Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ٹریفک جرائم

حسن علی العمری۔ مکہ
      پوری دنیا میں ٹریفک مسائل حوادثات کو جنم دے رہے ہیں۔ کروڑوں ٹریفک حادثات ہورہے ہیں۔ ان سے اموات بھی ہورہی ہیںاور لوگ زخمی اور بسا اوقات معذور بھی ہورہے ہیں۔ ٹریفک حادثات کے نتیجے میں اقتصادی ضیاع بھی غیر معمولی ہے۔ انسانوں کی ہلاکت ہو یا دولت کی تباہی دونوں سے ملک و قوم کی معیشت متاثر ہوتی ہے۔
      ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ٹریفک حادثات کیلئے ذمہ دار ہے۔ حد سے زیادہ رفتار سے گاڑی چلانا اور ڈرائیونگ کے دوران موبائل استعمال کرنا حادثات کا سب سے بڑا سبب ہے۔ انہیں جرائم کی فہرست میں شامل کئے بغیر بات نہیں بنے گی۔سڑکوں کا استعمال محفوظ ہونا چاہئے۔ حد سے زیادہ رفتار سے گاڑی چلانا اور گاڑی چلاتے ہوئے موبائل استعمال کرنا سنگین خطرات کا باعث بنتاہے۔ کسی بھی معاشرے میں حد سے زیادہ رفتار اور موبائل کا استعمال انارکی کی علامت ہے۔ اسے نظر انداز کرنے سے ان جرائم کے منفی اثرات کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان دونوں حرکتوں کو جرم قراردیا جائے۔ ان پر قید اور جرمانے کی سزا مقرر کی جائے۔
      مذکورہ جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے میں سخت موقف ہی ملک و قوم کو ان سے ہونیوالے خطرناک نقصانات سے بچانے کا ضا من ہوگا۔دنیا بھر میں ایک طرف تو آبادی بڑھ رہی ہے اور دوسری جانب گاڑیوں کی تعداد بھی روز افزوں ہے ۔ایسی صورت میں ٹریفک حادثات کرنے والوں کے درمیان صلح جوئی کے نظرئیے کو رواج دینا کسی طور مثبت عمل نہیں ہوگا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کسی بھی عمل کو جرم قرادینے کیلئے 2بنیادیں درکار ہوتی ہیں۔ایک تو یہ کہ اس عمل سے نقصان ہورہا ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ عمل خطرے کا باعث بن رہا ہو۔ اس سلسلے میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ عمل قر یب الوقوع ہے ۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ مذکورہ عمل سے متوقع خطرہ اور نقصان ہوا ہے یا نہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ جان بوجھ کر جان ، دولت اور اثاثوں کو ہدف بنایا گیا تھا یا نہیں۔ ٹریفک عدالتوںکا پھیلاﺅبھی اس قسم کے جرائم کے سدباب کیلئے اشد ضروری ہے۔میرے خیال میں اس طرح کے ٹریفک جرائم دہشتگردی کے دائرے میں بھی آتے ہیں ۔ ہم انہیں سڑکوں کی دہشتگردی یا ٹریفک دہشتگردی کا نام دے سکتے ہیں۔ ہر ملک کی مقننہ کا فرض ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جن کی بدولت معاشرے کے افراد کو تحفظ فراہم ہو، جان و مال کو لاحق خطرات اور دھمکیوں سے نجات حاصل ہو۔ اگر مقننہ یہ کردار ادا نہ کرے تو ایسی صورت میں انارکی کا راج ہوگا، خوف کے بادل متعلقہ ملک کے شہریو ں کے سروں پر منڈلاتے رہیں گے اور معاشرے کا سکون و امن غارت نہیں تو کم ضرور ختم ہوجائیگا۔
      اگر جرم کے تمام عناصر جمع ہوجائیں تو ایسی صورت میں متعلقہ عمل کو جرم قراردیکر موثر نفاذ کا اہتمام لازم ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں کسلمندی کا مظاہرہ کرنیوالوں یا عملدرآمد میں لاپروائی برتنے والوں کا احتساب بھی لازم ہے۔ خاص طور پر بدعنوانی کے گمان اور اس کے ثبوت کی صورت میں یہ کارروائی مزید لازم ہوجاتی ہے۔ اگر ہم یہ دیکھیں کہ ہر ملک کے شہری یا تو خود ٹرانسپورٹ کے وسائل چلاتے اور استعمال کرتے ہیں یا کرائے کے وسائل سے کام لیتے ہیں تاہم سب کے سب کا واسطہ آنے جانے کے سلسلے میں ٹرانسپورٹ سے ضرور پڑتا ہے لہذا خطرات کے حصار میں یہ بھی ہیں اور وہ بھی۔ ہر ایک کو خطرات اور نقصانات سے بچانے کیلئے لاپروائی کی مزاحمت اور قوانین کو نظر انداز کرنے کی مخالفت لازم ہے۔
      مختلف مسلکوں میں فوجداری کی ذمہ داری کی اساس سے بالا ہوکر یہ بات بہرحال کہی جائیگی کہ صورتحال اب ایسی بن چکی ہے جس کے پیش نظر ٹریفک جرائم کی بابت قانون سازی کا مطالبہ ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہوگیا ہے۔ ٹریفک جرائم کی سماعت کرنیوالی خصوصی عدالتوں کا قیام بھی ناگزیر ہے۔ٹریفک جرائم کو ہم لوگ قدرتی جرائم کی فہرست میں بھی شامل نہیں کرسکتے ،یہ خود ساختہ جرائم ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے ان جرائم کے از خود ارتکاب کا نوٹس لینا ہی ہوگا۔
٭٭٭٭٭٭٭
                     

شیئر: