Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانوی شہری عربی کیوں سیکھ رہے ہیں؟

عادل خمیس الزہرانی ۔المدینہ
عربی زبان جو اِس سرزمین سے نکل کر دنیا بھر میں پھیلی گہرے ثقافتی عنصر کا درجہ رکھتی ہے۔ اس سے اقتصادی منصوبہ بندی کا بھی کام لیا جاسکتا ہے۔میں اس سے قبل اپنے ایک کالم میں یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ اہل برطانیہ انگریزی سکھانے کیلئے اسٹراٹیجک نکتہ نظر رکھتے ہیں۔یہاں میں ایک مفید مثال کا تذکرہ کرنا مناسب سمجھوں گا۔
برطانیہ میں زیر تعلیم سعودی طلباءکی ثقافتی تنظیم نے غیر عربوں کو عربی زبان سکھانے کا ہنگامی پروگرام رائج کیا۔ اس پروگرام سے استفادہ کرنے والے مختلف نسلوں اور مختلف ثقافتی پس منظر رکھنے والے لوگ تھے۔ زیادہ تر طلباءجو سیکڑوں کی تعدا دمیں تھے مسلمان ہی تھے۔ یہ دنیا کے مختلف علاقوں سے آکر برطانیہ میں یا تو آباد ہوگئے ہیں یا کاروبار یا روزگار یا تعلیم کی غرض سے برطانیہ پہنچے ہوئے تھے۔ ان سب نے عربی زبان سکھانے کے پروگرام سے بڑھ چڑھ کر فائدہ اٹھایا۔ زیادہ تر مسلمان پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا وغیرہ ایشیائی نژاد تھے۔ کچھ ترکی اور البانیہ کے بھی تھے۔
برطانیہ کے طلباءبھی اس پروگرام میں خاصی تعداد میں شریک ہوئے۔ مسلم طلباءمیں ایسے بھی شامل تھے جو ایشیائی نژاد برطانوی تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ برطانوی گوروں نے عربی سکھانے والے پروگرام میں دلچسپی نہیں لی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر کلاس میں برطانوی گورے بھی عربی سیکھنے والوں میں شامل رہے۔ ان میں ہالینڈ ، فرانس اور ترکی وغیرہ کے طلباءبھی شریک تھے۔ 
عربی زبان سیکھنے والے پروگرام میں شمولیت کے حوالے سے طلباءکے محرکات مختلف تھے۔ بیشتر مسلمان دینی جذبے سے عربی زبان سیکھ رہے تھے۔ ان طلباءکی سوچ یہ تھی کہ قرآن و سنت کی زبان سیکھ کر وہ اپنی دینی فہم کا معیار بہتر کرسکیں گے۔ انکے بیشتر سوالات کا محور یہ تھا کہ وہ عربی سیکھ کر قرآن و سنت سے براہ راست استفادہ کرسکیں گے یا نہیں۔اسی کے ساتھ وہ عربی سیکھ کر مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور مذہبی شعائر حج و عمرہ ، روزے اور نمازکی بابت مستند کھڑکی کھولنے کے بھی آرزو مند تھے۔ طلباءکے اور بھی اہداف تھے۔ بعض لوگ عربی زبان سیکھ کر عرب دنیا کے حالات کو بہتر شکل میں سمجھنا چاہتے تھے۔ ان میں برطانوی جامعات کے ماتحت لسانیات اور جدید تہذیبو ںکے مطالعات سے منسلک طلباءبھی تھے۔ ایک انگریز خاتون لیزا کا مقصد پیشہ ورانہ تھا۔ وہ لیڈز شہر میں انگریزی سکھانے والے مشہور ترین انسٹیٹیوٹ کی نگراں تھی۔ وہ عربی کے ذریعے عرب دنیا کی تہذیب سے واقفیت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ ایک اور طالبہ عربی کمیونٹی والے محلے کے ایک ریستوران میں کام کررہی تھی اور اسکا مقصد عرب گاہکوں کےساتھ انکی اپنی زبان میں گفت و شنید میں سہولت پیدا کرنا تھی۔
********

شیئر: