Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زمین گول نہیں

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
            حال ہی میں برطانیہ میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی۔ اسکا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ زمین گول نہیں۔ اس کا مضحکہ اڑایا گیا۔ گزشتہ برس بھی برطانیہ میں اسی قسم کی کانفرنس ہوئی تھی جس میں جدید علوم کے نام نہاد علماءشریک ہوئے تھے تاہم ان کی گفتگو کا محور دینی تھا اور دینی بھی وہ جو جدید ٹیکنالوجی سے طے ہوجانے والے مسئلے اور سائنسدانوں کے پیش کردہ ثبوتوں کے سراسر خلاف تھا۔
            کانفرنس میں زمین کے گول نہ ہونے کے دعویداروں نے پرانے نظریات سے استدلال کیا۔ انہوں نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زمین سپاٹ ہے اور اس کے برخلاف جو باتیں کررہے ہیں وہ اُس کے سپاٹ ہونے کے خلاف سازش میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ آج تک کوئی بھی انسان چاند پر نہیں اترا اور امریکی خلائی ایجنسی ناسا سوویت یونین کے خلاف امریکیوں کا ایجاد کردہ ایک پروپیگنڈہ ادارہ ہے۔ زمین گول نہیں ۔ ایڈز کا مرض بھی ایک جھوٹ ہے جبکہ کینسر تجارتی اغراض و مقاصد کیلئے لیباریٹری کی پیداوار سے زیادہ کچھ نہیں۔
            اس طرح کے لوگ مغربی دنیا میں بہت کم ہیں۔ بھاری اکثریت مزا لینے ا وردل کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے انکی ہاں میں ہاں ملاتی ہے۔ خلا کی دریافت اور اسے سر کرنے کے منصوبے مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔
            ہماری دنیا میں دستِ بالا سائنس کو حاصل ہے۔ سائنس ہی پوری دنیا کو کامیاب ترین ، ناکام ترین ، قاصر اور قادر عطا کرنے اور عطا کئے جانے ، عسکری اعتبار سے طاقتور ترین اور ضعیف ترین میں تقسیم کرتی ہے۔
             کوئی بھی معاشرہ جامع سائنسی منصوبے کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ خوشحالی ، ترقی کیلئے لازم نہیں۔سائنسی کوتاہی کی وجہ سے ہی ہم پسماندہ ہیں۔ ہمارے ہوائی اڈے کتنے بھی وسیع و عریض کیوں نہ ہوجائیں،ہمارے شہر کتنے بھی کیوں نہ پھیل جائیں،ہمارے یہاں شاہراہوں کا جال کتنا بھی نہ بڑھ جائے، ہمارے یہاں خدام اور دنیا بھر سے لائے جانے والے ملازموں کی تعداد میں بھیانک اضافہ کیوں نہ ہوجائے، یہ سارے کے سارے عمارتی ، تمدنی ، ترقیاتی منصوبے ہیں۔ ایسے منصوبے جن کا سائنسی ترقیاتی منصوبے سے کوئی تعلق نہیں جبکہ سائنسی منصوبہ ہی زبردست علوم کی تعلیم اور ترقی کا باعث بنتا ہے بلکہ یہی آسان خوشحالی کو یقینی بنانے کا باعث ہوتا ہے۔
            سائنسی ترقی کے منکرین اور اس میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے موجود ہیں۔ یہ ہماری زندگی کا اٹوٹ حصہ بنے رہیں گے۔ یہ الگ بات ہے کہ اب اس قسم کے لوگ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ۔ ماضی_¿ قریب تک کے لوگ سائنسی تعلیم کی مخالفت صرف اسلئے کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں سائنس سے دین و ایمان کو خطرہ محسوس ہوتا تھا۔
            ہمیں قدیم طرز ِفکر پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں تعلیم کے تصور اور معاشرے میں اس کے کردار کو اجاگر کرنا ضروری ہے۔ ہمیں دقیق علوم پر توجہ مرکوز کرنے کیلئے جرا_¿تمندانہ اقدامات کرنا ہونگے اوراسے اپنے ترقیاتی منصوبے کا محور بنانا ہوگا۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ترقی یافتہ عالمی معیار ہی ہماری ترقی کا معیار ہوسکتا ہے۔ سائنسدانوں نے جنوبی کوریا کو آج ترقی یافتہ اور بڑے صنعتی ممالک کی صف میں شامل کردیا ہے۔ سائنسی ترقی کی خوبی یہ ہے کہ یہ وقت کا دائرہ محدود کردیتی ہے۔ ترقیاتی اسکیموں کو سنگاپور کی کامیابی کی شکل میں پیش کردیتی ہے۔ سنگاپور کی حکومت نہ صرف یہ کہ جدید تر ہے ، انتظامی اعتبار سے مضبوط اور ٹھوس پالیسی کی اپنی پہچان رکھتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس حکومت نے تعلیم پر توجہ مرکوز رکھی۔ خصوصاً سائنس،ریاضیات، انجینیئرنگ اور ٹیکنالوجی کو اپنی کامیابی کی اساس بنایا۔ یہ چھوٹا سا ملک ایسے ممالک کے مقابلے میں زیادہ کامیاب اورسربلند ہوکر سامنے آیا جس پر سب ششدر و حیران ہیں۔ اس نے ایسے ممالک کو مات دیدی جو قدرتی وسائل اور امکانات کے حوالے سے اس سے بہت آگے ہیں۔
             ہمارے سامنے تبدیلی کا عظیم موقع ہے۔ ہمیں سعودی وژن 2030کے مثبت ماحول سے استفادہ کرنا ہے۔ ہمیں ریاست کی اعلیٰ سطح پر ہی نہیں بلکہ سڑک پر بھی واضح تبدیلی کے جذبے سے کام کرنا ہوگا۔ ہمیں خلیج ہی نہیں بلکہ پورے خطے میں تبدیلی لانے کا پروگرام بنانا ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: