Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عیدالفطر ، آداب و اعمال

عیدگاہ کیلئے نکلنے سے قبل کھجوریں کھانا  مستحب ہے، عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے لہذا  اس دن کا آغاز روزوں کے عملی خاتمے سے کیا جائے
* *  *ڈاکٹر انجم ظہور۔ جدہ   * *  *
 یہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے۔ ان دنوں مسلمانان عالم سال کے بہترین روحانی ایام گزاررہے ہیں۔ جلد ہی عیدالفطر کا جشن منایا جانے والا ہے۔ آج ہمارے پروگرام کا موضوع عیدالفطر کے آداب و اعمال ہیں۔
    اہل و عیال کے ساتھ عید کا لطف ناقابل بیان ہے۔ مسلمانانِ عالم اسلام کے چوتھے رکن رمضان المبارک کے روزوں کی ادائیگی کی سعادت حاصل کرنے کے بعد عیدالفطرنئے کپڑے زیب تن کرکے مناتے ہیں ۔ ایسا سنت رسول کی پیروی میں کیاجاتا ہے۔ عیدالفطرمنانے کے آداب یہ ہیں۔
    1۔عیدگاہ جانے سے پہلے غسل کرنا: عبداللہ بن عمرؓ  عیدالفطرکے دن عید گاہ جانے سے قبل غسل کیا کرتے تھے۔
    ٭ امام نوویؒ بتاتے ہیں کہ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عید کی نماز کیلئے غسل کرنا مستحب ہے۔
    ٭جمعہ ہو یا اسی طرح کا کوئی اور بڑا اجتماع ، اس میں مسلمان کثیر تعداد میں جمع ہوتے ہیں  مگر عیدالفطر کا اجتماع زیادہ بڑا ہوتا ہے۔ اس موقع پر آس پاس کے مسلمان ایک دوسرے سے تعارف حاصل کرتے ہیں،ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہیں اور کسی ایک جگہ جمع ہوکر عید کی نمازاداکرتے ہیں ۔اس کا تقاضا ہے کہ عید کے اجتماع  میں شرکت کرنے والے صاف ستھرے ہوں اور دوسرے بھائیوں کے لئے تکلیف کا باعث نہ بنیں۔
    2۔عیدگاہ جانے سے قبل کھجوروں سے افطار کرنا: عیدالفطرکے آداب میں سے ہے کہ عیدگاہ جانے سے قبل چند کھجوریں کھالی جائیں،سیدنا انس بن مالک ؓ روایت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رسول اللہ  عیدالفطر کے دن کھجور کھائے بغیر عیدگاہ کیلئے نہیں  نکلتے تھے  (بخاری ) ۔
    ٭عیدگاہ کیلئے نکلنے سے قبل کھجوریں کھانا اس لئے مستحب ہے کیونکہ عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے لہذا انتہائی احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس دن کا آغاز روزوں کے عملی خاتمے سے کیا جائے۔
    ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے کے چکر میں رہتے ہیں ۔ انہیں عید کے دن کھجوروں سے افطار کرکے شروع کرنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے تاکہ حکمِ الٰہی کی تابعداری کو اصل ہدف کے طور پر اجاگر کیا جائے۔
    ٭جس شخص کو کھجورنہ ملے اسے کسی بھی جائز چیز سے ناشتہ کرلینا چاہیئے۔ جہاں تک عیدالاضحی کا تعلق ہے تو اس روز مستحب یہ ہے کہ عیدگاہ سے واپسی تک کچھ نہ کھایا جائے۔ واپسی کے بعد قربانی کے گوشت کا کچھ حصہ استعمال کیا جائے  تاہم یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ عیدالاضحی کے دن، عید کی نماز سے قبل کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
    3۔ تکبیرات العید: عید کے روز تکبیرات اللہ تعالیٰ کی عظیم سنتوں میں سے ایک ہے۔ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی ہدایت کی ہے، ارشاد الٰہی کا ترجمہ ہے ’’تاکہ تم روزوں کی تعدادپوری کرسکواور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار اور اعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘( البقرہ185)۔
    ٭سیدنا الولید بن مسلم بتاتے ہیں کہ میں نے سیدنا مالک بن انسؓ سے عید ین میں تکبیرات سے متعلق سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ  نماز عیدکیلئے امام کے آنے کے وقت تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔
    ٭سیدنا ابوعبدالرحمن اسلمی بتاتے ہیں کہ صحابہ کرام  ؓ عیدالاضحی کے مقابلے میں عیدالفطر کے موقع پر تکبیرات کا زیادہ اہتمام کرتے تھے۔
    ٭دارقطنی میں ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ جب عیدالفطر یا عیدالاضحی مناتے تو عیدگاہ تک تکبیرزور،زورسے کہا کرتے تھے ۔ وہ امام کے مصلے پر جانے تک تکبیر کہا کرتے تھے۔امام الزہری بتاتے ہیں کہ صحابہ گھروں سے لیکر عید گاہ تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔ عیدگاہ میں امام کے مصلے پر پہنچنے تک بھی تکبیرات کہتے تھے۔ سلف صالحین میں عید کے موقع پر تکبیرات کا رواج مشہورتھا۔ بہت سارے مصنفین مثال کے طور پر ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب ’’احکام العیدین‘‘میں سلف صالحین کے حوالے سے یہی بات تحریر کی ہے۔ اسی ضمن میں یہ بھی آیا ہے کہ سیدنا نافع بن جبیر تکبیرات کہا کرتے تھے اور اگر دیگر لوگ تکبیرات نہ کہتے تو وہ اظہارتعجب کرتے ہوئے کہا کرتے کہ آپ لوگ تکبیرنہیں کہہ رہے ؟ ۔ ابن شہاب الزہریؓ کہتے تھے کہ لوگ گھروں سے نکلنے کے وقت سے لیکر امام کے مصلے پر پہنچنے تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔
    ٭عیدالفطر میں تکبیر کا وقت چاند رات سے شروع ہوتا ہے اور امام کے عیدگاہ میں مصلے پر جانے تک چلتا ہے۔
    ٭سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓبتاتے ہیں کہ تکبیر کیا ہے؟کہتے   کہ تکبیر یہ ہے : اللّٰہ اَکْبَرُ کَبِیْرَا،اللّٰہ اَکْبَرُکَبِیْرَا،اللّٰہ اَکْبَرُوَاَجَلْ،اللّٰہ اَکْبَرَوَلِلّٰہِ الْحَمْد۔
    6۔عید کی مبارکباد: عید کے آداب میں عید کی مبارکباد بھی آتی ہے۔ لوگ اپنے اپنے الفاظ میں عید کی مبارکباد دیتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں : اللہ آپ کے اور ہمارے روزے قبول فرمائے۔ بعض کہتے ہیں: عید مبارک ہو، وغیرہ وغیرہ۔
    سیدنا جبیر بن نفیربتاتے ہیں کہ رسول اللہ کے صحابہ جب ایک دوسرے سے عید ملتے تو کہا کرتے تھے کہ’’اللہ ہماری اور آپ کی عبادت قبول فرمائے۔‘‘ اس سے پتہ چلتا ہے کہ  صحابہ کرامؓ میں عید کی مبارکباد کارواج تھا۔ امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر علماء نے کہا ہے کہ عید کی مبارکباد میں کوئی حرج نہیں ۔ عید کی مبارکباد کے جائز ہونے کا ثبوت وہ روایات بھی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ صحابہ  ؓ خوشی کے مواقع پر ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے تھے، مثال کے طور پر کسی کی توبہ قبول ہونے کا پتہ چلتا تو وہ اسے مبارکباد دیتے تھے۔
    اس سے قطع نظر یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ عید کی مبارکباد ، اعلیٰ اخلاق اور خوبصورت سماجی رواج ہے۔
    5۔ عیدین کیلئے آراستہ ہونا: سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بتاتے ہیں کہ سیدنا عمر ؓ نے ریشم کا ایک جبہ فروخت ہوتے دیکھا ۔ انہوں نے اسے خریدااور رسول اللہ کے پاس لیکر گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ()! ایسا جبہ خرید لیجئے، عید پر اسے پہن کر آراستہ ہویئے گا۔ وفود کی آمد پر بھی اسے زیب تن کیجئے گا۔ رسول اللہ نے یہ سن کر فرمایا:یہ ایسے لوگوں کا لباس ہے جو اخلاق سے کورے ہوتے ہیں(بخاری )۔
    اس سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ    عید پر آراستہ ہونے کے قائل تھے البتہ ریشم کی وجہ سے جبہ کے سودے کو ناپسند فرمایا۔
    سیدنا جابرؓبتاتے ہیں کہ نبی کریم  عیدالفطر ،عیدالاضحی اور جمعہ کے روز جبہ پہنا کرتے تھے۔ بیہقی میں صحیح روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر  ؓؓعید پر بہترین کپڑے زیب تن کیا کرتے تھے۔ اس سے پتہ چلا کہ انسان کو عید کے دن بہترین کپڑے  بھی پہننے  چاہئیں ۔ جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو انہیں عیدگاہ جاتے وقت آرائش سے بچنا چاہیئے۔ خواتین اجنبی لوگوں کے سامنے آرائش کا مظاہرہ نہ کریں اور عیدگاہ جاتے وقت خوشبو لگانے سے بھی پرہیز کریں۔
    6۔ عیدگاہ ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا: سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم  عید کے دن ، عیدگاہ آنے جانے کیلئے الگ الگ راستے کا انتخاب کیا کرتے تھے(بخاری)۔
    اس کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ قیامت کے دن، دونوں راستے ان کی آمد و شدکی گواہی دینگے۔ قیامت کے دن زمین گواہی دیگی کہ کس نے اس پر کیا اچھا کیا اور کیا براکیا۔بعض لوگوں نے اس کی حکمت یہ بتائی ہے کہ اس کا مقصد الگ راستوں پر اللہ تعالیٰ کے شعائرکا بھرپور اظہار بھی ہے۔دیگر کی سوچ یہ ہے کہ ایسا ذکر الٰہی کیلئے کیا گیا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مختلف راستوں سے آتے جاتے وقت لوگوں کی ضروریات پوری کرنے، رشتے داروں سے ملنے اور صدقہ و خیرات تقسیم کرنیکا امکان بڑھتا ہے۔
    7۔ رشتہ داروں اور احباب سے عید ملنا: صلہ رحمی بہت بڑی عبادت ہے۔خوشی کے مواقع پر صلہ رحمی کا ثواب بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ عید کے موقع پر سارے مسلمان، خوشی مناتے ہیں ایسے عالم میں صلہ رحمی کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ آپ اس کا خاص خیال رکھئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ، ہمارے اعمال صالحہ قبول فرمائے اور پیار محبت کے رشتے ہمیشہ قائم و دائم رکھے، آمین یارب العالمین۔
مزید پڑھیں:- - - - روزوں کا حقیقی مقصد کیا ہے؟

شیئر: