Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گھوڑوں پر زینیں

***محمد مبشر انوار***
1439ہجری کا رمضان اپنی رحمتیں،برکتیں کھیرتا ہم سے رخصت ہوا۔الحمد للہ ،ثم الحمدللہ کہ اللہ رب العزت نے ایک اور رمضان عطا کیا۔ایک اور موقع ہم جیسے گنہگاروں،دنیاداروں کو عطا کیا کہ ہم اللہ کے احکامات کی بجا آوری کر سکیں،اپنے طرز زندگی کو اسکے احکامات کے مطابق ڈھال سکیں،اس کی بندگی کا اقرار کر سکیں(گو کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوامگر اپنی سی کوشش تو کی)۔اب یہ اس ذات باری تعا لیٰ پر منحصر ہے کہ ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو قبولیت بخش دے یادنیاداروں،مادہ پرستوں کی ان عبادات کو ہمارے منہ پر دے مارے کہ یہ حق اسی کو حاصل ہے۔ فقط ایک چیز ہے جو حوصلہ بخشتی ہے کہ اللہ تبارک و تعا لیٰ فرماتاہے کہ مجھ سے جو گمان رکھو گے مجھے ویسا ہی پاؤ گے۔صرف یہی ایک سہاراہم آسیوں کی بخشش کا ہے کہ اس کی ذات اگر قہار و جبار ہے تو غفورو رحیم بھی ہے اور مجھ جیسے گنہگاروں کو اپنے رب سے اس کی رحمت کا آسرا ہے کہ وہ اپنی رحمت سے ہمیں بخش دے۔ہماری عبادتوں کی نہ تو اسے ضرورت ہے اور نہ ہم حقِ بندگی ادا کر سکتے ہیں۔
رمضان کی آمد اور بالخصوص آخری عشرہ میں عاشقان رسول(جنہیں استطاعت بخشی اور جن کی حاضری اپنے اور اپنے حبیب ؐکے در پر لکھ دی) جوق در جوق حرمین کا قصد کرتے ہیں کہ اس ماہ ِمبارک کی ایک رات ایسی فضیلت والی ہے کہ اس رات کی گئی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ اللہ رب العزت کا اس گنہگار پر خصوصی کرم ہے (جس کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہوںکہ اللہ کی کس کس عنایت کا شکر کروں؟)کہ گزشتہ 3 سالوں سے ماہ رمضان میں نہ صرف اپنے در پر حاضری کا شرف بخشتا ہے بلکہ رمضان کا آخری عشرہ اپنے حبیبکے روضے پر گزارنے کی توفیق عطا کرتا ہے۔ ان 3 سالوں میںدرحبیب پر کیسے کیسے گوہر نایاب ہیںجو آج کی مادہ پرست دنیا میں دیگر پُرکشش مواقع ہونے کے باجودمدینہ الرسولؐ میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انہی میں سے ایک ڈاکٹر اسامہ محی الدین ہیںجو 17ممالک میںمسلمان خاندانوں،بالخصوص بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت ،کے کنسلٹنٹ ہیں مگرسراپا عجز و انکساری کا پیکر،خوبصورت انداز بیاں،جس سے بیشتر اوقات علم کے بیش قیمت موتی انتہائی سادگی کے ساتھ حاضرین پر لٹاتے نظر آتے ہیں۔ حرم مدنی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک ضیوف الرحمان کی خدمت میں مشغول،جیب خاص سے فوری دواؤں کا اہتمام کرتے ہیں کہ زائرین عبادات میں یکسوئی حاصل کر سکیں۔میں خود لیگا منٹ (ligament)کا شکار تھا ۔ بائیں گھٹنے میں شدید تکلیف تھی۔نہ کھڑے ہوئے اس پر پورا وزن ڈال سکتا تھا اور نہ ہی تشہد میں گھٹنا موڑ کر بیٹھ سکتا تھا۔ڈاکٹرصاحب کو کیفیت بتائی تو فوری 2گولیاں عنایت کیںاور پھر باقی دنوں میں نہ صرف حال احوال پوچھتے بلکہ خود دوائی بھی کھلاتے جس کے باعث آخری عشرہ سکون سے گزرا۔محترم سجاد،برادرم سعید وسیم،برادرم ایاز جو گزشتہ کئی سالوںسے مانچسٹر سے بارگاہ رسالت مآب میں باقاعدگی سے حاضری دینے آتے ہیں،برادرم نعمان جو مکہ مکرمہ سے ہمارے ساتھ شامل ہوتے ہیں،یوں ہم 10,8 دوست حرم مدنی کے جنوبی طرف(باب بدر)میں برادرم محمد حمد العقیل کے دستر خوان پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس بار ایک اور خوشگوار حیرت یہ ہوئی کہ پاکستان سے میرے محترم جناب شہزاد شوکت، سینیئرایڈوکیٹ سپریم کورٹ،ان کے دوستوں جناب جاوید مغل (مغل ا سٹیل)اور جناب جمال سے بھی ملاقات ہوئی کہ یہ اصحاب بھی گزشتہ کئی سالوں سے آخری عشرہ حرم مدنی میں گزارتے ہیں۔ جناب جاوید مغل کو اللہ تبارک و تعا لیٰ نے اپنے مہمانوں کی مہمانداری کیلئے بھی منتخب کر رکھا ہے اور ان کے وسیع دستر خوان پر افطاری کا پر تکلف اہتمام ہوتا ہے۔اللہ اپنے اور اپنے حبیبکے در پر حاضر ہونے والوں کی تمام جائز خواہشات کو پورا کرے اور سب کی حاضری کو قبول فرمائے،آمین۔
ذاتی حاجات کیلئے دعاؤں کے علاوہ ایک قدر مشترک تقریباً سب پاکستانیوں میں محسوس کی کہ انہیں پاکستان کے حوالے سے متفکر پایا ۔بات صرف یہیں تک محدود نہیں تھی،اکثریت درد دل سے پاکستان کی سالمیت و حفاظت کیلئے اللہ کے حضور گڑگڑاکی دعائیں مانگتے رہے، اس کی ترقی و خوشحالی اور بہتر قیادت کیلئے التجائیں کرتے رہے۔ لیلتہ القدر کے حوالے سے اس مرتبہ اکثریت کا گمان یہی تھا کہ 23ویں رات لیلتہ القدر تھی۔ وہ تمام نشانیاں جو لیلتہ القدر کے حوالے سے منسوب ہیں،اس رات نظر آئیںاور اسی شب امام مسجد نبوی شریف نے انتہائی گڑگڑا کر،امت محمدیؐ کے گناہوں کی اللہ کے حضور معافی طلب کی۔اسلام اور اہل اسلام کی سر بلندی،اسلام کی عظمت کی دعائیں مانگی۔ ایسی روح پرور ساعتیں،ایسا عظیم اجتماع اور ایسی عاجزی و انکساری۔یہ حاصل تھا مسجد نبوی شریف میں حاضری کا مگر دل انتہائی گرفتگی و کرب میں تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اسلام اور اہل اسلام دونوں پستیوں کا شکار ہیں؟اتنے آنسو،سسکیاں،گڑگڑاہٹیں،عاجزی و انکساری،لیلتہ القدرمیں عبادت اور دعائیں لیکن دنیا کی ایک چوتھائی آبادی مسلسل ہزیمت کا شکارکیوں؟؟۔قوانینِ فطرت اٹل اور حقیقی ہیں۔جب تک ا ن پر پورا نہ اترا جائے،ان کی شرائط پوری نہ کی جائیں،ان کے ثمرات حاصل نہیں ہو سکتے۔ فرزندان اسلام ہونے کے باوجود دنیا میں پنپنے اور زورآور بننے کی شرائط پور ی نہیں کی جاتیںتو یہ ممکن نہیں کہ فقط دعاؤں کے بل بوتے پر اسلام یا اہل اسلام کو سربلندی حاصل ہو سکے۔ قرآن میں فرمان ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے،تفکر و تدبر کا حکم قرآن میں ہے۔نبی اکرم کا فرمان مبارک ہے کہ علم حاصل کروخواہ چین جانا پڑے لیکن آج عاشقان رسولان تمام احکامات سے دور ہیں۔
آج یہود و نصاریٰ اپنے تئیںمسلمانوں کو یا تو سلائے رکھنا چاہتے ہیں یا آپس میں جوتم پیزاراور خود ہر نئے دن ایک نئی تحقیق اور نئی ایجاد کے ساتھ قلانچیں بھرتے کوسوں آگے جانے کے خواہشمند۔ مسلمانوں پر جدید علوم کے دروازے مشتبہ 9/11کے بعد سے بند ہیں ۔مسلم ریاستوں میں ایسی درسگاہیں نا پید ہیں جو عالمی سطح کے تحقیق کار یا سائنسدان پیدا کر سکیں۔باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کو جدید علو م سے دور رکھا جا رہا ہے۔ ماسوائے چند ایک مسلمان ممالک کے ،تمام مسلم ممالک اپنی ضروریات زندگی کی اشیاء ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کرتے ہیں۔کارپوریٹ کلچر اس پسماندگی کا بھر پور فائدہ اٹھا رہا ہے اور مسلم ممالک کی معدنیات یا خام مال اونے پونے خریدکر فنشڈ پراڈکٹ مہنگے داموں فروخت کر رہا ہے۔سونے پہ سہاگہ نا اہل اور کرپٹ حکمران ہیں جو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ذاتی مفادات کے عوض یہ سہولیات فراہم کرکے اونٹ کی کمر پر تنکا تنکا اکٹھا کرتے جا رہے ہیں۔ مسلم ممالک میں اس وقت فقط پاکستان ،ترکی یا ملائیشیا ایسے ہیںجہاں صنعت کے ساتھ ساتھ دفاعی سازو سامان بھی تیار کیا جا رہا ہے لیکن اسکے باجود یہ ممالک اپنے دفاعی منصوبوں میں کسی نہ کسی حوالے سے غیرمسلم ممالک کے ساتھ شراکت دار ہیں۔ ایسی صورتحال میں یہ کیسے ممکن ہے کہ مسلم ممالک ،جو فقط دعاؤں کے طفیل اقوام عالم میں سربلندی کے خواہشمند ہیں،قوانین قدرت کی شرائط پوری کئے بغیر عروج کی منزلیں حاصل کر سکیںکہ اقوام عالم میں عروج ایک طرف تفکر و تدبر و تحقیق کا متقاضی ہے تو دوسری طرف ہمہ وقت گھوڑوں پر زینیں کسے رکھنے سے ممکن ہے،بد قسمتی سے ہم دونوں حوالوںمیں ناکام ہیں۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں