Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یوپی کا کسان جاگ گیا

 
ظفر قطب ۔ لکھنؤ
 
ہند میں اگر کسی سماج اور طبقہ میں اتحاد ہے اور وہ ارباب اقتدار پر زور ڈال سکتا ہے تو پھر اس کی چاندی ہے اور اسے کوئی پریشان نہیں کرسکتا ۔یہ بات سیاست میں بھی کامیاب دیکھی گئی ہے اور سماج میں بھی۔ جہاں تک معاشی میدان کا تعلق ہے تو اس میں 2طبقات نمایاں ہیں، ایک تو کاروباری اور دوسرا ہے کاشت کار۔ کاروباریوں کا تعلق علمی طبقہ سے ہے ،وہ چاہے خود کم تعلیم یافتہ ہو لیکن اس کے نوکر شاہ انتہائی اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ ہیں بلکہ تجارت و صنعت کی دنیا کے اسرار و رموز سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ حکومت میں بیٹھے لوگوں سے انکے براہ راست اور خوشگوار تعلقات ہوتے ہیں اس لیے وہ اپنی کمپنیوں اور کارخانوں و کاروبار کے حق میں جیسا چاہتے ہیں فیصلہ کرالیتے ہیں۔ یہ ماحول ہندوستان میں عرصہ سے قائم ہے۔ جب ہم دوسرے طبقہ کی بات کرتے ہیں تو اس کے الٹا پاتے ہیں ۔اول تو کاشت کار کم پڑھا لکھا ہوتا ہے۔50 فیصد تو ناخواندہ ہی نکلیں گے اس لیے ان میں اتحاد و اتفاق کی بڑی کمی ہوتی ہے۔ وہ شہر کے پڑھے لکھے عوام کی چکنی چپڑی باتوں سے بہت جلد متاثر ہوجاتا ہے۔
    نریندر مودی جب ملک کے وزیراعظم ہوئے تو وہ دہلی اور پارلیمنٹ کے گوشے گوشے میں جاکر ہر چیز کا جائزہ لے رہے تھے کہ آخر دہلی اورپارلیمنٹ ہاؤس میں کیا ایسی کشش ہے جس کے سیاست داں اتنے بھوکے رہتے ہیں کہ وہ کب موقع ملے اور دہلی پہنچ کر ایک سیٹ پر قبضہ کرلیں ۔ ایک دن مودی صاحب ٹہلتے ٹہلتے پارلیمنٹ ہاؤس کی کینٹین میں پہنچ گئے۔ وہاں انھوں نے سستا والا کھانا کھایا جو پارلیمنٹ ہاؤس اپنے ممبران کو کم پیسے میں مہیا کراتا ہے۔ مودی صاحب نے کھانا کھایا تو اس کا بل اتنا کم آیا کہ وہ خوش ہوگئے اور کینٹین کے رجسٹر میں جو مہمانوں کیلیے رکھا رہتا ہے کہ وہ اپنا تاثر ظاہر کریں ،اس پر خوش ہوکر نئے نئے وزیراعظم بنے مودی نے کاشت کا رکا شکریہ ادا کیا اور اپنی خوشی کسان کی جھولی میں ڈالنے کی اچھی چال چلی۔ ملک کاکسان اتنا خوش ہوگیا کہ اسے یاد ہی نہیں کہ اس جملہ میں اسکے استحصال کی ایک طرح سے کوشش کی گئی ہے۔ وزیراعظم چاہے وہ ملکی کپڑا مِل ہو یا غیر ملکی وہ9 لاکھ روپے کا سوٹ پہن کر پھولے نہیں سماتے لیکن اپنے ملک کے کسان کی گاڑھی محنت کی کمائی کا چاول دال اور آٹا بہت سستے پیسے میں کھاکر ، خوش ہوتے ہیں۔کبھی کسی سیاسی لیڈر نے یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ ہم کھانا تو سستے سے سستا کھانا چاہتے ہیں ، کسان کو چاہے اس کی اصل قیمت بھی نہ ملے۔
     اتر پردیش میں کاشت کاروںکی حالت اسی لیے بد تر ہے کہ یہاں جو بھی حکومت قائم ہوتی ہے، ان میں سے بہت کم حکومتیں ایسی رہی ہیں جو کسانوں کے حقوق کی بات کرتی ہوں اور ان کی پیداوار کی مناسب قیمت دلانے کی طرف سوچتی ہوں۔ یوپی میں تو جب سے بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے کسانوں کی حالت انتہائی خراب ہوچلی ہے۔ اس کے دھان گیہوں اور دالوں کی قیمت پہلے مہاجن ساہو کار بنئے اور بچولیے سے کرتے ہیں اور حکومت خاموش بیٹھی رہتی ہے وہ ان سیٹھوں اور مہاجنوں کو دل کھول کر اپنی تجوری بھرنے کا پورا موقع دیتے ہیں اور کیوں نہ دیں، الیکشن کے مواقع پر وہی لوگ تو سیاسی جماعتوں کو چندہ بھی دیتے ہیں ۔
     اترپردیش میں کسان اس وقت تک ایک پلیٹ فارم رہے جب تک بھارتیہ کسان کے سربراہ مہیندر سنگھ ٹکیت زندہ رہے۔ویسے اس تحریک کو بھی کئی بار سیاست دانوں کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ کبھی ہریانہ کی ریاستی حکومتوں کو بلیک میل کیا گیا تو کبھی مرکز میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے ذاتی مفاد کے لیے اس کے لیڈروں نے خوب کھیل کھیلے اور 2013ء میں تو اس تحریک کو پوری طرح فرقہ پرست سیاست کے حوالے کرکے مغربی یوپی میں جو فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہوئے اس میں اس کسان تحریک کا نام کھل کر سامنے آگیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج اس تحریک کی حیثیت بالکل بدل گئی ہے ۔گزشتہ 4برسوں سے کسان الگ الگ پلیٹ فارم سے اپنے مطالبات حکومت کے سامنے رکھتے رہے جس کا کوئی فائدہ انھیں نہیں ملا اور ان کی پیداوار کو جس طرح بنیوں ساہوکاروں اور دلالوں نے جیسا چاہا خریدا اور فروخت کیا۔ اس میں مرکزی اور موجودہ یوپی کی حکومتیں بھی اسی ماحول کو پسند کرتی تھیں۔ اس سے مجبور ہوکر کسان خود کشی کرنے لگا۔اس کے سامنے مسائل کے پہاڑ کھڑے ہوتے گئے لیکن حال میں بندیل کھنڈمنطقہ سے امید کی ایک کرن نظر آئی ۔وہاں کے کسانوں نے جاری ماہ جون کے اوائل میں گاؤں بند کا اعلان کردیا۔ اپنی پیداوارشہر کی منڈیوں میں بھیجنے سے انکار کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہروں میں اشیائے خوردنی کے علاوہ دودھ ،گھی ، شہد، انڈوں ، سبزیوں اور پھلوں کی زبردست قلت پیدا ہوگئی جس کی بنا پر غذائی اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں ۔ اس بار بندیل کھنڈ کے کسان بھارتیہ کسان یونین کے تحت کام نہیں کررہے تھے۔ ان کے لیڈر تھے گوری شنکر بندوا جو ایک پڑھے لکھے کسان ہیں۔ اس لیے انھوںنے پہلے 2نکات اٹھائے۔ ایک تو کسانوں کی قرض معافی کا معاملہ تھا جس سے پریشان ہوکر کسان خود کشی کرنے پر مجبور تھا۔یہ واقعات سب سے زیادہ بندیل کھنڈ میں ہی ہورہے تھے۔ریاستی و مرکزی حکومتوں دونوں نے قرض معافی کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے پرائیوٹ سود خور کمپنیوں اور سرکاری بینکوں کو کھلی چھوٹ دے دی تھی کہ وہ کسانوں سے قرض کی وصولی میں تیزی لائیں۔ قرض معافی کے نام پر حکومت نے کسانوں کے ساتھ جو مذاق کیا تھا وہ ظاہر ہوگیا۔فصلوں کی صحیح قیمت دینے کا مطالبہ گاؤں بند کے لیڈروں نے دونوں مرکزی و ریاستی حکومتوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ ان2 مطالبات کی حمایت میں پورے بندیل کھنڈ کے کسان ہڑتال پر چلے گئے۔ کسانوں کی یہ تحریک ابھی علاقائی طور پر سامنے آئی ہے لیکن ارباب اقتدار کو ان خطرات کا احساس ہوچلا ہے۔ اگر اس کا دائرہ بڑھا اور پورے ملک کے کسان متحد ہوگئے تو کیا ہوگا؟
    گناکسان لیڈرنے کہا کہ کسانوں کو شکر ملوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، اس لیے ہم لوگ اس طرح تعطیل نہیں منارہے جس طرح ملکی لیڈران اور افسر شاہی چھٹیاں گزارتی ہے۔ اس دوران کسان لیڈران نے گاؤں گاؤں جاکر کسانوں کو صبر کی تلقین کی کہ گھبرائیں نہیں ،اس کا کچھ اچھا ہی نتیجہ نکلے گا، حالانکہ ابھی ایسا کچھ تو نہیں ہوا البتہ کسانوں کی قرض وصولی ضرور ملتوی ہوگئی ہے اور ان کی پیداوار کی صحیح قیمت طے کرنے کے لیے حکومت نے نئی کمیٹیاں بنا دی ہیں جو کسانوں کے مسائل پر از سر نو غور کررہی ہیں۔ اس احتجاج ، ہڑتال اور گاؤں بند کا فائدہ چاہے ابھی نہ ملے لیکن بندیل کھنڈ نے پورے ملک کے کسانوں کو ایک بڑا پیغام دیا ہے کہ سیاست دانوں کی باتوں میں نہ آکر اب خود اقدام کرنا ہوگا۔ حکومت بھی تشویش میں پڑ گئی ہے کہ اب اترپردیش میں عوام خصوصاً کسانوں کو مذہبی منافرت کے سہارے بہکایا نہیں جاسکتا ۔رام مندر ، تاج محل اور محمد علی جناح کی تصویر کے سہارے ماحول کشیدہ کرکے الیکشن نہیں جیت سکتے ، اب کسان بیدار ہوچلا ہے ، اسے زیادہ دن بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔
مزید پڑھیں:- - - -کیرانہ میں تبسم
 

شیئر: