Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک اولمپکیانہ خواہش

***وسعت اللہ خان ***
میری بھی کچھ چھوٹی چھوٹی خواہشات ہیں۔جیسے روس میں فٹ بال ورلڈ کپ کے میچوں کا احوال سن سن کر ان دنوں میں اس نیت سے پیسے جوڑ رہا ہوں کہ بشرطِ زندگی جولائی2020 کے ٹوکیو اولمپکس جا کے دیکھوں اور  2ہزار برس پر پھیلی اس اولمپک تاریخ کا حصہ بن جاؤں جس کا سفر 776قبلِ مسیح میں یونانی شہری ریاست اولمپیا میں زیوس دیوتا کے اعزاز میں ہونے والے ٹورنامنٹ سے ہوا۔اس میں پہلی جیت کوروبئیس نامی باورچی کی ہوئی اور اس کے سر پر زیتون کی پتیوں سے بنا تاج سجا۔ 
جب روم نیا نیا عیسائی ہوا تو اسے عسکری اعتبار سے زوال پذیر یونان کی ’’ مشرکانہ و بت پرست تہذیب‘‘سے نفرت ہونا شروع ہوئی۔ تمام غیر مسیحی کافرانہ یونانی رسومات کو عبادت گاہوں سمیت حرام قرار دے دیا گیا۔اولمپک گیمز بھی اسی رگڑے میں آ گئے اور  اگلے ڈیڑھ ہزار برس کیلئے غائب ہو گئے۔
بھلا ہو انیسویں صدی کے ایک صاحبِ حیثیت فرانسیسی ماہرِ تعلیم و مورخ بیرن پیرے کوبرتاں کا جنہوں نے جدید اولمپک تحریک کی بنیاد رکھی۔کوبرتاں کا خیال تھا کہ جنگیں قوموں کے مابین فاصلہ بڑھاتی ہیں جبکہ کھیل قوموں کو قریب لاتے ہیں۔
چنانچہ پہلے جدید اولمپکس کی مشعل1896ء  میں ایتھنز میں روشن ہوئی۔ان اولمپکس میں14 اقوام کے241 مرد ایتھلیٹس نے حصہ لیا۔ایک تجویز یہ بھی آئی کہ قدیم اولمپک روایت کے احترام میں ہر4 برس بعد ایتھنز میں ہی یہ کھیل مستقلاً منعقد کروائے جاتے رہیں لیکن پھر کثرتِ رائے سے فیصلہ ہوا کہ انہیں پوری دنیا میں گردش کرنا چاہئے تاکہ عالمی بھائی چارے کے فروغ کا مقصد واضح ہو سکے (اولمپک پرچم میں ایک دوسرے سے جڑے5 رنگین دائرے اسی لئے ہیں ) 
چنانچہ دوسرے اولمپک گیمز1900ء میں پیرس میں منعقد ہوئے اور ان میں خواتین ایتھلیٹس نے بھی پہلی بار مردوں کے شانہ بشانہ حصہ لیا۔آج صنفی مساوات کے حالات یہ ہیں کہ2012ء کے لندن اولمپکس میں کوئی اولمپک وفد ایسا نہ تھا جس میں خواتین ایتھلیٹس کی نمائندگی نہ ہو ( سعودی عرب سمیت )۔
جدید اولمپک تحریک خاصی سخت جان ہے۔یہ2 عالمی جنگیں ، بائیکاٹ ، دہشت گردی ، اسٹیمنا نواز نشیلی ادویہ ، رشوت و بد عنوانی سمیت سب ہی کچھ برداشت کر گئی اور ہر بحران سے نہ صرف سرخرو نکلی بلکہ اس تحریک کے بطن سے1924ء  میں ونٹر اولمپکس اور 1948ء میں معذور و خصوصی ایتھلیٹس کے پیرا اولمپکس نے جنم لیا۔ اب تو یہاں تک ہوگیا ہے کہ بے وطن لوگوں کی نمائندگی کیلئے بھی اولمپک کمیٹی بن گئی ہے۔اس کے تحت  پچھلے ریو اولمپکس میں پہلی بار10 پناہ گزین ایتھلیٹس کی عالمی ٹیم نے شرکت کی۔
اب سے 3 عشرے پہلے تک ہر چھوٹے بڑے ملک کا خواب ہوا کرتا تھا کہ اس کے ہاں کبھی نہ کبھی گرمائی نہیں تو سرمائی اولمپکس ایک بار ضرور ہوںکیونکہ اولمپکس کی میزبانی کسی بھی قوم کی خود اعتمادی اور اقتصادی و سیاسی مضبوطی کا ایسا اشتہار ہوتی ہے جو عالمی سرمایہ کاری کو اپنی جانب کشاں کشاں کھینچتا ہے مگر کھیلوں کا خرچہ ہر بار اس قدر بڑھتا جا رہا ہے کہ ایسے ممالک کی تعداد کم سے کم ہو رہی ہے جو اولمپک کی بار اٹھا سکیں۔
  کہاں1896 کا پہلا جدید اولمپک جس کا خرچہ3,2 مخیر حضرات اور حکومتِ یونان کی گرانٹ نے پورا کر لیا اور کہاں 2008کے بیجنگ اولمپکس پر 44 ارب ڈالر اور 2014ء میں روس میں ہونے والے سوچی سرمائی اولمپکس پر51 ارب ڈالر خرچ ہوگئے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے بزنس اسکول میں ایک گروپ نے 30 سرمائی و گرمائی اولمپک گیمز  کے اخراجات کا موازنہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ ان میں سے کوئی اولمپک ایونٹ بھی اس بجٹ کے اندر نہیں ہو سکا جس کا اندازہ ابتدا میں لگایا گیا بلکہ آدھے اولمپک گیمز  کے اخراجات ابتدائی اندازوں سے100 فیصد سے بھی زائد بڑھ گئے۔
اب تک صرف 2اولمپک گیمز خسارے سے بچ پائے۔1984ء کے لاس اینجلس اولمپکس کے میزبانوں کو تسلی بخش کارپوریٹ اسپانسر شپس مل گئیں اور کئی گیمز پہلے سے قائم میدانوں یا عمارات میں منعقد کروانے کے سبب منتظمین کا تعمیراتی خرچہ کم ہو گیا۔یوں معمولی منافع ہو گیاجبکہ1992ء کے بارسلونا اولمپکس کی تعمیرات کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا کہ وہ شہری سہولتوں کے پہلے سے موجود ماسٹر پلان میں سمو لی گئیں اور اولمپک گیمز کے بعد بھی مقامی باشندوں  کے کام آتی رہیں۔دیگر میگا اولمپک ایونٹس میں میزبان ملک اور شہر کے ہاتھ زیادہ تر واہ واہ ہی آئی۔
کمر توڑ اخراجات اور متوقع آمدنی میں روز بروز بڑھتے ہوئے فرق کا نتیجہ اب یہ نکل رہا ہے کہ بہت کم ممالک اتنی ’’ مہنگی عزت ’’ کمانے کے شوق میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔مثلاً 2014ء کے سوچی ونٹر اولمپکس پر51 ارب ڈالر کے خرچے کا سن کر کم ازکم 4 یورپی شہر2022ء  کے ونٹر اولمپکس کی میزبانی کی دوڑ سے باہر نکل گئے۔آخر میں صرف2 شہر الماتا ( قازقستان ) اور بیجنگ رہ گئے۔قرعۂ فال بیجنگ کے نام نکلا۔
ریو ڈی جنیرو نے جب 10 برس پہلے سمر اولمپکس2016 کی میزبانی جیتا تو اس وقت برازیل تیز رفتار اقتصادی ترقی کے نشے میں تھا لیکن جب یہ گیمز منعقد ہوئے تب تک  برازیل کا معاشی نشہ ہرن ہو چکا تھا اور کئی مقامی تبصرہ نگاروں کے بقول عزت بچانے کے لئے گلے میں پڑا اولمپک ڈھول بجانا پڑ ا۔پھر بھی برازیل کے قریباً 10سے 12ارب ڈالر میزبانی کے چکر میں لگ  گئے۔
مگر کہا ناں کہ اولمپک تحریک خاصی سخت جان ہے۔اخراجات بانٹنے یا مشترکہ اولمپکس منعقد کروانے کے فارمولے پر بھی گفتگو شروع ہو چکی ہے کیونکہ شو تو بہرحال جاری رہنا ہی ہے مگر جاپان نہ صرف ایک بامروت بلکہ وضع دار ملک ہے۔ اس پر2020ء تک بے پناہ بار پڑ ے گا لیکن وہ تنِ تنہا جھیل جائے گا۔ مجال ہے منہ سے سی نکل جائے۔
 
 
 

شیئر: