Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عالمی ادارے ایران سے نکلنے لگے

سعودی عرب سے شائع ہونے والے اخبار ”الاقتصادیہ“کا اداریہ نذر قارئین ہے
امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کی جانےوالی پابندیوں کے تناظر میں جو توقعات کی جارہی تھیں وہی سامنے آنے لگیں۔ مالیاتی ادارے اور بینک ایران کو خیر باد کہنے لگے۔ امریکہ مستقبل میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا عندیہ دیئے ہوئے ہے۔ امریکی ایران کے رویئے سے انتہا درجے ناراض ہیں۔ امریکہ کے عدالتی ادارے ایسے ادارروں کے ساتھ جو انکی ہدایات کو درخو اعتنا نہ سمجھتے ہوں سختی سے پیش آنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اب مسئلہ نقطہ نظر کا نہیں بلکہ عدالتی پالیسی کا ہے۔ 
مذکورہ تناظر میں ہندوستان کے ریاستی بینک کی جانب سے ایرانی پٹرول کی قیمت کی ادائیگی کے حوالے سے تمام امور کو منجمد کرنے کا فیصلہ بخوبی سمجھ میں آرہا ہے۔ ہندوستان سے اسی فیصلے کی توقع تھی۔ متعدد ممالک امریکی حکومت کو مالیاتی اداروں کو پابندیوں سے استثنیٰ دینے پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر کامیابی نہیں ملی۔ یورپی حلیفو ںنے اس حوالے سے کافی ہاتھ پیر مارے مگر بات نہیں بنی۔
ہندوستان کے نیشنل بینک نے ایسے وقت میں ایران کیساتھ مالیاتی لین دین کے عمل کو منجمد کیا ہے جبکہ تیل برآمدات کے حوالے سے مالی معاملات کے سلسلے میں ایرانی نظام کے مکمل دھڑن تختہ ہونے کا خدشہ یقینی نظر آنے لگا ہے۔ ایران کے فرقہ وارانہ تخریبی نظام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مالیاتی ادارے کسی بھی شکل میں اسے خدمات فراہم کرتے رہیں۔ درپیش صورتحال یہ ہے کہ اس سلسلے میںکوئی حیلے بازی کام نہیں آئیگی۔
آئندہ ایام میں بہت سارے مالیاتی ادارے ایران کے ساتھ لین دین منجمد کرنے والے ہیں۔ امریکہ کا فیصلہ اس سلسلے میں حد سے زیادہ واضح ہے۔امریکہ کو مالیاتی اور تجارتی اداروں کے حوالے سے پابندیوں کا گہرا اور وسیع تجربہ ہے۔ امریکہ کو یقین ہے کہ یہ پابندیاں ہی ایران کی کمر توڑیں گی ۔جو ملک یا ادارہ ان پابندیوں کی خلاف ورزی کریگا، اس پر نہ صرف یہ کہ جرمانے لگیں گے بلکہ اسے عدالتوں میں بھی کھینچا جائیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: