Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مسروقہ زمین میں سفارتخانہ

محمد رضانصر اللہ ۔ الریاض
            سعودی وزیر خارجہ نے استنبول اسلامی سربراہ کانفرنس کے سامنے 2ٹوک الفاظ میں سعودی عرب کا یہ موقف واضح کردیا کہ وہ تل ابیب سے القدس امریکی سفارتخانے کی منتقلی کا مخالف ہے۔ یہ بھی واضح کردیا کہ امریکہ کا یہ اقدام فلسطینی مفادات کے خلاف مکمل جانبداری ہے۔ سعودی عرب کا یہ موقف مسئلہ فلسطین کے روز اول سے لیکر غزہ کے نئے المناک واقعات تک ایک ہی ہے۔ اسرائیلی ریاست نے اس دوران نہتے فلسطینیوں کے خلاف جو جرائم کئے ہیں انسانیت ان سے شرمندہ ہے۔ فلسطینی نمائندے نے سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات بجا طورپر کہی کہ اسرائیلی حکومت کو فلسطینی عوام کے خلاف بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزیوں سے شرم آنی چاہئے۔ عالمی رائے عامہ جو کچھ دیکھ رہی ہے اسرائیلی فوج کی کارستانیوں کے خلاف غیض و غضب میں اضافہ ہورہا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اس حوالے سے بھرپور رپورٹ شائع کی ہے۔ اس نے غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام کے سلسلے میں امریکہ کی دائیں بازو کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ فلسطینیوں کے جائز مطالبات کے خلاف امریکہ کا موقف پوری دنیا میں ناپسند کیا جارہا ہے۔ فلسطینیوں کی مسروقہ زمین پر ہیبتناک وارداتیں انجام دی جارہی ہیں۔
            مقبوضہ بیت المقدس اور محصور غزہ میں ان دنوں جو کچھ ہورہا ہے وہ قابض طاقتوں کے حریصانہ عزائم کا پتہ دے رہا ہے۔ مارٹن لوتھر نے کئی سو برس قبل اپنی مشہور کتاب ”یہودیوں کے جھوٹ“ تحریر کی تھی۔ یہ امریکی کانگریس کی لائبریری میں موجود ہے۔
             ہمارا مسئلہ یہودیوں کے ساتھ نہیں بلکہ 19 ویں صدی کے اواخر میں قائم ہونے والی صہیونی تحریک کی نسل پرستی سے ہے۔ یورپی ممالک یہودیوں سے تنگ آچکے تھے۔ 1917ءمیں فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کا وعدہ کیا گیا۔ اس طرح مسئلہ فلسطین نے جنم لیا۔ اس وقت عرب دنیا سلطنت عثمانیہ کے اثر و نفوذ سے نکل رہی تھی۔ مغربی دنیا نے یہودیوں کی سرزمین ایسی قوم کو دیدی جس کے پاس سرزمین نہیں تھی۔اسرائیلیوں نے سرزمین فلسطین چوری کرنے اور اس کے عوام پر ناجائز قبضہ کرنے کاسلسلہ اس وقت سے جاری رکھا ہوا ہے۔ فی الوقت القدس امریکی سفارتخانے کی منتقلی چوری کی ابتدائی روایت کا تسلسل ہے۔ فلسطینی اسکالر ڈاکٹر ولید الخالدی نے مدلل شواہد کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ 70فیصد فلسطین کا رقبہ 76فلسطینی پناہ گزینوں کی ملکیت ہے۔ ان کے وارثوں میں 90فلسطینی نژاد امریکی ہیں۔ انہوں نے امریکی عدالتوںمیں اپنے حقوق کا مطالبہ درج کرادیا ہے۔ فلسطین کا باقی ماندہ حصہ وقف کا ہے۔ اسرائیل نے 1948ءمیں اسے ضبط کرلیا تھا۔ اسکے حقیقی وارثوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ سارے حقائق ولید الخالدی کی کتاب ”امریکی سفارتخانہ القدس میں“ میں محفوظ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: