Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”سانس در سانس ہجر کی دستک::کتنا دشوار ہے وداع ہونا“

مسز ربانی۔جدہ
آج کئی خلیجی ممالک میں رہنے والے اس تجربے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ اپنی بھری ہوئی کائنات کو چھوڑ کر جانے کیلئے ،نہ چاہتے ہوئے بھی بھرا پرا گھر آدھی پونی قیمت پر فروخت کرنے پر کون ، کب اور کیسے مجبور ہو رہا ہے۔اب تو نوبت یہ بھی آگئی ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ قیمت بھی ادا نہ کریں بلکہ فری میںلے جائیں کیونکہ اب یہ سامان ساتھ لے کر جانا بھی ان کے بس میں نہیں۔
روزانہ کی بنیاد پر خریداری کرکے، جگہ جگہ کی خاک چھان کر ،عمدہ لکڑی کا فرنیچر ، دھکے کھاکر سیل پر لگنے والے ڈیکوریشن پیس ، بہترین میچنگ پردے اور مہنگے قالین، سب چھوڑ کر صرف وہ ضروری سامان لے جا رہے ہیں جس کو اٹھانا آسان ہے، جس کو لےجانے کا کوئی مقصد ہے اور جہاں ہم نے جانا ہے، وہاں وہ استعمال کے قابل ہے۔
کھلی کھلی نشانیاں ہیں۔ دل کی وہ حالت ہے کہ نہ وہ روتا ہے، نہ غمگین ہے، نیم بے ہوشی کی حالت میں جو ہورہا ہے، بس ہوجائے کیونکہ دستاویزات کے حوالے سے اتنے مسائل ہیں ۔ پھر ساتھ ہی ساتھ بسے بسائے گھر کے جانے کا افسوس ہوتا ہے،دل چاہتا ہے کہ بس کچھ بھی ہو، جب جانا ہی ٹھہرگیاہے تو جلدی سب کچھ ہوجائے۔ ہم نے یہاں اطمینان و سکون اور عزت والی زندگی گزاری بلکہ زندگی کا بہت زیادہ حصہ گزار دیا ۔ 35 سال ایک عرصہ ہوتا ہے۔ کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں تھاکہ ہمارا وطن کہاں ہے، ہمیں تو یہ دیار مقدس بھی وطن ہی لگتا ہے۔ہم یہاں اتنے خوش، اتنے مگن تھے کہ آگے کچھ کرنے کاارادہ کیا نہ پیچھے مڑ کر دیکھا۔ نہایت سکون سے ٹھنڈے ٹھنڈے بستر پر سوتے اور گاڑی بھگاتے آفس پہنچ جاتے۔ اذان اور نماز کی آوازیں اتنی صاف آتیں کہ مسجد کی طرف خود بخود قدم اٹھ جاتے تھے یعنی ایک آئیڈل زندگی جس کے چھوڑنے کا ملال آج تقریباً ہر چہرے پر نظر آتا ہے۔واقعی کتنا مشکل ہے الوداع کہنا۔ کسی شاعر نے کہا ہے ناں کہ:
سانس در سانس ہجر کی دستک
کتنا دشوار ہے وداع ہونا
لوگوں کا سوال بھی دل کو پرملال کرتا ہے کہ آپ نے گھر بنالیا ؟ وطن جاکر کوئی گھر ہے رہنے کیلئے ؟ کچھ کاروبار ہے ؟یعنی اب سارا وقت گزارنے کے بعد ان باتوں کا خیال آنا بے مقصد ہے۔ رزق تو اللہ کریم نے سب کا لکھ دیا ہے۔ آنا اور جانا بھی اسی کے اذن سے ہے مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم نے اس عیش و عشرت میں اپنی واپسی کا کبھی گمان بھی نہیںکیا تھا جبکہ سوچنا چاہئے تھا کیونکہ ہمارا تو ایمان ہی یہ ہے کہ جو جہاں بھی ہے اس کو وہاں سے جانا ہے۔ اس صورت میں یا کسی اور صورت میں تیاری تو کرنی ہی تھی۔
یہاں کچھ ایسے معاملات جن پر دل کڑھتا ہے کہ کیو ں انسان اتنا بے خبر ہے، کیوں وہ اپنی اتنی قیمتی زندگی کو فتنوں میں مبتلا کرتا ہے کیونکہ ہم زندگی کو کھلی آنکھوں سے نہیں دیکھتے ۔کہیں بھی رہنے کیلئے جو زندگی کی ضروریات ہیں، ان پر اکتفا کیوں نہیں کرتے ۔ہر چیز ضرورت سے زیادہ اور مہنگی ترین صرف اپنے نفس کی تسلی کیلئے کیوں؟ پروگرام تو سارا ہمارا نفس ہی بناتا ہے۔ شیطان تو صرف اس کو ہوا دیتا ہے ، ابھارتا ہے، اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اکساتا ہے۔ کیا کرایا تو ہمارا اپنا ہی ہوتا ہے۔ 
اگر انسان میں شکر کی عادت ہے ، عیش میں فقیرانہ انداز ہو، اقتدار میں آکر عاجز ہو، بھری ہوئی جیب پر دوسروں کا حصہ بھی ہو۔ جوانی ہو اور عبادت کا شوق ہو، وہ کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔ ہم نے کہیں نہ کہیں اپنی ذات پر اسراف کیا ، کہیں نیکی میں بخل کیا اور کبھی اپنی جوانی کی بہترین طاقت کو پڑھنے اور کمانے میں خرچ کیا۔ کاش ہم نے اپنا وقت دین پر لگایا ہوتا تو آج ملال کے بجائے سکون ہوتا کہ یہ بھی حکم الٰہی ہے ۔ جو رب کریم کا فیصلہ ،اس پر ہم راضی۔ 
فی الوقت جو سودا ہے وہ رضا کا نہیں ،مجبوری کا سودا ہے ورنہ کون اپنی قیمتی چیزیں کسی کو یوں مفت دیتا ہے۔ کون اپنا بنا بنایا گھر چھوڑ کر جاتا ہے۔ہمارا حال یہ ہے کہ گھر کو سجا سجا کرایک نشانی بنا دی ہے کہ ہر آنے جانے والا تعریفی کلمات درج کرے اور صاحب خانہ کی سلیقہ مندی کی تعریف کرے۔ صاحب خانہ ان چیزوں کی صفائی اور ان کی حفاظت میں مگن رہے۔ ان فتنوں نے زندگی کے دوسرے رخ کی طرف دیکھنے کا موقع ہی نہیں دیا۔
میں آج تجزیہ کرتی ہوں تو سوچتی ہوںکہ اس سارے سامان کا کیا مقصد تھا جبکہ ساتھ میں صرف کچھ ضروری چیزیں ہی جاسکتی ہیں۔ کتنی بڑی نشانی ہے خالق کائنات کی کیونکہ رب العزت نے تو انسان کو کھلے لفظوں میں پیغام عطا فرما دیا ہے کہ خالی ہاتھ آتے ہو ، خالی ہاتھ ہی لوٹنا ہے۔ بس بہترین عمل صدقہ جاریہ ، نیک اولادہی کام آئے گی۔
پھر مجھے قیامت کی وہ گھڑی یا د آئی جس کا حال ہم نے سن رکھا ہے کہ گرمی کی شدت اور افراتفری اس قدر ہوگی کہ گنہگار کہیں گے کہ اگر جہنم ہی ہمارانصیب ہے تو فیصلہ ہوجائے تاکہ انتظار کی اس تکلیف سے جان چھوٹے۔
پھر ہم نے اگر اس اطمینان والی زندگی میں دین کا علم نہیںسیکھا تو آگے ہمارے پاس نہ چین ہوگا نہ سکون، نہ آسائش نہ پرتعیش زندگی ۔ تو کیا ہم اس حال میں اپنے رب کریم کا شکر ادا کرنے، اسکی تسبیح و تہلیل کرنے ،اسکا ذکر کرنے ،اسکے آگے سجدے کرنے کے لائق ہونگے؟
 

شیئر: