Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ ثانیہ کے تحمل پر دل ہی دل میں تعریف کئے بنا رہ نہیں پاتا

یخ بستہ ٹھنڈ کے باوجود وہ سگریٹ بجھا کر اسے اندر آنے کو نہ کہتا۔۔صبح بے چاری  زکام میں گرفتار نظر آتی اور اپنی سرخ ناک کو ٹشو سے بار بار صاف کرتی  سگریٹ کے ٹکڑے سمیٹ دیتی
 ناہید طاہر۔ ریاض
(قسط12)
ثانیہ کی ساس حمیدہ بیگم ،بہو سے بہت  خوش اور مطمئن تھیں، ثانیہ کے بہتر سلوک اور پیار  سے متاثر، وہ بیٹی کے نہ ہونے کا غم بھی بھول گئیں۔۔۔  ثانیہ نے گھر کے بزرگوں کو محور بنا لیاتھااور ان کے گرد گھومتے رہنا اس کا جیسے مقصد  بن گیا۔ نرم خوئی ،خوش مزاجی ،بلنداخلاقی  سے ہی دلوں میں الفت ومحبت پیدا ہوتی ہے۔ ان ہی صفات کی بدولت ایک اچھاخاندان بھی وجود میں آتا ہے۔ ان خوبیوں کے ذریعے  بہت جلد وہ سارے گھر کو سوائے رضا کے ، اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ ایک ہفتہ گزر چکا تو ثانیہ شہر جانے کی تیاری کرنے لگی ۔لیکن حمیدہ بیگم اور دادو نے منع کردیاکیونکہ ان کا دل ابھی سیراب نہ ہواتھا ۔انھوں نے ثانیہ اور رضا کواپنی تعطیل    آگے بڑھانے پر مجبور کیا۔ثانیہ رشتوں کی پرکشش زنجیروں میں جکڑ چکی تھی۔ فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا،اسطرح خودکو حالات کے حوالے کردیا۔اور آرام سے چھٹی کا مزہ اٹھانے لگی ،اْس نے  اپنی ساس سے کہہ کر کچن سنبھال لیا۔پکوان میں وہ کافی ماہر تھی دادو اور رضا کے والد شوکت احمد کھانے کے شوقین ،پس پھر کیا تھا حویلی کی فضاء ثانیہ کے ذائقے دار پکوانوں سے مہک اٹھی۔دادو تعریفیں کرتے نہیں تھکتے اور ثانیہ سب کی خدمت، !رضا غصہ،جھنجھلاہٹ پر اکتفا کرلیتا۔۔۔۔کیونکہ اس کو گھر کا ذائقہ دار پکوان اور خوشنما فضاء  ہضم نہیں ہوتی تھی۔۔۔۔آزاد پنچھی بھی کبھی قید میں خوش رہا ہے جو وہ ہوتا۔
اس کے کمرے میں کسی کو قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ثانیہ کمرے پر ہی قبضہ جمائے بیٹھی تھی۔۔۔۔ہرچیز بڑے قرینہ سے  رکھی جانے لگی تھی۔۔۔۔وہ جو ہمیشہ لاابالی انداز میں کمرہ بکھیر کر رکھا۔ کرتا اپنی تمام ضرورت کی چیزیں ادھر ادھر پھینک دینے کاعادی تھا یوں ہرچیزاپنی جگہ مسکراتی نظر آتی تو جھنجھلا جاتا۔
سگریٹ سے ثانیہ کو الرجی تھی یہ جانتے ہوئے بھی وہ سگریٹ نوشی سے گریز نہ کرتے ہوئے بے شمار سگریٹ پینے لگا تھا۔۔۔۔۔اکثر رات ،ثانیہ بے چین ہوجاتی  اورصوفے سے اٹھ کر باہر بالکونی میں  چلی جاتی۔یخ بستہ ٹھنڈ کے باوجود وہ سگریٹ بجھا کر اسے اندر آنے کو نہ کہتا۔۔صبح بے چاری  زکام میں گرفتار نظر آتی اور اپنی سرخ ناک کو ٹشو سے بار بار صاف کرتی ہوئی بڑے صبر و تحمل سے بکھرے سگریٹ کے ٹکڑے سمیٹ دیتی۔  وہ ایسا نہ تھا اسے سگریٹ کی راکھ  سوائے ایش ٹرے کے کہیں جھاڑنا پسند نہ تھا۔شاید ضد نے اسے یوں سرکش بنادیا تھا۔
تم اچھی ہو۔۔۔۔۔!!!وہ ثانیہ کے اس تحمل پر دل ہی دل میں تعریف کیے بنا رہ نہیں پاتا۔کبھی کبھی دل کی بات لبوں تک پھسل آتی تووہ طنز سے مسکرادیتی
شکر ہے۔۔۔۔۔!!!۔
تم چلی کیوں نہیں جاتی؟
بے پناہ خاموشیوں کی چادر ہٹا کر بس   یہی ایک جملہ وہ کہتا اور ثانیہ جواب میں صرف مسکرادیتی۔
تمہیں اس بات کا کوئی اندازہ بھی نہیں کہ تمہاری یہ مسکراہٹ مجھے کس قدر زہر لگتی ہے!
اچھا !  وہ بس ایک سرد نگاہ  اٹھاکر اس کی جانب دیکھتی پھر اپنے کام میں لگ جاتی۔
یار میں پک چکا۔۔۔۔۔۔۔۔تم سے فرار چاہتا ہوں۔وہ اپنے بال نوچ ڈالتا۔
اس کے لئے دادو کی اجازت لے لیں۔۔۔۔وہ تمسخر سے ہنستی ہوئی کہہ دیتی۔
آجکل تم بھی دادو کے نام کا کافی رعب جمارہی ہو۔۔۔۔؟
کیونکہ اس خاندان کے وہی فائنانس منسٹر ہیں۔
شٹ اپ۔۔۔!
جی شکریہ۔۔۔!
کبھی کبھی جب وہ دوپہر میں  سورہی ہوتی تو رضا اونچی آواز میں میوزک سننے لگتا۔۔۔۔وہ نیند میں چیخ اٹھتی۔
مسڑ نارِسقر! اس میوزک کا گلہ دبا ئیں۔۔۔
نار سقر۔۔۔۔۔؟ وہ جھلا کر نیند میں ڈوبی ثانیہ کو گھورنے لگتا۔۔۔۔۔لیکن وہ کروٹ بدل کر اپنی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ نیند کے مزے لوٹ رہی ہوتی۔ رضا کئی لمحے مبہوت کھڑا اس خوبصورتی کے مجسمے کو تکتا رہ جاتا۔۔۔۔۔
بدن درد کررہا ہے۔۔۔۔۔کسی کی نظربد کا حملہ محسوس کررہی ہوں۔۔۔۔۔وہ دوبارہ کروٹ لے کر اس کی جانب رخ کرتے ہوئے جیسے اس کی چوری رنگِ ہاتھ پکڑ تی ہوئی تمسخر سے ہنس دیتی۔
تب رضا سٹپٹاکر کمرے سے باہر نکل جاتا۔۔۔۔۔ 
ثانیہ اچھی لڑکی تھی بہت خوبصورت ،بے انتہا حسین، اسے پانے کی حسرت تو ہر نوجوان کے دل میں تھی۔ خود رضا بھی اکثر تنہائی میں اس کے معطر سراپے سے محظوظ ہوا تھااور دل نے چپکے سے خواہش کی تھی کہ زندگی میں اس جیسی شریک حیات مل جائے توزندگی مہک اٹھے۔۔۔۔۔۔کسی ایک دن بھی وہ کالج نہیں آتی تو رضا خود کو کافی بوجھل  تھکا ہوا محسوس کرتا اور نگاہیں اس کے وجود کو تلاش کرتی تھک جاتیں۔۔۔۔
دل کی آرزو رہتی کہ بس اس کودیکھتا ہی رہے۔۔۔۔۔۔۔
اکثر وہ خواب بن کر اس کی پلکوں میں اتر آتی تو دن خوشگوار ہوجاتا۔۔۔۔۔
ایک گھر میں رہتے ہوئے وہ اپنی انا کا مسئلہ بنا کر ایک دوسرے سے بہت دور ہوتے چلے گئے تھے۔۔۔۔۔
رضا حیران تھا ،ثانیہ طبیعت کی جتنی مغرور ،بد تمیز لگتی تھی وہ ایسی بالکل نہیں تھی ،نہایت سلجھی ہوئی۔۔۔ تہذیب و تمدن سے آراستہ،خدمت شعار اور کافی دیندار۔۔۔۔تہجد کی  پابندی بھی کرلیتی تھی جبکہ رضا سے دن میں ایک وقت کی نماز پڑھنا محال  تھا۔
رضا اکثرنظریں بچاکر ثانیہ کو دیکھنے لگتا وہ اس قدر سگھڑ،  سلیقہ شعار تھی ہرلباس  اس پر جچتا تھا۔۔۔۔میک اپ سے عاری چہرہ گھنی زلفیں جو اکثر چہرے کا حصار کئے خوبصورتی میں اضافہ کررہی ہوتیں۔۔دل چاہتا آگے بڑھ کر اس کی بکھری زلفیں سنوار دے لیکن جب وہ سامنے آجاتی تو انا کا مسئلہ درمیان آجاتا اور  وہ تن جاتا۔۔۔۔بے چاری سہم کر پہلو بچا کر نکل جانے میں عافیت سمجھتی تھی۔۔۔۔۔
دادو کا انتخاب واقعی عمدہ  ہے۔۔۔۔وہ تنہائی میں گنگناتا ضرور۔۔۔۔۔
دادو نے ثانیہ کا نام’ اْستانی‘ رکھ چھوڑا،کیونکہ وہ اپنا حساب کتاب طویل فائلوں میں لکھتے ہوئے کافی تھک جاتے تھے۔ثانیہ نے  اْنھیں کمپیوٹر چلانا سکھا دیا،اور حساب وغیرہ بھی کمپیوٹر کے ذریعے ہی رکھا جانے لگا۔۔۔۔اْنھیں ادب سے بے حدلگاؤ تھا تو اچھے مصنفین کی تصانیف آن لائن   ای۔پرنٹ نکال کر اْنھیں مہیا  کر دیتی۔۔۔اس کے علاوہ دادو کی پوری ضروریات کا خیال،جیسے اْنھیں وقت پر دوائی دینا، وقت پر چائے اور اْن کی چہل قدمی کے وقت ان کے ساتھ چلناوغیرہ۔۔۔۔وہ جیسے ثانیہ کے عادی بن گئے۔۔۔۔کوئی لمحہ اس کے بغیر گزارنا محال ہوتا۔۔۔ جبکہ رضا کا موڈ بے قابو ہوتا جارہا تھا۔لہجے کی تلخی ،بد سلوکی اوربے ا عتنائی، جس سے ثانیہ کی انا  بہت مجروح ہوررہی تھی۔لیکن وہ سوائے صبر وتحمل کے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔اسکے والدین نے یہی تعلیم دی تھی کہ قوتِ برداشت اور صبر اختیار کرنا ہی مومن کا ظرف ہے اوربہترین ہتھیار بھی ! والدین کو ثانیہ پربہت اعتماد تھا اْس اعتماد کو ریزہ کرنااور انھیں دکھ سے ہمکنار کرنا، ثانیہ کوگوارہ نہ تھا۔ ابو کی بوڑھی آنکھوں میں اس کی وجہہ سے  آنسو آئے ثانیہ کو کسی قیمت منظورنہ تھا۔زندگی جتنے زخم دے سکتی دے لے ،وہ سارے زخم تنہا سہنا چاہتی تھی۔۔شاید بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہیں ، خود کی  جان پر آجائے لیکن والدین  کا غرور ٹوٹنے نہیں دیتیں۔۔۔!!!
شریک حیات !  اس کے ذہن اور تصور میں خوبصورت احساس تھا  ؛ زندگی کا ساتھی مونس وغم خوار،محرم راز،محافظ مددگار ہوگا۔۔۔۔۔۔جو ہر پل اس کا ساتھ  دیگا۔۔۔۔لیکن افسوس زیست نے عجیب حالات  کے  سپرد کردیا تھا۔۔۔۔۔۔ رضا میں کوئی ایک صفت بھی موجود نہ تھی یا پھر وہ اپنی ان تمام صفات پر بے ا عتنائی کا پردہ ڈال چکا تھا۔پتھر کا انسان۔۔۔۔!!!پتھرکادل۔۔۔۔!!!!اکثرتنہائی میں وہ رضاکوان القابات سے نوازکر دل کی بھڑاس نکال لیتی۔(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: