Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الحدیدہ پر حملہ کون رکوائے گا؟

 عبدالرحمن الراشد ۔الشرق الاوسط
اب جبکہ عرب اتحاد میں شامل افواج اور یمن کی سرکاری افواج الحدیدہ پہنچ چکی ہیں، تب جاکر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایوانوں میں زندگی کی لہر دوڑ نا شروع ہوئی ہے۔کئی تنظیمیں اور کئی حکومتیں مطالبہ کرنے لگی ہیں کہ الحدیدہ پر فوجی حملہ بند کرایا جائے۔ یہ تنظیمیں، یہ حکومتیں وہاں قتل عام کے خدشات کا واویلا مچا رہی ہیں۔
یمن کے نئے وزیر خارجہ خالد الیمانی نے اس حوالے سے جو بیان دیا ہے، اسے شافی کافی نہیں کہا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایک ریاست ایسی ہے جو الحدیدہ کو حوثی باغیوں سے آزاد کرانے کی مخالفت پر کمر بستہ ہے۔ الیمانی نے اس ریاست کا نام نہیں لیا تاہم انہوں نے اشاروں کنایوں کی زبان میں خبروں پر نظر رکھنے والوں کو یہ عندیہ ضرور دیدیا کہ وہ ریاست کون ہے۔ یمنی وزیر خارجہ نے اس ریاست کی نشاندہی یہ کہہ کر کی کہ الحدیدہ کو آزاد کرانے کی مخالفت کرنےوالی ریاست وہی ہے جو شام میں شہریوں کے تحفظ کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ 
بہت سارے لوگوں کے ذہنو ںمیں یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شامل بڑے ممالک یمنی جنگ کی بابت کوئی مداخلت کرینگے۔ یہ وہ ممالک ہیں جو یمن کی آئینی حکومت کی بحالی کیلئے مداخلت سے معذرت کئے ہوئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یمن کی آئینی حکومت بغاوت کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد وں سے خود کونسل کی دستبرداری کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی۔ علاوہ ازیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ، حوثی باغیوں کی پشت پناہی پر ایران کی مذمت صرف اس وجہ سے نہیں کرسکی کیونکہ ایک ووٹ کم رہ گیا تھا۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی خاطر اتحادی افواج کے توپخانے گولہ باری کیوں بند کریں؟ ایسی صورت میں گولہ باری بند کرنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا جبکہ الحدیدہ بندرگاہ پر قبضہ اتحادی افواج کےلئے ممکن ہے اور الحدیدہ حوثیوں کیلئے بیحد اہم ہے۔ کیا اتحادی افواج الحدیدہ پر قبضے کا پروگرام صرف اس وجہ سے منسوخ کردیں تاکہ سلامتی کونسل کے رکن 5 ممالک سے یمن میں بغاوت کے خاتمے کیلئے درکار عسکری و سیاسی اقدامات کی تائید و حمایت حاصل کی جاسکے۔
ایران اور حوثی الحدیدہ میں بڑے قتل عام کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ دلیل یہ ہے کہ حوثی باغی رہائشی علاقوں میں گھس گئے ہیں اورشہریوں کو ایک طرح سے یرغمالی بناکر دیوارِ امن کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ 2006ءکے دوران حزب اللہ نے اسرائیل کیساتھ جنگ میں یہی حربہ استعمال کیا تھا۔ حزب اللہ نے سرحدوںپر حملہ کرکے راہ فرار اختیار کی تھی۔ حزب اللہ کے جنگجوﺅں نے جنوبی لبنان کے قریوں میں میزائل نصب کئے تھے تاکہ اسرائیلی لڑاکا طیارے انہیں نشانہ بنائیں۔ محاذ آرائی کے دوران حزب اللہ کے بیشتر جنگجو میدانِ کار زار سے نو دو گیارہ ہوگئے تھے۔ وہ لبنان کے شہروں اورقریوں کو اسرائیلی توپخانوں اور میزائلوں کے رحم و کرم پرچھوڑ کر چل نکلے تھے۔ حوثی باغی بھی حزب اللہ کا یہی حربہ الحدیدہ میں استعمال کررہے ہیں۔
الحدیدہ کو جلد از جلد آزاد کرانے کے بڑے فوائد ہونگے۔ یہ علاقہ حوثیوں کیلئے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں تک صنعاءکا معاملہ ہے تو شروع میں یہ انکے لئے فائدہ مند ثابت ہوا تھا تاہم سینٹر ل بینک کو دیوالیہ بنانے اور کمرشل بینکوں کو لوٹنے کے بعد صنعاءمیں انکے لئے کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ اس کی حیثیت ایک سیاسی علامت کی تھی اور وہی اب بھی ہے۔ جہاں تک حدیدہ کا تعلق ہے تو اسکی بندرگاہ سے آنےوالے سامان پر یہ ٹیکس وصول کررہے ہیں۔ ہتھیار درآمد کررہے ہیں۔ ایران سے ملنے والی امداد وصول کررہے ہیں۔اتحادی افواج کی جانب سے اس کی بازیابی سے حوثی اپنی شہ رگ سے محروم ہوجائیں گے۔
بعض لوگ آرزو کررہے ہیںکہ خونریزی کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کرکے الحدیدہ کی گتھی سلجھا لی جائے۔ حل کوئی ایسا ہو جو فریقین کیلئے قابل قبول ہو۔ کچھ لوگ یہ سرگوشیاں بھی کررہے ہیں کہ حوثیوں کو عارضی طور پر وہاں رہنے اور پھر وہاں سے نکلنے کا موقع مہیا کردیا جائے اوراس شہر اور بندرگاہ کو عالمی انتظامیہ میں دیدیا جائے۔ سعودی عرب نے 3ماہ قبل یہ پیشکش کی تھی جسے حوثیوںنے ٹھکرا دیا تھا۔ سعودی عرب چاہتا تھا کہ اگر ایسا ہوجائے تو امدادی سامان وہاں پہنچانا ممکن ہوگا اور حوثیوں کی لوٹ مار سے اسے بچانا یقینی بن جائیگا مگر حوثیوں نے سعودی عرب کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ اب جبکہ بندرگاہ پر قبضہ یقینی ہوگیا ہے، ایسی حالت میں عرب اتحادکی طرف سے اسے اقوام متحدہ کے انتظام میں دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یمن کی سرکاری افواج وہاں کے انتظامات زیادہ بہتر شکل میں کرسکتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: