Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پہلے مسائل جانتی ہوں، پھر قلم اٹھاتی ہوں، مہر افشاں

 زینت شکیل ۔جدہ
رب العالمین سے مدد مانگیں اور اپنی نیت خالص رکھیں تو ہر دعا قبولیت کے درجے تک جاپہنچتی ہے۔ علم عبادت ہے،اگر اخلاص نہیں تو برکت نہیں۔ہمیں تدبر ،تفکر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ذہانت قیمتی خزانے کی مانند ہے۔ یہ بارش جیسی خاصیت رکھتی ہے کہ امیر وغریب ہر ایک کے ساتھ یکساں سلوک کرتی ہے۔ ادب کا انسانی زندگی سے گہرا رابطہ ہے ۔ مثبت ادب معاشرے کی ترقی کا بڑا ذریعہ ہے ۔ ذہین ادباءنے ادب کی قدیم روایات کو اپنی قوت تخیل سے زندہ رکھا ۔
رواں ہفتے ہواکے دوش کے مہمان گرامی منصور آغا جوایک اردو اخبار میں اپنے قلم کا جادو جگاتے ہیں اور انکی اہلیہ مہر افشاں جو مہذب معاشرے کے لئے ادب کو نہایت اہم سمجھتی ہیں ،انہیں محسوس ہوتا ہے کہ گمبھیر مسائل کے لئے بڑے ذہین لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو بڑے مسائل کو سلجھائیں لیکن ایک عام گھر کے افراد کے لئے ایسے مضامین کی ضرورت ہوتی ہے جو عام زندگی میں مہذب زندگی گزارنے میں معاون بنیں۔ ریاست کی ایک بڑی تعداد کو دراصل ایسی ہی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ 
مغل پورہ سے تعلق رکھنے والی مہر افشاں صاحبہ کے والد مہر ضیا اسکول کے پرنسپل تھے ،والدہ یاسمین بیگم گھریلو خاتون تھیں لیکن امور خانہ داری میں عبور رکھتی تھیں۔ پڑھائی لکھائی سے رغبت رکھتی تھیں۔
مہر افشاں سے ہوا کے دوش پر اردو نیوز نے ملاقات کی۔ ان سے استفسار کیا کہ آپ کا بچپن کیسا گزرا ؟ اس کا جواب دیتے ہوئے مہر افشاں نے کہا کہ :
ہمارے زمانے میں گرمی کی دوپہر بہت طویل ہوتی تھی اور اسی میں سب خاندان بھر کے بچے ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے کھیل کی مشغولیت تلاش کرلیا کرتے تھے چونکہ ہم لوگ مشترکہ خاندانی نظام کے تحت پورے خاندان ایک ساتھ ہی رہائش رکھتے تھے ،مغل پورہ میں حویلی کی طرح بڑے گھر میں بہت سے افراد رہتے تھے اس لئے ہر دن کا الگ پروگرام ترتیب دیا جاتا تھا۔ 
ہمارے ہاںگڑیوں کے گھر تھے۔ کزنز گڑیا گڈے کا کھیل کھیلتے ۔دو گروپ بن جاتے۔ ایک دولہا والے اور ایک دلہن والے ۔پھر شادی بیاہ کے گیت گاتے اپنی اماں سے چھوٹے چھوٹے کپڑے سلواتے اور گڈا گڑیا کی شادی ہوتی ۔سب نک سک سے تیار ہوتے کہ واقعی شادی میں شرکت کے لئے آئے ہیں اور شادی میں پیش کیا جانے والے مینیو کا انتظام ہوتا ۔
اسے بھی پڑھئے:کام، کام اور کام کو مقصد حیات بنایا اور کامیاب بھی ہوئی، حلیمہ
اس زمانے میں جھانسی کی رانی ،رضیہ سلطانہ اور ملکہ بناکرتے اورخوب اچھی پریکٹس کے بعد بڑوں کی ان بارعب شخصیت کا روپ دھارے اپنے حساب سے یاد کئے ہوئے ڈائیلاگ پر زبردست پرفارمنس دیتے۔ خوب تالیاں بجتیں۔
اس زمانے کی تعلیم میں تاریخ کا بہت بڑا حصہ ہوا کرتا تھا ۔ اسی لئے ہر کوئی کسی نہ کسی بہادر اور نڈر سلطان کو اپنا آئیڈیل بناتا تھا ۔ بچوں کی کہانیوں میں اسماعیل میرٹھی اور جو اس وقت درسی کتابوں میں پڑھائے جاتے تھے، سب ہی کی نظمیں بچے شوق سے یاد کرتے تھے۔ کبھی :
”نانی اماں ،نانی اماں مان جاو¿“
اس نغمے پر اسی طرح اداکاری کرتے جیسے فلم میں کی گئی ہے ۔ رسالوں میں جو اسلامی تاریخ پڑھنے کا موقع ملا تو انکے کردار بھی بچوں میں مشہور ہوئے۔ کبھی کسی کردار کا روپ دھارے رعبدار آواز بناتے تو تمام کزنز خوب محظوظ ہوتے ۔
مہر افشاں نے بچپن کی باتیں سناتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاںشام میں آنگن میں پانی کا چھڑکاو¿ ہوتا ۔سفید چادریں بچھائی جاتیں۔ خس سے گزرتی ہوئی ہوا سے ایک مسحور کن خو شبو چاروں طرف بکھیرتی۔ شام میں بچوں کی فرمائش پر پکوان پکتے اور ہم بچے جھوم جھوم کر ایک دوسرے کو پہاڑے سناتے اور کبھی یاد کی ہوئی نظمیں دہراتے۔”آنگن میں تارے“جھوم جھوم کر سب کورس کے انداز میں گاتے۔ 
کبھی کوئی چیز گھر کی بنی کھائی جاتی اور کبھی درختوں سے پھل توڑے جاتے ۔میرٹھ کا ہمارا گھر اتنا بڑا تھا اور پیڑ پودوں کی وہاں اتنی بہتات تھی کہ اکثر درخت کی شاخیں ایک دوسرے میں جا پہنچتی تھیں۔ معلوم ہی نہیں ہوپاتا تھا کہ یہ کس درخت کی شاخیں ہیں اوروہ کس درخت سے جاملی ہیں۔یہی وجہ تھی کہ کوئی ماسٹر صاحب کا گھر پوچھتا تو اسے ہمارے ابا کے گھر کی نشانی یہی بتاتے کہ اسٹیشن کے پاس پیڑ پودوں والا گھر ماسٹر صاحب کا ہے۔ کسی کو ہمارے بابا کے گھر پہنچنے کیلئے یہی نشانی کافی ہوتی۔
دادا نثار حسین تعلیم یافتہ تھے۔ شاعر بھی تھے ۔ثروت تخلص کرتے تھے بعد میں مغل پورہ سے میرٹھ میںآباد ہوگئے تھے۔ والد مہر ضیا اسکول میں پرنسپل تھے ،شاعری کرتے تھے۔ انکی لکھی ہوئی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور کچھ طباعت کے لئے موجود ہیں۔ وہ ماہر عروض تھے ۔ انہوں نے شاعری کے قواعد کو قلم بند کیا۔
مہر افشاں کی شادی کم عمری میں ہوئی۔ رسم و روج کے حوالے سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان کے خاندان کے لوگ ہندوستان میں رہیں یادنیا کے کسی اور ملک میں، وہ شادی بالکل سادہ طریقے سے کرتے ہیں۔ کوئی دھوم دھڑکا نہیں ہوتا۔اپنے گھر والوں،کزنز سہیلیوں کے بیچ دلہن کومایوں بٹھا دیا جاتا ہے۔ نکاح کے بعد سادگی سے رخصتی ہوتی ہے پھر عمدہ پیمانے پر ولیمے کی دعوت دی جاتی ہے۔ پہلے بھی ہمارے خاندان میں ایسا ہی ہوتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ان تقریبات میں کسی قسم کی خود نمائی کا عنصر شامل نہیں ہونے دیا جاتا ۔دکھاوا بالکل نہیں کیا جاتا۔ 
بڑے بھائی ڈاکٹر امیر سرور ہیں جبکہ دوسرے بھای کا نام رئیس انور ہے ۔ہم دو چھوٹی بہنوں کو ہماری بڑی بہن خوب بنا سنوار کر رکھتی تھیں اسکول جانے کے وقت بھی اور آنے کے بعد بھی چونکہ امی بہت بڑے خاندان کی ذمہ داریوں میں مصروف رہتی تھیں تو ہمارے کام ہماری بڑی بہن کے ہی سپرد تھے۔ہمارے سب سے بڑے بھائی جن سے ہم لوگوں کو بہت محبت تھی ،انکا نام اصغر حسین تھا ۔ہمیں بے حد عزیز تھے۔ وہ تقسیم ہند کے وقت پاکستان چلے گئے تھے۔ جب تک بقیدحیات رہے ،چند ایک بار ہم سے ملاقات کے لئے آئے پھر یہ سلسلہ بھی موقوف ہو گیا۔
مہر افشاں نے بتایا کہ شادی کے بعد بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا لیکن اس صورت کہ اپنی علمی استعداد بڑھانے کے لئے مختلف کتابیں،رسائل ،اخبارات، مضا مین،افسانے وہ سب بھی پڑھے۔ کہنا چاہئے کہ اس طرح یہ بات سمجھ میںآئی کہ عالمی ادب تخلیق کرنے والوں کو بہت ذہانت کی ضرورت پڑتی ہوگی لیکن جو باتیں عام عوام کے لئے فائدہ مند ہیں اور خاص طور سے گھر بنانے اور بچوں کی نگہداشت اور تربیت کے متعلق باتیں بالکل عا م فہم ہونی چاہئیں تاکہ معاشرے میں بچوں کی تربیت اس نہج پر ہو کہ وہ ریاست کے اچھے شہری بن سکیں۔
عورت معاشرے کا سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ جس طرز کی تربیت کرے گی ،بچے اسی سانچے میں ڈھلتے جائیں گے۔ ماﺅں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تب ہی نسل نو کی بہترین تربیت ممکن بنائی جاسکتی ہے۔اسی سوچ کے پیش نظر مہر افشاں مضامین لکھتی ہیں اور ان کا کہناہے کہ میں عورتوں کے درمیان رہ کر ان کے مسائل کو جانتی ہوں اور ان پر ہی قلم اٹھاتی ہوں۔ 
شادی خاندان میں ہوئی یا غیروں میں اور رسمیں کیا کیا ہوئیں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے مہر افشاں نے کہا کہ ہمارے خاندان کے لوگ تین باتوں کی وجہ سے زیادہ تر خاندان سے باہر شادی کرتے ہیں پہلا یہ کہ ڈاکٹروں نے اچھا خاصا ڈراوا دیا ہواہے۔ دوسرے یہ کہ جو پہلا رشتہ ہے ،اس کی چاشنی میں کمی نہ آئے اور تیسری وجہ یہ کہ خاندان کو بڑھاوا دینا چاہئے۔ صرف ایک اپنے ہی خاندان میں شادی کریںگے تو خاندان وسیع کیسے ہوگا۔اس لئے خاندان کو وسعت دینے کے لئے ضروری ہے کہ غیروں میں شادی کی جائے۔
مہر افشاں کا کہنا ہے کہ انکے شوہر نے انکے تعلیمی مشاغل کی بھرپور حمایت کی اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے جبکہ ہم دادا، دادی، نانا نانی بھی بن چکے ہیں ۔اب بنات نسا سے منسلک ہیں۔
محترمہ مہر افشاں کے شوہرمنصور آغا خود معروف اخبار سے منسلک ہیں تو ان کی بیگم بھی ان کے پسندیدہ شعبے سے ہی متعلق ہیں۔ وہ اپنی شریک حیات کی کوششوں کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ انکی رہنمائی بھی کرتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ میاں بیوی میں ہم آہنگی ہو تو زندگی کا سفر نہ صرف آسان ہو جاتا ہے بلکہ انتہائی خوشگوار ثابت ہوتا ہے ۔ ہم دونوں زن و شو میں ذہنی ہم آہنگی تو تھی تاہم لکھنے لکھانے اور صحافتی امور سے ہم دونوں کی دلچسپی نے ذہنوں کو مزید ہم آہنگ کر دیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ سب بچے اپنے والدین کے ادب سے لگاﺅ کی بے حد قدر کرتے ہیں ۔
 

شیئر: