Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” سب نے محسوس کیا یہ اسی کے دل کی آواز ہے“

زینت شکیل۔جدہ
عائشہ نے جب باورچی خانے کے سنک میں موجود تمام برتن دھولئے تو گرم چائے کی ٹرے لئے ہال کمرے میں آگئی جہاں اسکی ہم جماعتیں موجود تھیں۔ مریم نے سب سے پہلے اپنے لئے کپ اٹھایا اور کہاکہ تھکن میں اس سے بہترین چیز میرے نزدیک ابھی کچھ اور نہیں ہو سکتی ۔
حفصہ نے فوراً یاد دلایاکہ تھکن جناب کو صرف بیٹھے بیٹھے ہی ہوگی ورنہ اب تک تو تم نے صرف عائشہ کی گرینڈ ما سے باتیں ہی کی ہیں اور کیا ہی کیا ہے؟ اور چائے بھی سب کے ہمراہ نوش فرما چکی ہو۔
مریم نے یوں آنکھیں پھیلائیں کہ ابھی جو کچھ کہا ، با لکل درست کہا ہے۔ اسی لئے ثبوت کے طور پر یاد دہانی کرائی ہے کہ بھلا بتاﺅ آجکل زمین پر بیٹھنا وہ بھی ایسی مجلس میں کہ جہاںبزرگوں کی چند باتیں سنیں، کوئی آسان کام ہے؟ کس قدر شیطان بہکاتا ہے کہ آرام سے صوفے پر بیٹھ کر بھی یہ باتیں سنی جاسکتی ہیں ۔سمجھ لیں کہ سیدھے سیدھے بزرگوں کی توقیر میں کمی کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔ ویسے عادت نہ ہونے کی صورت میں تھوڑی مشکل تو ہوتی ہے لیکن جب خیال آتا ہے کہ یہی محفلیں ہم کلمہ گو اپنی ہمیشہ کی زندگی میں یاد کریں گے کہ کیسے دنیا میں ہمارے بزرگوں نے ہمیں اچھی اچھی باتیں سکھائیں کہ آج ہم مالک حقیقی کی رحمت سے اس باغ میں بیٹھے ہیں۔ 
حفصہ نے کہا کہ تمہارے گھر میںکتنی رونق اور برکت آتی ہوگی جہاں ایسی مبارک مجلس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔خاص طور سے ابھی ہمارے لئے یہ کتنا اہم ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ جو آنے والے دن ہیں ، ان میں قیام الیل میں اپنی تمام خطائیں مالک حقیقی سے معاف کرالیں۔
مریم نے کہاکہ ٹیچر بھی کہہ رہی تھیں کہ ہم تعوذ پڑھ کر جب قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں تو شیطان اپنی ناکامی پر روتا ہے کہ یہ بندہ تو اس کے بہکاوے میں آہی نہیں رہا اور اب تو ”تعوذ” بھی پڑھ لیا۔
احمد اپنی سوچ واضح کر رہا تھاکہ یہ تو کوئی انصاف کی بات نہیں کہ کسی کی زندگی کو ایسے فیصلے کی بھینٹ چڑھا دیا جائے کہ ایک خاندان کو کچھ تسلی ہو جا ے، ریلیف مل جائے۔ اب کتنی مشکل ہے کہ جن کا انتقال ہوگیا انکا تو اس دنیا سے ناتہ ٹوٹ گیالیکن جو ان کے ایما پر ایک رشتے میں باندھ دئیے گئے تھے اب وہ تو سات سمندر کے فاصلے پر آئندہ کے فیصلوں کے انتظار میں ہیں۔ میرے خیال میں تو اب اس زمانے میں بچپن کے نکاح جو انکے والدین، ولی کی حیثیت سے کر دیتے ہیں، ان پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔
ہاروت کچھ نہیں کہہ رہا تھا کیونکہ وہ یہ جان سکتا تھا کہ جس کا جو مسئلہ ہو وہی اس کو محسوس کرسکتا ہے ۔دوسروں کو وہ احساس مشکل 
 سے ہی ہوسکتا ہے ۔
یونیوسٹی میں موسیٰ، ہاروت کو تلاش کرتا پہنچا تھا۔کینٹین میں ٹیلیوژن پر خبریں آنے لگیں تو ایک دم بھونچال آگیا ۔ہر کوئی ایک دوسرے سے کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ ایسے میں موسیٰ کی نگاہیں اسکرین پر ہوتے ہوئے بھی گہری سوچ 
 میں ڈوبی ہوئی تھیں اور اسکی آواز جب ہال میں گونجی تو سب نے سنا وہ کہہ رہا تھا:
”جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا غدار ہے، اسے سرعام پھانسی سے کم سزا نہیں ہونی چاہئے ۔“
وہاں موجود ہر ایک نے محسوس کیاکہ یہ اسی کے دل کی آواز ہے۔ 
٭٭جاننا چاہئے کہ نعمت کی شکر گزاری یہی ہے کہ اپنے رب کریم کی رضا حاصل کی جائے یعنی اپنے فرائض کی انجام دہی کو یقینی بنایا جائے۔
 

شیئر: