباحثے ہوئے وہ غیر معمولی تھے۔ چشم کشا حقائق پر مشتمل تھے۔ اس مناسبت سے ایک بڑا خوبصورت پروگرام ” مکہ خوراک اسمارٹ منصوبہ“ پیش کیا گیا۔ اس پر باقاعدہ فورم منعقد ہوا۔ اوکیشیا میں اس کا اہتمام ہوا۔ شرکاءکا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مکہ مکرمہ ریجن وژن 2030 کو حاصل کرنے کیلئے بین الاقوامی اقتصادی مرکز اور تیل کے ماسوا اشیاءکا اسٹراٹیجک مخزن بن جائے۔
            مکہ خوراک اسمارٹ منصوبے کی بدولت مقدس شہر میں ایک صنعتی مرکز قائم ہوگا۔ یہ 303ملین مکعب میٹر کے رقبے پر قائم کیا جائیگا۔ اس پر غیر معمولی سرمایہ لگے گا۔مستقبل میں یہ بین الاقوامی پل کاکام انجام دے گا۔ یہاں کھانے پینے کی اشیاءتیار کرنے والے کارخانے کھولے جائیں گے، گودام ہونگے، کولڈ اسٹوریج ہونگے۔ یہ سارے کام ترقی یافتہ ٹیکنالوجی اور عصری اسلوب میں انجام دیئے جائیں گے۔ 5اہم ادارے اس منصوبے کے شریک ہونگے۔ وزارت حج و عمرہ ، وزارت اسلامی امور، وزارت بلدیہ و دیہی امور، وزارت محنت و سماجی فروغ ، مکہ مکرمہ گورنریٹ اور مکہ میونسپلٹی اس منصوبے کا حصہ ہونگے۔
             مکہ اکنامک فورم کی ساری کارروائی براہ راست دکھائی گئی۔ وزیر حج و عمرہ ڈاکٹر صالح بنتن اسکے نمایاں ترین مقرر تھے۔ انہوں نے حج و عمرہ موسم میں سرمایہ کاری کی اہمیت اور مقامات مقدسہ سے استفادے کیلئے اچھوتے افکار کو اجاگر کیا۔ انہوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے متعلق استفادہ تصورات پیش کئے۔ انہوں نے ایک دلچسپ بات یہ کہی کہ مقدس شہروں کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اگر مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کی ہوا بوتلوں میں بند کرکے بین الاقوامی شہروں او رہوائی اڈوںپر فروخت کی جائے تو لوگ آگے بڑھ کر اسے خریدیں گے۔
            مجھے وزیر حج و عمرہ کی اس بات سے100 فیصد اتفاق ہے کہ مکہ مکرمہ میں سرمایہ کاری لازوال دریا کی حیثیت رکھتی ہے جس کے سوتے کبھی خشک نہیں ہوسکتے۔ یہاں میں انتہائی اہم اصولی پہلو کی جانب توجہ مبذول کرانا مناسب سمجھتی ہوں ۔ بات یہ ہے کہ حج موسم میں مذابح کافضلہ ضائع جارہا ہے۔ ابھی تک اس سے استفادے کا کوئی منصوبہ تیار نہیں کیا گیا۔ نئے فورم میں حج 1438ھ کے دوران مذابح کے سیال فضلے سے محفوظ چھٹکارا حاصل کرنے والے تجربے پر ایک مقالہ بے شک پیش کیا گیا اور اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی کہ یہ سیال فضلہ وادی ”فج الحرمان“ میں ضائع کردیا جاتا ہے جس سے ماحولیاتی اور صحت خطرات پیدا ہورہے ہیں۔ یہ وہ وادی ہے جہاں آئی ڈی بی کے ماتحت قربانی گوشت استفادہ اسکیم کا سیال اور ٹھوس فضلہ ڈالا جارہا ہے۔ اس تناظر میں مذکورہ فضلے سے سائنٹفک بنیادوں پر نجات حاصل کرنے کی تجاویز پیش کی گئیں۔
            حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ جائزہ سن کر پڑھ کر مجھے صدمہ پہنچا۔ آخر ہم انتہائی اہم منصوبہ اس حوالے سے کیوں شروع نہیں کررہے۔ جانوروں کا فضلہ غربت، بھوک اور ترقی کے بہت سارے مسائل کا بہترین حل ہے۔1438ھ کے دوران 750ہزار جانور منیٰ میں ذبح کئے گئے۔ انکے سر ، کلیجی، گردے ، ضائع کردیئے گئے۔ انکی چرمیں، بال، سینگ وغیرہ سب ضائع کردیئے گئے۔ یہ عمل دسیوں بلکہ سیکڑوں برس سے سالانہ ہورہا ہے۔ آخر ہم اس ضیاع سے ہونے والے بھاری خسارے کے حجم کا ادراک کب کریں گے؟ کاش ہمیں اسکی عقل آئے اورہم اپنی ذہانت اور تجربے کو استعمال کرکے اس عظیم الشان خزانے سے بھرپور استفادے کیلئے ترقی یافتہ کارخانے قام کریں۔ ترقی یافتہ ممالک جانوروں کے بہائے جانے والے خون اور ہڈیوں تک سے استفادہ کرتے ہیں اوربین الاقوامی بازاروںمیں اس کے ذریعے نہ جانے کتنی دولت کماتے ہیں۔
            میری آرزو ہے کہ مکہ خوراک اسمارٹ منصوبے میں مذابح کے فضلے سے استفادے کو بھی شامل کیا جائے۔ بین الاقوامی معیار اور جدید ٹیکنالوجی کے مطابق یہ کام انجام دیا جائے تاکہ مکہ مکرمہ حقیقی معنوں میں مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا اقتصادی شہر بن جائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: