Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روزوں کی فرضیت کا مقصد کیا ہے؟

بڑی حکمت روزہ میں یہی ہے کہ نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے احکام جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کا کرنا سہل ہوجائے
 
عبدالمنان معاویہ ۔ لیاقت پور،پاکستان
  مسلمانان عالم ماہ مقدس رمضان المبارک کے روزے ذوق وشوق سے رکھتے ہیںلیکن روزوں کے مقاصد سے بہت کم لوگ آگاہی رکھتے ہیں تو مناسب معلوم ہوا کہ صوم رمضان کے مقاصد پر مختصر اً روشی ڈالی جائے کہ’’ صوم رمضان کامقصد‘‘کیاہے ،یعنی رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام میں فرض ہیںلیکن یہاں ہم یہ درج کرتے ہیںکہ مقاصدصوم رمضان کیا ہیں ۔
    امام غزالیؒ مقاصد صوم رمضان یوں تحریر فرماتے ہیں :
     روزہ کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اخلاق الہٰیہ میں سے ایک اخلاق کا پر تو اپنے اندر پید اکرے ،جس کو صمدیت کہتے ہیں ،وہ امکانی حد تک فرشتوں کی تقلید کرتے ہوئے ،خواہشات سے دست کش ہوجائے ،اس لئے کہ فرشتے بھی خواہشات سے پاک ہیں اور انسان کا مرتبہ بھی بہائم سے بلند ہے ،نیز خواہشات کے مقابلہ کے لئے اس کو عقل وتمیز کی روشنی عطاء کی گئی ہے ،البتہ وہ فرشتوں سے اس لحاظ سے کم تر ہے کہ خواہشات اکثر اس پر غلبہ پالیتی ہیں ، اس کو ان سے آزاد ہونے کے لئے سخت مجاہدہ کرنا پڑتا ہے ،چنانچہ جب وہ اپنی خواہشات کی رو میں بہنے لگتا ہے تو اسفل سافلین تک جاپہنچتا ہے اور جانوروں کے ریوڑ سے جاملتا ہے اور جب اپنی خواہشات پر غالب آتا ہے تو اعلیٰ علیین اور فرشتوں کے آفاق تک پہنچ جاتا ہے ۔(احیاء العلوم)
    امام ابن تیمیہؒ کے چہیتے تلمیذ حضرت امام ابن قیمؒ،جنہوںنے اپنے استاذ سے تمام شاگردوں سے زیادہ استفادہ کیا ،وہ روزوں کے اسرار ورموز یوں تحریر فرماتے ہیں :
     روزہ سے مقصو دیہ ہے کہ نفس انسانی خواہشات اور عادتوں کے شکنجہ سے آزاد ہوسکے ،اس کی شہوانی قوتوں میں اعتدال اور توازن پیدا ہواور اس ذریعہ سے وہ سعادت ابدی کے گوہر مقصود تک رسائی حاصل کرسکے اور حیات ابدی کے حصول کے لئے اپنے نفس کاتزکیہ کرسکے ،بھوک اور پیاس سے اس کی ہوس کی تیزی اور شہوت کی حدت میں تخفیف پیدا ہواور یہ بات یاد آئی کہ کتنے مسکین ہیں ،جو نان شبینہ کے محتاج ہیں ،وہ شیطان کے راستوں کو اس پر تنگ کردے ، اعضاء وجوارح کو ان چیزوں کی طرف مائل ہونے سے روک دے ،جن سے دنیا وآخرت دونوں کا نقصان ہے ،اس لحاظ سے یہ اہل تقویٰ کی لگام ،مجاہدین کی ڈھال اور ابرار ومقربین کی ریاضت ہے۔(زاد المعاد)
    حضرت امام ابن قیمؒ مزید تحریر فرماتے ہیں :
     روزہ جوارح ظاہری اور قوائے باطنی کی حفاظت میں بڑی تاثیر رکھتا ہے ،فاسد مادہ کے جمع ہوجانے سے انسان میں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں ،اس سے وہ اس کی حفاظت کرتا ہے، جو چیزیں مانع صحت ہیں ،ان کو خارج کردیتا ہے اور اعضاء وجوارح میں جو خرابیاں ہَوا و ہوس کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی رہتی ہیں ،وہ اس سے دفع ہوتی ہیں ،وہ صحت کے لئے مفید اور تقوی کی زندگی اختیار کرنے میں بہت ممدومعان ہے ،اللہ تعالیٰ کا رشاد ہے : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں ،عجب نہیں کہ تم متقی بن جائو۔
    رسول اللہ نے فرمایا :روزہ ڈھال ہے ،چنانچہ ایسے شخص کو جو نکاح کا خواہشمند ہواور استطاعت نہ رکھتا ہو،روزہ رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے اور اس کو اس کا تریاق قرار دیا گیا ہے ،مقصود یہ ہے کہ روزہ مصالح اور فوائد چونکہ عقل سلیم اور فطرت صحیحہ کی رو سے مسلمہ تھے ،اس لئے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی حفاظت کی خاطر محض اپنی رحمت اور احسان سے فرض کیا ہے۔(زاد المعاد)
    امام ابن قیمؒ اسی سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید تحریر فرماتے ہیں :
     چونکہ قلب کی اصلاح اور استقامت حال سلوک الی اللہ اور جمعیت باطنی پر منحصر ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف بالکلیہ توجہ انابت پر اس کا دارو مدار ہے ،اس لئے پراگندہ خاطر ی اس کے حق میں سخت مضمر ہے ،کھانے پینے کی زائد مقدار ،لوگوں سے زیادہ میل جول ،ضرورت سے زیادہ گفتگو وہ چیزیں ہیں ،جن سے جمعیت باطنی میں فرق آتا ہے اور انسان اللہ تعالیٰ سے منقطع ہوکر مختلف راستوں پر بھٹکنے لگتا ہے ،بعض اوقات محض اسی وجہ سے اس کی راہ کھوٹی ہوتی ہے ،ان سب باتو ں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی مقتضی تھی کہ اپنے بندوں پر روزہ فرض کرے اور اس کے ذریعہ کھانوں کی زائد مقدار اور خواہشات کے فیصلہ کا ازالہ وتنقیہ ہوسکے ،جس کی وجہ سے آدمی وصول الی اللہ سے محروم رہتا ہے ،وہ اس سے دنیا وآخرت دونوں جگہ فائدہ اٹھا سکے اور اس کی عارضی اور مستقل کسی مصلحت کو نقصان نہ پہنچے‘۔(زاد المعاد)
    محدث دہلوی حضرت شاہ ولی اللہ ؒ  تحریر فرماتے ہیں:
     روزہ کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ ضرورت سے زائد گہرائی میں نہ پڑا جائے ،نکتہ آفرینی اور تشدد کی راہ اختیا ر کرنے کا دروازہ بند کر دیا جائے ،اس لئے کہ یہ عبادت یہود ونصاریٰ اور خود عرب کے عبادت گزار لوگوں میں معروف اور رائج تھی ،انہوںنے یہ سوچ کر کہ روزہ کی بنیاد نفس کشی پر ہے ،اس میں بہت تشدد سے کام لیا اور نفس کو تکلیف پہنچانے کی غرض سے بہت سی چیزیں اپنی طرف سے ایجاد کرلیں اور یہی وہ نقطہ ہے جس سے تحریف کا آغاز ہوتا ہے ،جو کبھی کمیت میں ہوتی ہے ،کبھی کیفیت میں ،کمیت میں اس کی مثال حضور کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتی ہے ،کہ رمضان سے پہلے (متصلاً) کوئی ایک روزہ یا دو روزے نہ رکھے ،اسی طرح عید اور شک کے روزہ سے آپ کا منع فرمانا کہ ’’اس کے اور رمضان کے بیچ میں کوئی فصل نہیں ‘‘اس لئے کہ اگر یہ متشدد لوگ اس کو سنت بنا لیں گے تو دوسرے ان کی امتناع کریں گے اور اس طرح بات تحریف تک جاپہنچے گی،تشدد دراصل شدت احتیاط ہی سے پیدا ہوتا ہے اور شک کا روزہ اسی قبیل سے ہے ،کیفیت میں اس کی مثال صومِ وصال کی ممانعت ،سحری کی ترغیب اور اس کی تاخیر کا حکم ہے ،اس لئے کہ یہ سارا تشدد اور غلو جاہلیت کی پیداوار ہے۔(حجۃ اللہ البالغہ )
    ان اکابر علماء کے بیانات سے مقصد ِ روزہ پر روشنی پڑتی ہے،اب مختصراً فرضیت روزہ پر بھی کچھ کلام ہوجائے ۔
    رمضان المبارک کے روزے بھی ا رکانِ اسلام میںسے ایک رکن ہیں اور یہ ہر عاقل وبالغ مسلمان پر ماہ ِرمضان المبارک میں فرض ہیں۔بلا عذرروزہ چھوڑنا حرام ہے ، والدین پر لازم ہے کہ وہ بالغ اولاد کوزبردستی روزہ رکھوائیں ،قرآن حکیم میں ارشاد ربانی موجود ہے :ے ایمان والو!تم پر روزے فرض کردئیے گئے ہیں جس طر ح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ (البقرہ183)
     مولانا رفعت قاسمی لکھتے ہیں :
    لفظ ’’صیام ‘‘ کامعنی کتب اللغات میں کسی امر سے باز رہنا ہیں ،چنانچہ اگر کوئی شخص بولنے یا کھانے سے باز رہے یا بولنا یا کھانا چھوڑ دے تو اسے لغت میں صائم کہتے ہیں ،اس کی مثال قرآن کریم میں :’’ انی نذرت للرحمٰن صوماً‘‘ میں نے اللہ سے صوم کی منت مانی ہے ،یعنی خاموش رہنے اور کلام نہ کرنے کی ۔ شریعت اسلام میں الصوم یا روزہ یہ ہے کہ آدمی صبح صادق سے سورج غروب ہونے تک کھانے پینے اور شہوت نفسانی کے پورا کرنے سے روزہ کی نیت کے ساتھ رُکا رہے۔ دن کی میعاد صبح صادق کے ظاہر ہوجانے سے آفتاب کے غروب ہوجانے تک ہے اور جس نے اتنا کرلیا اس کا روزہ ہوگیا۔ گویا روزہ کا جسم بن گیا ،اب جس طرح جسم کی صحت وتندرستی کے لئے انسان بہت سی چیزوں سے پرہیز کرتا ہے، اسی طرح روزے کے اندر بھی کچھ پرہیز ہیں۔(مسائل رفعت قاسمی )
    شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی امویؒ اس آیت کے ضمن میں تحریر فرماہیں :
    یہ حکم روزہ کے متعلق ہے جو ارکان اسلام میں داخل ہے اور نفس کے بندوں ،ہواپرستوں کو نہایت شاق ہوتا ہے، اس لئے تاکید اور اہتمام کے الفاظ سے بیان کیا گیا اور یہ حکم حضرت آدم ؑ کے زمانہ سے اب تک برابر جاری ہے ۔ اصول مذکورہ سابقہ میں جو صبر کا حکم تھا، اس کا ایک بڑا رکن ہے، حدیث میں روزہ کو نصف صبر فرمایا ہے ،یعنی روزہ سے نفس کو اس کی مرغوبات سے روکنے کی عادت پڑ جائے گی تو پھر اس کو ان مرغوبات سے جو شرعاً حرام ہیں، روک سکے گا ۔ روزہ سے نفس کی قوت وشہوت میں ضعف آئے گا تو اب تم متقی ہوجائو گے۔ بڑی حکمت روزہ میں یہی ہے کہ نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے احکام جو نفس کو بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کا کرنا سہل ہوجائے اور متقی بن جائو۔ جاننا چاہیے کہ یہود ونصاریٰ پر بھی رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے مگر انہوں نے اپنی خواہشات کے موافق ان میں رائے سے تغیر وتبدل کیا تو ’’  لعلّکم تتّقون ‘‘ میں ان پر تعریض ہے، معنی یہ ہونگے اے مسلمانو،تم نافرمانی سے بچو یعنی مثل یہود ونصاریٰ کے اس حکم میں خلل نہ ڈالو ۔(تفسیر عثمانی )
    حضرت مولانا عبدالماجد دریا بادی ؒ آیت درج با لا کے ضمن میں تحریر فرماتے ہیں :
     صیام جمع ہے صوم کی ،صوم یا روزہ اصطلاح شریعت میں اسے کہتے ہیں کہ انسان طلوع فجر سے غروب آفتاب تک اپنے کو کھانے ،پینے اور عمل زوجیت سے روکے رہے ،جو روزے فرض ہیں وہ ماہِ رمضان کے ہیں ،غیبت ،فحش ، بدزبانی وغیرہ زبان کے تمام گناہوں سے روزہ میں بچے رہنے کی سخت تاکیدیں حدیث میں آئی ہیں ،جدید وقدیم سب طبیب اس پر متفق ہیں کہ روزہ جسمانی بیماریوں کے دور کرنے کا بہترین علاج اور جسم انسانی کے لیے ایک بہترین مصلح ہے ،پھر اس سے سپاہیانہ ہمت اور ضبط نفس کی روح جو ساری امت میں تازہ ہوجاتی ہے ،اس کے لحاظ سے بھی مہینہ بھر کی یہ سالانہ مشق ایک بہترین نسخہ ہے ،روزہ کسی نہ کسی صورت میں تو دنیا کے تقریباً ہر مذہب اور ہرقوم میں پایا جاتاہے ،جیسا کہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ،طبع چہار دہم میں ہے لیکن قرآن کو مشرکانہ مذہبوں سے بحث نہیں ،الّذین من قبلکم سے اس کی اصل مراد اہل کتاب ہی سے ہوسکتی ہے ،چنانچہ روزہ شریعت موسوی کا ایک اہم اور مشہور جزو ہے ،مذاہب عالم سے اتنی گہری واقفیت کہ صاف صاف ان میں روزہ کے جزو مذہب ہونے کی خبر دے دی ،ڈاک اور ریل کے زمانہ سے صدیوں قبل اور اخبارات اور کتب خانوں کے دور سے ہزار 12سو سال پیشتر عرب جیسے دور افتادہ اور دنیا کے ہر ملک سے بے تعلق جزیرہ نما میں ایک اُمی کے لیے کسی طرح ممکن نہیں ،بجز وحی الہٰی کے توسط سے (تفسیر ماجدی )
    مسلمانوں پر روزہ کب فرض ہوا،اس بارے میں مولانا رفعت قاسمی لکھتے ہیں :
    نبی کریم نبوت ملنے کے بعد13سال تک مکہ معظمہ ہی میں لوگوں کو خدائے پاک کا حکم سناتے اورتبلیغ کرتے رہتے اور بہت زمانے تک سوائے ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کے علاوہ کوئی دوسرا حکم نہ تھا ،پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے یہا ں سے احکام آنے شروع ہوئے ،اسلام کے ارکان میں سب سے پہلا نمازِ فرض ہوئی ،پھر مکہ معظمہ سے ہجرت فرمانے کے بعد جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں بہت سے احکامات آنا شروع ہوئے ،انہی میں سے ایک حکم روزے کا بھی تھا ،سب سے پہلے عاشورہ یعنی محرم کی10 تاریخ کا روزہ فرض تھا ،اس کے بعد رمضان شریف کے روزوں کا حکم ہوا،(اور عاشورہ کی فرضیت ختم ہوگئی ) روزے کے اندر شروع میں اتنی سہولت اور رعایت تھی کہ جس کا جی چاہے ،روزہ رکھ لے اور جو چاہے ایک روزہ کے بدلے کسی غریب کو ایک دن کا کھانا کھلادے ،اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی کمزوریوں پر نظر فرماتے ہوئے ،آہستہ آہستہ روزوں کی عادت ڈلوائی ،چنانچہ جب کچھ زمانہ گزر گیا اور لوگوں کو روزہ رکھنے کی کچھ عادت ہوگئی تو معذور اور بیمار لوگوں کے سوا باقی سب لوگوں کے حق میں یہ اختیار ختم کردیا گیا اور ہجرت سے ڈیڑھ سال بعد 10 شعبان2 ہجری کو مدینہ منورہ میں رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم نازل ہوااور ان کے علاوہ کوئی روزہ فرض نہ رہا۔اس کا فرض ہونا کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت ہے ۔(کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعہ)
    قرآن کریم میں حق تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
    رمضان وہ ماہ مقدس ہے کہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ،جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت ہے اور اس میں ہدایت سے متعلق بیانات بڑے واضح ہیں ،اور (قرآن کریم ) حق وباطل کے درمیان فرق ظاہر کرنے والی کتاب ہے ،پس تم میں سے کوئی شخص ماہ رمضان کو پائے تو اس میں روزے رکھے ،اور اگر کوئی مریض ہے یا سفر پہ ہے،(جتنے روزے رمضان المبارک کے چھوٹ گئے ) اتنے ہی روزے بعد میں پورے کرے،اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی کا ارادہ فرماتا ہے ،دشواری کا ارادہ نہیں فرماتا اور(یہ سہولت اس معنی میں کہ تم سے جو روزہ چھوٹ جائیں وہ بعد کے ایام میں پورے کرو)تم گنتی پورے کرواور تم اللہ کی بڑائی بیان کروکہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تم اس کا شکر ادا کرو۔ ( البقرہ185)
     مولانا محمدعاشق الہٰی مہاجر مدنی ؒ  آیت ہٰذاکے ذیل تحریر فرماہیں:
     یہ ارشاد فرمانے کے بعد کہ ’’ جوشخص ماہِ رمضان میں موجود ہو،اس کے روزے رکھے ‘‘ مریض اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جتنے دنوں کے روزے رمضان المبارک میں مسافر اور مریض نے نہیں رکھے ،وہ رمضان کے بعد دوسرے دنوں میں گنتی کرکے جتنے روزے چھوٹے، ان کی قضاء رکھ لے ،علامہ جصاص ؒ فرماتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے مطلقاً اتنے دنوں کی گنتی کرکے  قضاء کرنے کا حکم فرمایا ہے ، جتنے دنوں کے روزے رہ گئے ہیں اور لگاتار قضاء رکھنے کی کوئی قید اور شرط نہیں لگائی ۔اس لئے روزوں کی قضا کرنے والا متفرق طور پر رکھ لے یا لگاتار رکھ لے ،دونوں طرح درست ہے ۔ یرید اللہ بکم الیسر سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دوسرا رمضان آنے تک، پہلے رمضان کے قضا روزے نہ رکھے تواب اس موجود رمضان کے روزے رکھ لے اور گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا بعد میں کرلے البتہ جلد سے جلد قضا رکھ لینا بہتر ہے ،اس میں مسارعت الیٰ الخیر ہے اور چونکہ موت کا کچھ پتہ نہیں ،اس لئے ادائیگی فرض کا اہتمام بھی ہے۔(انوار البیان)
     حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے شعبان کے آخری دن خطبہ ارشاد فرمایا :
     اے لوگو! ایک بہت بڑے مہینے نے تم پر سایہ کیا ہے ،بہت بابرکت مہینہ ہے ،اس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اللہ نے اس کے روزوں کو فرض اور رات کے قیام کونفل قرار دیا ہے ،جو شخص کسی نیکی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف قرب چاہے،اس کو اس قدر ثواب ہوتا ہے ،گویا اس نے فرض ادا کیا ،جس نے رمضان میں فرض ادا کیا،اس کا ثواب اس قدر ہے کہ گویا اس نے رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں70 فرض ادا کئے ،وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے ،وہ مواساۃ کا مہینہ ہے ،وہ ایسا مہینہ ہے کہ اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے ،جو اس میں کسی روزہ دار کو افطار کروائے ،اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور اس کی گردن آگ سے آزاد کردی جاتی ہے اور اس کو بھی روزے دار کے ثواب کے برابر ملتا ہے ،اس سے روزہ دار کے ثواب میں کچھ کمی نہیں آتی ،ہم نے کہا اے اللہ کے رسول! ہم میں سے ہر ایک افطار نہیں کروا سکتا ،رسول اللہ نے فرمایا :اللہ تعالیٰ اس شخص کو بھی یہ ثواب عطا فرماتا ہے جو ایک گھونٹ دودھ ،ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے کسی کا روزہ افطار کرواتا ہے ،جو روزہ دار کو سیر ہوکر کھانا کھلاتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا کہ وہ جنت میں داخل ہونے تک کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا اور یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے ،اس کے درمیان بخشش ہے اور اس کے آخر میں آگ سے آزادی ہے ،جو شخص اس میں اپنے غلام کا بوجھ ہلکا کردے ،اللہ تعالیٰ اس کو بخش دیتا ہے اور آگ سے آزاد کردیتاہے۔(مشکوٰۃ شریف )
مزید پڑھیں:- - - - مادر علمی اور طلبہ کے فرائض و ذمہ داریاں

شیئر: