Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

# پی ٹی آئی کے امیدوار 2018

پی ٹی آئی نے انتخابات 2018ءکے لئے اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا۔ اس موقع پر مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر شخص ہی ٹویٹر پر سرگرم ہوگیا۔
مریم لکھتی ہیں کہ تمام امیدواروں کو مبارکباد دیتی ہوں۔ زرداری اور نواز شریف کو بتا دیں کہ اب ہم اپنی قوم کا چارج سنبھالنے جارہے ہیں۔ اب کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
عبدالباسط ٹویٹ کرتے ہیں کہ میرے والد (یوسی چیئرمین) پی پی 223سے امیدوار نے 5سال قبل پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی۔ انہیں ٹکٹ نہیں ملا ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اب کیا ہوگا تو کہنے لگے کہ اب (ن) لیگ کو ووٹ تھوڑی دے سکتے ہیں۔ جس وجہ سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے وہ مشن تو پورا کرینگے۔
ہما علی کہتی ہیں کہ این اے 76اور پی پی 46سے ڈبل بیرل شاہ کے بزنس پارٹنرز کو ٹکٹ مل گئے ۔ جعلی ڈگریاں رکھنے والوں کو ٹکٹ مل گئے۔ کیا مذاق ہے؟
اسما برجس نے بات آگے بڑھاتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ حاصل کرنے کیلئے کیا شرائط ہیں۔ یہ سب مزاحیہ باتیں لگتی ہیں۔
ودانہ فاروق لکھتی ہیں کہ میں نے ممتاز سیاستدان علی محمد خان اور شہریار آفریدی کے نام ٹکٹ پانے والوںمیں نہیں دیکھے۔ کیا یہ غلطی سے نہیں ہوا؟ یا کوئی اور مسئلہ ہے۔
بلال غوری لکھتے ہیں کہ پی ٹی آئی دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے مسلم لیگ (ن) کی نازیہ راحیل کو پی پی 122سے ٹکٹ دیا ہے جبکہ نازیہ کا کہناہے کہ وہ تو مسلم لیگی ہیں انہیں بغیر مانگے ٹکٹ مل گیا۔
طلحہ وارث قریشی نے سوال کیا کہ علی محمد خان ، شوکت یوسف زئی، شہریار آفریدی کو ٹکٹ کیوں نہیں ملا۔ ان لوگوں نے 5برس میں ہر موڑ پر پی ٹی آئی کا دفاع کیا۔ اب انہیں نظرانداز کردیا گیا۔
سیدہ رمشا نے ٹویٹ پر سوال کیا کہ علی محمد خان اور شہریار آفریدی کو ٹکٹ نہیں ملے ، خبر کیا سچ ہے۔
فرحان ملک لکھتے ہیں کہ این اے 84گوجرانوالہ سے بلال اعجاز مضبوط امیدوار تھے لیکن انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں